آخر غلامی کی کوئی حد ہوتی ہے

صدیوں تک طاقت کے بل بوتے پر انسانوں کو اُن جیسے ہی انسان اپنا غلام بنا لیتے تھے۔ وہ انسانوں کے ریوڑ کے ریوڑ ہانک کر اپنے ملکوں میں لے آتے اور پھر اُن کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا کرتے تھے۔ پھر استعماری دور آیا کہ ٹیکنالوجی کے زور پر یورپی قومیں دوسرے پسماندہ افریقی‘ ایشیائی اور امریکی ممالک میں جا پہنچتیں اور انہیں اپنا غلام بنا لیتی تھیں‘ پھر جس قوم میں جذبۂ حریت اور آزادی کے لیے لگن جتنی زیادہ ہوتی وہ اتنا جلدی غلامی کی زنجیریں توڑ دیا کرتی تھی۔ تاہم اصل غلامی ذہنی غلامی ہوتی ہے۔ اس کے لیے تیر و تفنگ‘ افواجِ قاہرہ اور توپ خانے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ ایسی غلامی کی واقعی کوئی حد نہیں ہوتی۔ وفاقی وزارتِ تعلیم سے جاری ہونے والے ذہنی غلامی کے تازہ ترین شاہکار کے بارے میں آپ کی خدمت میں کچھ ہوشربا انکشافات پیش کرنے سے پہلے میں ایک دو تاریخی حوالوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
1867ء میں بنارس کے کچھ ہندو رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ سرکاری عدالتوں اور دفتروں میں اردو اور فارسی کو یکسر ختم کر دیا جائے اور اسکی جگہ ہندی کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا جائے۔ سر سید احمد خاں جیسے روشن خیال اور ترقی پسند مسلمان دانشور و ادیب نے ہندوؤں کے اس مطالبے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ''مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اب ہندو اور مسلمان بطور ایک قوم کے کبھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے‘‘۔ سر سید نے یکم اگست 1867ء کو وائسرائے اور گورنر جنرل کو ایک یاد داشت پیش کی جس میں انگریزی ذریعۂ تعلیم کو ناقص قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ یورپی علوم و فنون اور سائنس کی روشنی کو عام کرنے کے لیے انگریزی کی بجائے اردو زبان زیادہ موزوں ہے۔ گویا دو قومی نظریے سے پہلے ہندوستان میں دو لسانی نظریہ وجود میں آ چکا تھا۔ ہندوؤں کی اس عصبیت اور تنگ نظری کی بنا پر بالآخر مارچ 1940ء میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن پاکستان کیلئے مسلمانانِ ہند نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کر لی۔
20نومبر 2024ء کو وفاقی وزیر تعلیم جناب ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم اسلام آباد کے چار وفاقی سکولوں اور کالجوں کو اپنے پاکستانی نصابِ تعلیم سے منقطع کر کے کیمبرج سسٹم کے ساتھ منسلک کرنے کا فخریہ اعلان کر رہے ہیں۔ اور یہ کہ ہم ورلڈ کلاس کیمبرج سکول سسٹم کے ذریعے اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں تعلیم دینے کا آغاز کر رہے ہیں۔اسلام آباد کے سکولوں میں اردو انگریزی کا ملا جلا ایک شاندار قومی نصابِ تعلیم رائج ہے جس سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات اعلیٰ تعلیم کے ہر شعبے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اردو سپیکنگ اور اردو ذریعۂ تعلیم اور اسے سرکاری زبان کے طور پر جلد از جلد رائج کرنے کے مطالبات کرنے والی ایم کیو ایم کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی سوچ بابوؤں کی بستی میں پہنچ کر یوٹرن لے جائے گی۔ گویا خالد مقبول صدیقی کے نزدیک کیمبرج سسٹم والی تعلیم ورلڈ کلاس اور ہماری تعلیم تھرڈ کلاس ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ساری قوم کو تھرڈ کلاس تعلیم دے رہے ہیں‘ بالعموم اس طرح کی پٹیاں تازہ تازہ آنے والے وزیروں کو اسلام آباد کے افسران اپنی محدود سی ذاتی ترجیحات کی خاطر پڑھایا کرتے ہیں۔
وفاقی سیکرٹری تعلیم محی الدین احمد وانی کے بارے میں اپنے دوست ڈاکٹر زاہد منیر عامر صاحب سے سن رکھا تھا کہ وہ صاحبِ علم شخصیت ہیں اور اردو فارسی سے دلی لگاؤ رکھتے ہیں۔ مجھے یقین نہیں کہ انہوں نے وفاقی وزیر تعلیم کو یہ غلامانہ تجویز پیش کی ہو گی۔ شہرِ اقتدار کے اربابِ بست و کشاد کو معلوم ہوگا کہ کئی دہائیوں سے پنجاب کے ٹاٹ سکولوں سے پڑھ کر طلبہ گورنمنٹ کالج لاہور جیسے ''پاکستانی سسٹم‘‘ کالج میں پہنچتے اور پھر کنگ ایڈورڈ کالج جیسے تعلیمی اداروں میں ایم بی بی ایس کر کے پلک جھپکنے میں امریکہ اور برطانیہ جا پہنچتے اور وہاں نہایت باصلاحیت ڈاکٹروں کی حیثیت سے اپنا لوہا منواتے۔ اسی طرح ہمارے انجینئرز بھی مشرقِ وسطیٰ اور دوسرے ممالک میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے۔ ان سکولوں کے طلبہ و طالبات بیک وقت انگریزی اور اردو پر عبور رکھتے اور دونوں زبانوں میں اپنا مافی الضمیر روانی سے بیان کر لیتے تھے۔ اُس زمانے میں یہی سرکاری سکول و کالج تھے جن سے فارغ التحصیل طلبہ سی ایس ایس میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کرتے اور پاک فوج میں بآسانی کمیشن بھی حاصل کر لیتے تھے۔ ایسی ہی صورتحال سندھ اور خیبر پختونخوا کی تھی۔
یہ رنگ برنگ انگلش میڈیم کیمبرج‘ امریکن اور نہ جانے کیا کیا سسٹم‘ نجی‘ ایلیٹ کلاس مہنگے سکولوں کے چھوٹے بڑے شہروں میں اچانک نمودار ہونے کی بھی تاریخ ہے۔ ہوا یوں کہ 1978ء میں جنرل ضیا الحق نے ایک ایسی تعلیمی پالیسی قوم کو دی کہ جس کے مطابق تمام سکولوں میں یکساں قومی نصابِ تعلیم رائج کر دیا گیا۔ اسلامیات اور قرآنی تعلیمات کو تمام سکولوں اور کالجوں میں لازمی مضمون کی حیثیت دی گئی۔ نیز بچوں کی اخلاقی تربیت کو بنیادی ترجیح قرار دیا گیا۔ اس تعلیمی پالیسی میں یہ فیصلہ بھی ہو گیا تھا کہ ایچیسن کالج سے لے کر ہر طرح کے سرکاری و نجی ادارے صرف قومی نصاب پڑھانے اور اس کے مطابق پاکستانی تعلیمی بورڈز سے اپنے طلبہ و طالبات کو امتحان دلوانے کے پابند ہوں گے۔
غلامانہ ذہنیت رکھنے والوں اور اپنے آپ کو سپیریئر یا ''اَپر کلاس‘‘ سمجھنے والوں پر ضیاالحق کا یہ فیصلہ بہت گراں گزرا کہ اب سب امیر غریب اور شہری دیہاتی سب ایک طرح ہی کی تعلیم حاصل کریں گے اور ایک ہی طرح کے بورڈز میں امتحانات دے کر اسناد حاصل کریں گے۔ لہٰذا چند بااثر افراد جنرل ضیا الحق کے پاس پہنچے اور اُن سے ایک درخواست کی کہ بعض پاکستانی بچے بیرونِ ملک سے ادھوری تعلیم کے ساتھ واپس آتے ہیں لہٰذا سکولوں کو بیرونی بورڈز کے ساتھ بھی منسلک ہونے اور ان کے امتحانات دینے کی اجازت ہونی چاہیے۔ یوں سکولوں میں یکساں نصاب اور اردو ذریعۂ تعلیم کا خواب پریشاں ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے چند ہی ماہ میں رنگ برنگ انگلش میڈیم سکول کھل گئے جن میں پاکستانی نصابِ تعلیم نہیں‘ غیرملکی نصاب پڑھائے جانے لگے اور بھاری فیس دے کر بچے اجنبی تعلیم اور بہت بھاری زرمبادلہ ادا کرکے فارن بورڈز کے امتحانات دینے لگے۔ ان سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ وہ اردو زبان سے نابلد ہو گئے‘ اپنے کلچر سے بیگانہ ہو گئے۔
اوائلِ عمری میں انگلستان جانے اور لندن میں تعلیم حاصل کرنیوالے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کی سرکاری زبان اردو قرار دی۔ اسی طرح انگلستان اور جرمنی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنیوالے ہمارے قومی شاعر علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے اپنی قوم کو جگانے کیلئے اردو اور فارسی شاعری کو ذریعۂ اظہار بنایا اور ملت میں ایک ولولہ تازہ پھونک دیا۔ اس فقیر کو بھی کچھ مدت کیلئے کیمبرج یونیورسٹی انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ خدا کا شکر ہے کہ اللہ نے غلامانہ ذہنیت سے محفوظ رکھا۔ یورپ کے چھوٹے سے چھوٹے ملک میں انگریزی میں نہیں ان کی اپنی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔ عرب دنیا میں عربی میں‘ ایران میں فارسی اور ترکیہ میں ترکی زبان ذریعۂ تعلیم ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ ہمیں اپنا قومی انگلش میڈیم نصابِ تعلیم بھی ناپسند ہے۔ ہم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے مطالبہ کریں گے کہ وہ اسلام آباد کے سرکاری سکولوں میں پاکستانی نصاب کو ہرگز نہ بدلیں‘ ہم پارلیمنٹ کی ایجوکیشن کمیٹی سے بھی مطالبہ کریں گے کہ وہ وفاقی وزیر تعلیم کو اسلام آباد کے چار کالجوں کو کیمبرج سسٹم کرنے کا امتیازی قدم واپس لینے کا حکم دے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں