اصل نقصان عوام کا

مسلح افواج کے ترجمان ایک سنجیدہ فکر شخصیت ہیں اور عساکر کی ترجمانی دلیل ومنطق اور کبھی کبھی جدتِ بیان کے ساتھ کرتے ہیں؛ البتہ جمعۃ المبارک کو بانی تحریک انصاف کے کچھ ٹویٹس پر کافی سخت ردعمل سامنے آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جیل میں قید شخص ذہنی مریض بن چکا ہے اور اس کا بیانیہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے اور بھی بہت کچھ کہا جسے آپ سن اور پڑھ چکے ہوں گے‘ ہم اس بارے میں مرزا غالب کے الفاظ میں اتنا ہی عرض کریں گے:
بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سرگردانی اور ہے
بہت سے معاصر کالم نگار اس حوالے سے اپنا تجزیہ اور تبصرہ سپردِ قلم کر چکے‘ لہٰذا تکرارِ الفاظ کے بجائے میں سیاستدانوں اور مقتدرہ کی خدمت میں تاریخ‘ جی ہاں! اپنی ملکی تاریخ سے چند صفحات پیش کرنا چاہوں گا۔ بقول اقبال:
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات
جب 1977ء میں اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور اس دور کی متحدہ اپوزیشن‘ پاکستان قومی اتحاد کے درمیان تنائو شدت اختیار کر گیا تو اپوزیشن الائنس کی طرف سے کئی مطالبات وزیراعظم بھٹو کے سامنے پیش کئے گئے۔ اس موقع پر اسلام آباد میں برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے فرمانروا شاہ خالد بن عبدالعزیز کے ایما پر سعودی سفیر جناب ریاض الخطیب پس پردہ باہمی مفاہمت کے لیے متحرک ہو گئے۔ شاہ خالد اپنے پیشرو شاہ فیصل اور دیگر سعودی فرمانروائوں کی طرح پاکستان سے دلی محبت رکھتے تھے۔ لہٰذا ریاض الخطیب شٹل ڈپلومیسی کے محاذ پر کمربستہ ہو گئے۔ یہاں مجھے پاکستان کے ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر کپتان اور بعد میں سوئٹرز لینڈ میں پاکستان کے سفیر جناب اے ایچ کاردار کی کتاب An Ambassador's Diary یادآ گئی جس میں ایک پتے کی بات لکھی ہے کہ سفیر کا کام یہ ہے کہ وہ جس ملک میں سفیر بنے‘ وہاں سے جو سنے اسے اپنے ملک رپورٹ کرے اور وہاں سے سفیر کو اپنے ملک کے حکمرانوں تک پہنچانے کے لیے جو پیغام دیا جائے وہ من وعن پہنچا دے۔ ریاض الخطیب سعودی حکومت کی طرف سے وزیراعظم بھٹو اور اپوزیشن الائنس کے رہنمائوں جناب مفتی محمود‘ نوابزادہ نصراللہ خان اور دیگر دینی و سیاسی قائدین تک پیغامات پہنچاتے رہے۔
ذوالفقار علی بھٹو 20 دسمبر 1971ء کو آل پاور فل حاکم کی حیثیت سے برسر اقتدار آئے مگر 'ھل من مزید‘ کی طلب پھر بھی ان کے ہاں موجود تھی۔ مارچ 1977ء کے انتخابات میں انہوں نے دھاندلی کرائی اور جب متحدہ اپوزیشن نے پاکستان متحدہ قومی محاذ کے نام سے تحریک چلائی تو بھٹو صاحب تاخیر سے مذاکرات کی میز پر آئے۔ سعودی قیادت کا مسیج بڑا واضح تھا کہ ان کی دلی خواہش ہے کہ پاکستان میں مکمل استحکام ہو۔ ریاض الخطیب نے وزیراعظم بھٹو کو قائل کر لیا کہ وہ اپوزیشن کو کچھ رعایتیں دیں اور ان کے اہم ترین مطالبات تسلیم کر لیں۔ ریاض الخطیب کے ذریعے پاکستانی رہنمائوں تک یہ پیغام بھی پہنچایا گیا کہ اُمت مسلمہ کے اتحاد میں پاکستان کا کردار کلیدی ہے۔ اس برادرانہ اسلامی ڈپلومیسی کے اچھے ثمرات ونتائج سامنے آئے اورحکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات نہایت خوشگوار ماحول میں ہو گئے اور دو طرفہ رضامندی سے متفقہ فیصلے بھی ہو گئے مگر اسے ہماری بدقسمتی کہیے کہ مذاکرات میں ہونے والے متفقہ فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے میں بھٹو صاحب نے دیر کر دی‘ نتیجتاً جولائی 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور بھٹو صاحب ایک افسوسناک انجام سے دوچار ہوئے۔ سیاست نام ہی حکمت وتدبر کا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ سیاستدان اس ہنر سے کم ہی کام لیتے ہیں۔ ان کے اندر بالغ نظری اور دور اندیشی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اسی طرح 1980ء کی دہائی کے اواخر سے 1990ء کے عشرے تک بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان ٹھنی رہی۔ بہت کچھ لٹانے کے بعد سیاسی جماعتیں ہوش میں آئیں اور مئی 2006ء میں بینظیر بھٹو‘ نواز شریف‘ قاضی حسین احمد اور عمران خان سمیت سیاسی قائدین میں میثاق جمہوریت لندن میں طے پایا مگر اس پر اس کی حقیقی روح کے مطابق کبھی عمل نہ ہو سکا۔
عمران خان کو کئی برس کی شفقت سے مقتدرہ کے کچھ ادارے برسر اقتدار لائے۔ تاہم خان صاحب پر یہ حقیقت منکشف نہ ہو سکی کہ لانے والے جلد ہی اپنے لائے گئے شاہکار سے اُکتا جاتے ہیں۔ اسی دو طرفہ کشاکش کی بنا پر ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں ہم پچاس‘ پچپن برس قبل کھڑے تھے۔ آج مقتدرہ اور سیاستدانوں کو چند بنیادی حقائق ذہن نشین کر لینے چاہئیں۔ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہماری داخلی آویزش سے خوش کون ہو گا اور پریشان کون ہوگا۔ سیدھی بات ہے‘ پاکستان میں داخلی افراتفری اور عدم استحکام سے سب سے زیادہ خوش بھارت اور اسرائیل ہوں گے اور سب سے زیادہ رنجیدہ خاطر اور پریشان مسلم دنیا میں ہمارے عزیز ترین بھائی ہوں گے۔
برادر مسلم ممالک دل و جان سے یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی قوت عالمِ اسلام کی قوت ہے۔ اس لیے ہمارے باہمی تنازعات پر انہوں نے ہمیشہ آزردگی اور کبیدگی خاطر کا اظہار کیا ہے۔ ان کی رائے یہی رہی ہے کہ ہم باہمی افہام وتفہیم سے معاملات حل کریں۔ سیاستدانوں کو یہ بات پلے باندھ لینی چاہیے کہ سدا اقتدار میں رہنا ان کے لیے ممکن نہیں‘ لہٰذا اگر کسی دوسرے کی باری آتی ہے تو خوش دلی سے اس کے لیے راستہ کشادہ کر دیں اور اقتدار سے چپکے رہنے کی لیے ادھر اُدھر نہ دیکھیں۔
مئی 2025ء میں معرکۂ حق کے دوران رب ذوالجلال نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن بھارت پر پاکستان کو بے مثال کامیابی عطا کی۔ ہمارا پڑوسی ابھی تک انتقام کی آگ میں جل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہمارا مقابلہ صرف جنگی میدانوں یا آسمانوں میں نہیں بلکہ ہر میدان میں ہے۔ وہ سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور ہمیں بھی اللہ نے قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں جمہوریت کے راستے سے ہی آزادی کی نعمت عطا کی‘ لہٰذا جمہوری ماڈل کے سوا ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں۔ بھارت ایک مضبوط معیشت کے گن گاتا ہے‘ ہمیں بھی ایک خوشحال اکانومی بننے کی ضرورت ہے۔ ورلڈ بینک کے بعد ایک فرانسیسی اقتصادی ادارے نے بھی پاکستان کا تفصیلی سروے کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں کا پہلا مسئلہ بے حد مہنگائی اور دوسرا مسئلہ بیروزگاری ہے۔
بیرونِ ملک مقیم پاکستانی یوٹیوبرز اور ٹرولرز ساحل سے طوفان کا نظارہ کرتے اور آگ بھڑکاتے ہیں مگر پاکستان میں یہ وقت جلتی پر تیل نہیں پانی ڈالنے کا ہے۔ بزرگ سیاستدان‘ سینئر صحافی اور واجب الاحترام علمائے کرام موجودہ صورتحال میں آگے بڑھ کر قومی مفاہمت کے لیے بھرپور کردار ادا کریں۔ مقتدرہ ہو یا سیاستدان‘ اپنی تاریخ سے سبق ضرور سیکھیں۔
اتوار کے روز ایک معاصر کالم نگار نے اپنے کالم کے اختتام پر لکھا ''جب مقتدرہ نے زیادہ سے زیادہ اختیارات کی خواہش کی سیاست دانوں نے اقتدار کے لیے اپنی روح تک کا سودا کیا‘ دونوں نے ہی بھاری قیمت ادا کی۔ اب کی دفعہ دیکھتے ہیں کہ نقصان کس کا زیادہ ہوتا ہے‘‘۔ کالم نگار کا خیال ہے کہ دونوں کا ہی ہوگا۔ جبکہ اصل نقصان تو عوام بلکہ پاکستان کا ہوگا۔ اللہ ہمیں اس نقصان سے محفوظ رکھے‘ آمین۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں