صرف پاکستان ماڈل

جب مئی 1998ء میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو صرف عالمِ عرب میں ہی نہیں ساری اسلامی دنیا میں ہماری دھاک بیٹھ گئی۔ ہمارے بھائی بہت خوش ہوئے اور وہاں کے لوگ پاکستان کی طرف قابلِ رشک نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ اُس وقت پاکستان کے دانشوروں اور اقتصادی ماہرین نے حکومتِ وقت کو متوجہ کیا کہ ایک ایٹمی قوت کیلئے اقتصادی قوت ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اُس زمانے میں فقیر سعودی عرب میں مقیم تھا۔ ہم نے بھی میاں نواز شریف کی حکومت کو مقدور بھر تحریر و تقریر کے ذریعے سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ میاں صاحب کی سمجھ میں بات آ گئی۔ انہوں نے اپیل کی اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے دل کھول کر زرِمبادلہ وطن عزیز کے بینکوں میں اپنے اکاؤنٹس میں جمع کرایا۔ ابھی حکومت کی اقتصادی منصوبہ بندی اپنا راستہ متعین کر ہی رہی تھی کہ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور 'میرا اقتدار میری مرضی‘ کے تحت ایک نیا سفر شروع کر دیا۔ جنرل صاحب نے 2002ء میں انتخابات کروا دیے‘ اب وہ ایک ''منتخب صدر‘‘ تھے۔ 2008ء میں زرداری صاحب‘ 2013ء میں میاں نواز شریف اور 2018ء میں عمران خان کی حکومت آئی‘مگر اقتصادی خود کفالت کا درجہ حاصل نہ کیا جا سکا۔ آئی ایم ایف سے قرض لیا گیا اور روپے کی قدر میں بڑی کمی ہوئی۔
رواں سال مئی میں پاکستان نے معرکۂ حق میں بھارت کے سات لڑاکا طیارے مار گرائے جن میں فرانسیسی ساختہ رافیل بھی شامل تھے۔ پاکستان کی فضائی و فوجی برتری کو اس مرتبہ صرف اسلامی دنیا میں ہی نہیں ساری دنیا میں سراہا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا بھارت پر ہماری جنگی سبقت کی داد دے چکے ہیں۔ ہمارے برادر ممالک ہمارے ساتھ دفاعی معاہدے کرنا چاہتے ہیں۔ میرے بہت سے اصحابِ فکر و نظر دوست پاکستان ماڈل کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم تمہاری طرف رشک سے دیکھتے ہیں۔ میں نے پوچھا: کیوں؟ تو وہ کہتے ہیں کہ قوت و شوکت کیساتھ ساتھ تمہارے پاس دین سے سچی وابستگی اور جمہوریت بھی ہے۔ ادھر ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ اسلام آباد سے چین ماڈل‘ مصر ماڈل یا کوئی اور ماڈل اختیار کرنے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ پاکستان کے پاس اپنا بہترین ماڈل موجود ہے۔ ہمیں کسی اور طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔
چین ہمارا نہایت مخلص دوست ہے ‘مگر اس کا ماڈل اسے مبارک ۔ ہر ملک کے معروضی حالات کے مطابق اسکا اپنا ماڈل ہوتا ہے۔ ہم چین کی ٹیکنالوجی اور اسکی سائنسی و طبی ترقی سے استفادہ کر رہے ہیں مگر اس کا حکومتی ماڈل ہرگز اختیار نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا اپنا آئین اور نظام ہے۔ بیشک چین نے اپنے کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکال کر خوشحال بنا دیا ہے‘ مگر اس کیلئے چین نے ایک آہنی نظام اپنا رکھا ہے۔ چین میں وَن پارٹی سسٹم ہے۔ یہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا ہے۔ جہاں تک آزادیٔ تحریر و تقریر‘ میڈیا فریڈم‘ اجتماع اور تنظیم سازی کا تعلق ہے تو اس کی وہاں کوئی گنجائش نہیں۔ عدالتیں کمیونسٹ پارٹی کی ہدایات پر عمل کرتی ہیں۔ ججوں کا تقرر یہی پارٹی کرتی ہے۔ سیاسی نوعیت کے مقدمات میں تو عدلیہ کو پارٹی کی طرف سے ڈکٹیٹ کرائے گئے فیصلوں ہی کا اعلان کرنا پڑتا ہے۔ عموماً 99 فیصد ملزموں کو سزا سنا دی جاتی ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی ماہر وکیلِ صفائی نہیں ہوتا۔ عالمی حقوق کی مستند تنظیموں کی طرف سے جاری کردہ رپورٹوں کا ہم یہاں تذکرہ نہیں کرتے‘ ہم نے صرف ان معلومات کا ذکر کیا ہے جنہیں خود چین کی کمیونسٹ پارٹی اپنے نظام کے ضروری عناصر کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ مصر کے سیاسی استحکام کی بات کسی سنجیدہ سٹڈی کے طور پر نہیں کہی گئی ہو گی۔
قارئین ہماری پی ایچ ڈی عرب لیگ پر ہے۔ ہم سعودی عرب کی وزارتِ تعلیم سے منسلک تھے اور بیس برس سے اوپر طائف میں مقیم رہے۔ سعودی کالجوں میں بہت سے مصری اساتذہ ہمارے کولیگ تھے۔ ہم مصر سمیت بہت سے عرب ممالک میں پی ایچ ڈی کیلئے تحقیقی مواد اکٹھا کرنے اور اہم سیاسی و حکومتی شخصیات سے ملاقاتوں کیلئے بھی گئے۔ مصر اور اہلِ مصر کے بارے میں بھی اچھی آگہی حاصل ہوئی۔ تازہ ترین معلومات کے مطابق مصری معیشت کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ وہاں ناقابلِ برداشت مہنگائی اور بدترین غربت ہے۔ مصری شہریوں کی زندگی ایک عذابِ مسلسل ہے۔ مصر کی اقتصادی ابتری کی ایک جھلک ملاحظہ کیجئے۔ عالمی بینک کے مطابق 2015ء میں مصر کی اقتصادی ترقی کی رفتار 4.4فیصد تھی جو 2024ء تک کم ہو کر 2.4 فیصد رہ گئی۔ 2025ء کیلئے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ گروتھ ریٹ چار فیصد ہو جائے گا۔ مصر نے 2013ء میں آئی ایم ایف سے قرضوں کے کئی معاہدے کیے۔ 2016ء میں 12 ارب ڈالر قرض لیا۔ عالمی بینک مصر کو 2023-27ء تک سات ارب ڈالر قرض دے گا۔ اس کے علاوہ کئی دوست ممالک نے کئی ارب ڈالر مصر کو بطور ''دوستانہ اعانت‘‘ بھی دیے ہیں۔
مصر میں معاشی و سیاسی عدم استحکام کی بنا پر معیشت غیریقینی صورتحال سے دوچار ہے‘ بیرونی سرمایہ کاری ندارد اور کرنٹ اکاؤنٹ بے حد دباؤ کا شکار ہے۔ تقریباً 35 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہے۔ جہاں تک سیاسی استحکام کا تعلق ہے تو اپنے ہی لوگوں کے قتلِ عام کے علاوہ اسکی کچھ حیثیت نہیں۔ تین جولائی 2013ء کو فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے منتخب صدر محمد مُرسی کی حکومت کو صرف ایک سال بعد فوجی شب خون کے ذریعے ختم کر دیا گیا‘ اور اگست2013ء میں حکومت کے خاتمے کے خلاف احتجاج کرنیوالے کم و بیش آٹھ سو افراد کو قاہرہ کے میدان النہضہ میں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ مختلف ثقہ رپورٹوں کے مطابق سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 2013ء میں قاہرہ اور دوسرے شہروں میں قتل کیے جانے والے مصریوں کی تعداد دو سے اڑھائی ہزار تک ہے۔ اپنے ہی شہریوں کا بے دریغ قتل کون سا سیاسی استحکام ہے؟ انسانی حقوق کیلئے کوشاں مستند اداروں کی رپورٹ کے مطابق2013ء سے اب تک قوانین اور مقدمات کے حوالے سے مصری حکومت نے انتہائی سخت گیر پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ عوامی سلامتی کے نام پر فوجی عدالتوں کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اس وقت بھی مصر کی جیلوں میں 60 ہزار سے زیادہ سیاسی قیدی بغیر مقدمات کے پڑے ہیں۔ اپنے لوگوں پر جبر و تشدد کی حکومت کو سیاسی استحکام کا نام ہرگز نہیں دیا جا سکتا۔
فیلڈ مارشل سیدعاصم منیر آئندہ پانچ سال کیلئے آرمی چیف اور چیف آف ڈیفنس فورسز مقرر ہو گئے ہیں۔ پارلیمنٹ بھی اپنا کام کر رہی ہے۔ جمہوریت میں اونچ نیچ تو چلتی ہی رہتی ہے۔ ہمیں اب سیاسی و معاشی استحکام کیلئے کسی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں‘ علامہ اقبال کی نصیحت کے مطابق 'اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی‘ کی ضرورت ہے۔ سراغِ زندگی کیلئے ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی طرف دیکھنا ہو گا۔ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کو غور و فکر اور مطالعے کے بعد اتنا سراغ تو مل جانا چاہیے کہ سیاست کیلئے سیاسی حکمت عملی ازبسکہ ضروری ہے۔دوسری طرف حکومت کو فراخدلی سے کام لیتے ہوئے انتقامی دائرے سے نجات حاصل کر لینی چاہیے۔ ہمارے خیال میں اگر مسلم لیگ (ن) سپیکر قومی اسمبلی جناب ایاز صادق کو پی ٹی آئی سے بات چیت کیلئے جملہ اختیارات سونپ دے اور دوسری طرف پی ٹی آئی جناب اسد قیصر کو مذاکرات کیلئے فری ہینڈ دے تو امید ہے کہ باہمی افہام و تفہیم کا راستہ کھلے گا۔ دونوں صاحبان کے درمیان باہمی احترام اور انڈر سٹینڈنگ موجود ہے۔ ہماری قسمت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ایٹمی قوت کا اقتصادی قوت بننا ایسا مشکل کام بھی نہیں‘ بس اس کیلئے ہمیں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ اب ہماری قومی پالیسی ''جیو اور جینے دو‘‘ ہونی چاہیے۔ صرف پاکستان ہی ہمارا ماڈل ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں