نصف صدی سے اوپر کی خونچکاں داستانوں کے بعد آج بنگلہ دیش ایک نئی کروٹ لے چکا ہے۔ وہاں شب وروز بہت کچھ بدل چکے ہیں اور مزید بدلنے کی توقع ہے۔ کتنی ہی برساتوں کے بعد خون کے دھبے کسی حد تک دھل چکے ہیں۔ 1971ء سے لے کر 2025ء کے دسمبر تک کے سانحات وواقعات کے حوالے کچھ باتیں آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
16 دسمبر 2014ء کے روز ہمیں پاکستان میں سانحۂ آرمی پبلک سکول پشاور کے دل دہلا دینے والے مناظر دیکھنا پڑے ۔وہ مناظر جب یاد آتے ہیں تو روح کو پاتال تک تڑپا جاتے ہیں۔ اس روز سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں نے پھول سے بچوں کو نہ صرف مسل دیا۔ دہشت گردوں نے دو چار کو نہیں 144 بچوں کو شہید کر ڈالا۔ مجھے یاد کہ اُن دنوں میں نے جتنے کالم سپردِ قلم کئے وہ سب غمناک دل اور نمناک آنکھوں سے لکھے تھے۔
1970ء میں سال بھر کے دوران عوامی لیگ نے الیکشن قواعد وضوابط کی دھجیاں اڑائی تھیں۔ عوامی لیگ کے اسلحہ ولاٹھی بردار جہاں چاہتے دندناتے پھرتے تھے۔ اسی انتخابی مہم کے دوران مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی لاہور سے بطور خاص ڈھاکہ پہنچے تو وہاں ایئر پورٹ پر اُنکا شاندار استقبال ہوا مگر جب اگلے روز وہ جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوئے تو جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے مولانا کو وہاں پہنچنے نہیں دیا گیا اور جلسہ گاہ پر عوامی لیگ کے غنڈوں نے حملہ کر دیا۔ دوسری تمام پارٹیوں کیلئے انتخابی راستے مسدود تھے مگر عوامی لیگ کیلئے ہر راستہ کھلا تھا۔ جب عوامی لیگ جیت گئی تو اکثریت کے باوجود شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار نہ دیا گیا۔ اس وقت یحییٰ خان نے طاقت کو مسئلے کا حل سمجھا۔ 25 مارچ 1971ء سے ڈھاکہ سمیت پورے مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کیا گیا۔ اس میں مسلح گروہوں اور عام بنگالیوں کی کتنی ہلاکتیں ہوئیں‘ اسکے بارے میں عوامی لیگ اور بھارت نے مبالغہ آمیز دعوے کیے۔ داخلی شورش اور عوام کیساتھ فوجی حکومت کے ٹکراؤ کی بنا پر بھارت کو مداخلت کا موقع مل گیا اور ہمیں 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ دیکھنا پڑا۔
جب بدلے ہوئے حالات میں شیخ مجیب الرحمن جنوری 1971ء میں برسر اقتدار آئے تو اس وقت تک مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ اگر شیخ مجیب الرحمن خونیں حالات سے سبق سیکھتے تو ملک میں حقیقی جمہوری آئین اور کلچر اختیار کرتے۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ اعلان کرتے کہ اب جو اکثریت لے کر آئے گا وہی بنگلہ دیش کا سربراہ بنے گا مگر انہوں نے اسکے برعکس آمرِ مطلق بننے کو ترجیح دی اور بقلم خود بنگلہ دیشی آئین میں چوتھی ترمیم کر کے 1975ء میں تاحیات سربراہی کا تاج اپنے سر پر سجا لیا۔ باقی نصف صدی سے زیادہ کے تاریخی حالات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم جولائی 2024ء پر آ جاتے ہیں۔ اس وقت شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی بنگلہ دیش کی بظاہر وزیراعظم مگر درحقیقت بدترین قسم کی ڈکٹیٹر تھی۔ وہ طرح طرح کے ظلم و ستم مسلسل ڈھاتی رہی۔ کوئی خاتون اتنی سنگدل بھی ہو سکتی ہے کہ وہ ہزاروں کی تعداد میں سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈال دے‘ ٹارچر سیلوں میں انہیں شرمناک نوعیت کی اذیتیں دے۔ پُرتشدد کارروائیں کرے اور کم از کم 80 سیاستدانوں کو لاپتا کر دے۔ جب چاہے سیاستدانوں کے علاوہ حاضر سروس سول وفوجی افسروں کو اٹھوا لے اور انہیں عقوبت خانوں میں ڈال دے۔ جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش لاکھوں طلبہ وطالبات نے اپنے مطالبات کیلئے ڈھاکہ اور دوسرے شہروں میں مظاہرے کیے۔ اُن کا مطالبہ تھا کہ جبر وتشدد بند کیا جائے اور ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کا خاتمہ کیا جائے۔ قارئین کو یاد دلا دوں کہ اس ظالمانہ کوٹہ سسٹم کے مطابق بنگلہ دیشی ملازمتوں میں 1971ء کی ''جنگ آزادی‘‘ میں عوامی لیگ کا ساتھ دینے والوں اور چھاپہ مار کارروائیوں میں حصہ لینے والوں کی دوسری‘ تیسری نسل کو 30 فیصد کوٹہ دیا جاتا تھا۔ اس طرح کے دیگر مراعات یافتہ گروپوں کو شامل کر کے خصوصی کوٹہ 56 فیصد اور باقی اوپن میرٹ کیلئے صرف 44 فیصد ملازمتیں بچتی تھیں۔ تین چار ہفتوں کے ان مظاہروں کے دوران شیخ حسینہ واجد نے سکیورٹی فورسز کو بنگلہ دیشی نوجوانوں کو اندھا دھند گولیوں سے بھون ڈالنے کا حکم دے دیا۔
جولائی کے تین چار ہفتوں میں کم از کم 1400 نوجوانوں کو گولیاں ماری گئیں۔ ہزاروں زخمی اور معذور ہوئے۔ جب پانی سر سے اوپر ہو گیا تو شیخ حسینہ واجد کو مستعفی ہونا پڑا اور وہ بنگلہ دیش سے بھارت کی طرف فرار ہو گئیں۔ مختصراً یہ کہ انہوں نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہ سیکھا اور جمہوری کلچر اپنانے کے بجائے خوفناک ڈکٹیٹر بننے کو ترجیح دی۔ 2010ء میں حسینہ واجد نے ایک انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل قائم کیا تھا‘ جس میں داد تھی نہ فریاد۔ گواہ پیش کیے جاتے اور نہ ہی وکیلوں کو آزادی سے ٹریبونل کے سامنے پیش ہونے دیا جاتا۔ اس ٹریبونل نے اُن لوگوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارنے کے احکامات دیے جو جائے واردات پر موجود بھی نہ تھے۔ 2013ء سے لے کر 2015ء تک جماعت اسلامی کے کم از کم پانچ رہنماؤں کو سزائے موت دی گئی۔ ان میں شہید عبدالقادر‘ شہید قمر الزماں‘ شہید علی احسن مجاہد‘ شہید میر قاسم علی اور جماعت کے امیر شہید مطیع الرحمن نظامی شامل تھے۔ مکافاتِ عمل دیکھئے کہ 1400 نوجوانوں کو پولیس کے ہاتھوں ہلاک کرنے کے جرم میں اسی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے شیخ حسینہ واجد کو اُن کی عدم موجودگی میں سزائے موت سنائی ہے۔ حکومتِ وقت کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم کو ٹریبونل میں کیس کی پیروی کی سہولتیں فراہم کی گئی تھیں۔
سانحہ 71ء اور اسکے بعد دونوں حصوں‘ یعنی پاکستان اور بنگلہ دیش‘ میں ابھی تک حقیقی معنوں میں آئینی جمہوریت قائم نہیں ہو سکی۔ جو حکمران بھی آتا ہے وہ اپنے اقتدار کو دائمی بنانے کے چکر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ ''آل پاور فل‘‘ بننے کے نفسیاتی عارضے سے ہمارے حکمران سابق مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) اور (مغربی) پاکستان میں ابھی تک نجات نہیں پا سکے۔
اب گزشتہ ایک ڈیڑھ برس کے دوران بنگلہ دیش پاکستان کے قریب آتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ اگست 2024ء کے حالات کے بعد بنگلہ دیش میں مثبت تبدیلی آتی محسوس ہو رہی ہے۔ طلبہ کے مظاہروں اور قربانیوں کے نتیجے میں نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں قائم حکومت نے آئندہ سال 12 فروری کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اگرچہ یہ سب کچھ فوج کی اشیرباد سے ہی ممکن ہوا مگر نئے سسٹم میں فوج نے اپنے لیے کوئی کردار رکھا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی عمل دخل ہے۔ عوامی لیگ کے قائدین اور کارکنان قتل وغارت گری اور بدترین لوٹ مار جیسے الزامات میں مقدمات بھگت رہے ہیں اس لیے اس پارٹی کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں دو بڑی سیاسی جماعتیں پیش پیش ہیں۔ ان میں سے ایک تو خالدہ ضیا کی قیادت میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) ہے۔ خالدہ ضیا اس وقت بہت بیمار ہیں۔ بیرونِ ملک مقیم ان کے بیٹے طارق ضیا الرحمن کے بارے میں شنید ہے کہ وہ زور پکڑتی ہوئی انتخابی مہم کی قیادت کریں گے۔ بنگلہ دیش کی دوسری بڑی پارٹی جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی اس مرتبہ ایک پروگریسو سیاسی ومعاشی ایجنڈے کے ساتھ پُرجوش انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ نوجوانوں کی کئی نئی پارٹیاں بھی قائم ہو چکی ہیں مگر انہیں عوام میں زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ البتہ جماعت اسلامی کے سٹوڈنٹ ونگ کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے انتخابات میں واضح کامیابی ملی ہے۔ بنگلہ دیش میں بی این پی اور جماعت اسلامی کا آپس میں بارہا اتحاد رہا ہے مگر اس بار دونوں جماعتوں کے درمیان کوئی الائنس نہیں۔ بنگلہ دیش کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار سیاسی جماعتیں مدمقابل ہیں‘ متحارب نہیں۔ لگتا ہے کہ بنگلہ دیش کے سیاستدانوں اور مقتدرہ نے اپنی خونچکاں تاریخ سے یہ سبق سیکھا ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہے۔