لانے والوں کا احتساب ہونا چاہیے!

آج کل مسلم لیگ (ن) کے قائدین بڑے بڑے اقوالِ زریں سے قوم کو نواز رہے ہیں۔ ضمنی الیکشن کا ''خالی میدان‘‘ مار لینے کے بعد اُن کے پاؤں زمین پر نہیں ٹِک رہے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر جناب میاں نواز شریف گزشتہ کچھ عرصے سے خاموش تھے۔ ان ایام میں انہیں تنہائی اور فرصت کی نعمت میسر تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ شاید وہ اس نعمت کی بدولت گئے دنوں کا حساب کتاب کر رہے ہوں گے اور اپنا محاسبہ بھی کریں گے مگر یہ میری خوش فہمی یا خام خیالی تھی۔ میاں نواز شریف نے اچانک ایک غیر متوقع بیان دیا ہے‘ جس نے سب کو چونکا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کو لانے والے بڑے مجرم ہیں‘ اُن کا احتساب ہونا چاہیے۔ واقعی حساب تو ہونا چاہیے! مگر شاید نواز شریف صاحب کو اندازہ نہیں کہ بقول ایم ڈی تاثیر:
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
حساب ہوا تو پھر اگلے پچھلے سب حساب ہوں گے۔ نواز شریف صاحب کا خیال ہے کہ صرف پی ٹی آئی دور میں تباہی آئی۔ کس دور میں کیا ہوا یا موجودہ دور میں مہنگائی کہاں تک پہنچ چکی ہے۔ اشیائے ضروریہ کے مہنگے ہونے کا تو خود مریم نواز صاحبہ نے اعتراف کیا ہے۔ بیروزگاری بڑھی ہے یا کم ہوئی ہے؟ کرپشن میں کس قدر اضافہ یا کمی واقع ہوئی ہے؟ موجودہ دورِ حکومت کے بارے میں آئی ایم ایف کی تازہ ترین رپورٹ کا آئینہ مسلم لیگ (ن) کو ضرور دیکھ لینا چاہیے۔
حساب و احتساب پر آگے چل کر بات کرتے ہیں‘ پہلے ذرا محترمہ مریم نواز کا بیان ملاحظہ فرما لیجیے۔ کہتی ہیں کہ ''قیدی نمبر 804 کو گھر میں گھس کر مارا‘ ضمنی الیکشن میں جیت پر عوام کا شکریہ‘‘۔ان کو شاید اندازہ نہیں کہ سوائے دو سیٹوں کے‘ باقی ہر جگہ ٹرن آؤٹ نہایت کم رہا۔ یہ بڑی تشویشناک بات ہے۔ یہ ایک لحاظ سے عوام کی طرف سے سیاسی نظام پر بداعتمادی کا کھلا اظہار ہے۔ شاید لوگوں کو اسی طرح کی مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو جیسے کبھی میاں نواز شریف نے کچھ برس پہلے سامنا کیا تھا۔ اُن دنوں وہ بڑی دلسوزی سے بار بار کہا کرتے تھے ''ووٹ کو عزت دو‘‘۔ اصل بات تو یہی ہے کہ عوام وخواص کو آئینی تقاضے اور بنیادی حقوق کے حوالے سے صاف اور شفاف انتخابات کا حق ملنا چاہیے مگر گزشتہ پون صدی کے دوران ملک میں ہونے والا شاید ہی کوئی انتخاب ''صاف‘ شفاف اور غیر جانبدار الیکشن‘‘ کے پیمانے پر پورا اترتا ہو۔ اصل فکرمندی تو اس بات کی ہونی چاہیے۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک اور سینئر رہنما خواجہ محمد آصف کا بیان بھی اہلِ ذوق کی توجہ کا طالب ہے۔ کبھی عالمِ جذب و سوز میں خواجہ صاحب کے منہ سے سچی بات نکل جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ''وقت کسی کی ملکیت نہیں ہوتا‘‘۔ یقینا ایسا ہی ہے! مگر وطنِ عزیز میں جو کوئی تخت نشیں ہوتا ہے‘ وہ عمران خان ہو یا شہباز شریف‘ یہی سمجھتا ہے کہ وقت تھم گیا ہے‘ اب اس کا اقتدار سدا بہار ہے۔ اس وقت ملک کو سکیورٹی اور اقتصادی چیلنجز درپیش ہیں۔ سپہ سالار فیلڈ مارشل عاصم منیر نے توجہ دلائی ہے کہ خطے کے امن وسلامتی کو کئی خطرات لاحق ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے دو صوبوں میں دہشت گردی کے چیلنجز درپیش ہیں۔ افواجِ پاکستان گراں قدر قربانیاں دے کر دہشت گردی کو ہمیشہ کیلئے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔ یہ وقت ایسے چیلنجز پر توجہ مرکوز کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔
آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیلئے بڑی چشم کشا اور قوم کیلئے بڑی فکر انگیز ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں کرپشن کی جڑیں بہت مضبوط اور دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ''ایلیٹ کلاس‘‘ بہت بڑی کرپشن میں ملوث ہے‘ نیز گورننس بھی بہت کمزور ہے۔ صرف موجودہ حکومت کے دو برس میں 5300 ارب سے زائد کی کرپشن ہوئی۔ آئی ایم ایف کے بقول پاکستان میں فوری طور پر نہایت مؤثر ٹیکس اصلاحات کی ضرورت ہے۔ شفاف طریقے سے ریونیو جمع کرنے کا نظام رائج ہونا چاہیے۔ آئی ایم ایف نے اس سلسلے میں ضروری اصلاحات سے بھی حکومت کو آگاہ کیا ہے۔ یہ اصلاحات حکومت کے تمام محکموں‘ بشمول عدلیہ میں فوری طور پر نافذ کی جانی چاہئیں۔ قرض دینے والے ادارے نے نہ صرف حکومت بلکہ پاکستانی قوم کو بھی خبردار کیا ہے کہ کرپشن معمولی یا کہیں اکّا دکّا شعبے میں نہیں بلکہ مسلسل عمل کے طورپر اس کا نیٹ ورک لگ بھگ سبھی محکموں تک پھیلا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ بڑی بڑی شخصیات اور سرمایہ داروں کو ٹیکسوں میں چھوٹ اور سبسڈیز دی جاتی ہیں۔ سرکاری ٹھیکے بھی کسی طرح کی شرائط پوری کیے بغیر اُن کی جھولی میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف اسےElite capture قرار دیتا ہے ‘یعنی ایسا نظام جہاں بااثر اشرافیہ اپنے فائدے کیلئے عوامی پالیسیوں اور وسائل میں ہیرا پھیری کرتے ہیں۔ جہاں تک غریب کلاس کا تعلق ہے‘ تقریباً 11 کروڑ پاکستانی خطِ غربت سے نیچے ہیں۔ ڈھائی کروڑ سے زائد بچے سکولوں کا منہ نہیں دیکھ پاتے۔ ان کملائے ہوئے پھولوں کے اندر بھی وہ بیج ہیں جن سے کوئی جنرل بن سکتا ہے‘ کوئی ڈی سی‘ کوئی ڈاکٹر اور کوئی سائنسدان وغیرہ۔ آئی ایم ایف نے درست نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیش میں لین دین بند ہونا چاہیے۔ آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق چھوٹی سے چھوٹی رقوم کا تبادلہ بھی آن لائن ہونا چاہیے۔ آئی ایم ایف نے سو باتوں کی ایک بات یہ کہی ہے کہ پاکستانی خزانے (مرکزی اور صوبائی)‘ یعنی لوگوں کی کھربوں کی امانتیں لوٹ مار کے خطرات سے دوچار ہیں۔ اس ادارے کی اہم ترین ہدایت کے مطابق آڈٹ کا نظام سرکاری نہیں‘ مکمل طور پر غیر سرکاری ہونا چاہیے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے آفس کو ہر طرح کے سیاسی دباؤ سے مکمل طور پر آزاد ہونا چاہیے۔
ادھر جمعرات کے روز سینیٹ میں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے یہ شاہکار بیان دیا کہ عمران خان کو جیل کے اندر تمام سہولتیں حاصل ہیں مگر جیل کے باہر تحریک انصاف والوں نے دھرنے کا ڈرامہ لگا رکھا ہے۔ اس پر پی ٹی آئی کے سینیٹرز نے کہا کہ عمران خان کی بہنوں کو کئی ہفتوں سے اپنے قیدی بھائی سے نہیں ملنے دیا جا رہا۔ عمران خان کو جو سہولتیں حاصل ہیں وہ جیل مینوئل کے مطابق ہیں۔ دھرنا انہوں نے دیا تھا کہ چند روز قبل عمران خان کی ایک بہن سے سکیورٹی والے بہت درشتی سے پیش آئے جس کی بعض مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے بھی مذمت کی۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی بانی تحریک انصاف سے ملاقات نہیں کرائی جا رہی۔ پی ٹی آئی سینیٹرز نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اُن کی ملاقات کرائی جائے۔
میاں نواز شریف اپنی حکومت کو درپیش چیلنجز اور آئی ایم ایف کی شکایات وہدایات کو نظر انداز کر کے آنے اور لانے والوں کے حساب واحتساب کا مطالبہ خوب سوچ سمجھ کر کریں‘ کیونکہ اس سے بات بہت دور تلک جائے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں