ہم نے اپنے ساتھ کرکیا لیا ہے

آج ذرا سیاست سے ہٹ کر بات کریں گے۔ مریم گیلانی بیورو کریٹ ہیں‘ دانشور بھی اور رائٹر بھی۔ وہ اکثر اردو اور انگریزی میں فکر انگیز مضامین لکھتی ہیں۔ مریم میرے نہایت عزیز دوست سیّد فاروق گیلانی مرحوم کی صاحبزادی ہیں۔ کل شام اُن سے فون پر بات ہوئی تو ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد میں نے محسوس کیا کہ مریم کچھ متفکر ہیں۔ میرے استفسار پر انہوں نے کہا: انکل! ہمارے بڑوں نے ہمیں اپنے روٹ‘ اپنی اقدار‘ اپنی تاریخ اور اپنے ہیروز سے آگاہ کیا تھا مگر ہم نے اپنے بچوں کا نہ صرف ان اقدار بلکہ اپنی زبان اردو سے بھی ناتا توڑ دیا ہے۔ ہم نے اپنے ساتھ کرکیا لیا ہے۔
مریم گیلانی نے سچ ہی تو کہا ہے۔ یہ کہانی گھر گھر کی ہے۔ یہ بڑا بھاری نقصان ہے مگر آج کے والدین میں سے کچھ کو یہ شعور تو ہے مگر وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ چلئے ہم اپنے گھر سے ہی بات کا آغاز کرتے ہیں۔ آج کے رواج کے مطابق میری پوتی عائزہ ایک انگلش میڈیم سکول میں دوسری جماعت کی طالبہ ہے۔ اس کی والدہ عائشہ یونیورسٹی لیکچرر ہیں‘ وہ گھر میں تمام مضامین میں اپنی بیٹی کی مدد کرتی ہیں جن میں اردو بھی شامل ہے۔ جب وہ اساتذہ‘ والدین کی میٹنگ میں سکول گئی تو میری پوتی کی ٹیچرز نے اسکی بہت تعریفیں کیں مگر ساتھ ہی یہ دلچسپ واقعہ بھی سنایا کہ عائزہ نے اردو کی ٹیچر سے کہا کہ میڈم! آپ بہت اچھا پڑھاتی ہیں مگر مجھے اردو اچھی نہیں لگتی‘ اس کے بجائے آپ ہمیں ریاضی پڑھائیں۔ پہلے والدین اور گھر کے بزرگ اولاد کو اردو میں اپنی اسلامی ومعاشرتی اقدار اور تاریخی واقعات سے نہ صرف روشناس کراتے بلکہ عملاً ان اقدار پر عمل کرنے کی تربیت بھی دیا کرتے۔ امی یا اماں اور ابا حضور وغیرہ سننے میں آتا تھا‘ بچوں کو معلوم ہوتا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ الطاف حسین حالی اور علامہ اقبال کی نظمیں گھروں میں سنائی دیتیں۔ مگر اب عام گھروں میں بھی ڈیڈ‘ مام وغیرہ سننے میں آتے ہیں‘ بچے کوکو میلن اور ماشا اینڈ بیئر جیسے کارٹون دیکھتے ہیں‘ دی جنگل بُک اور ہیری پورٹر وغیرہ پڑھتے ہیں۔
انگلش میڈیم سکول والدین پر یہ زور بھی دیتے ہیں کہ بچوں کیساتھ گھر میں انگلش میں بات چیت کریں تاکہ انہیں انگلش بولنے میں کسی قسم کی جھجک محسوس نہ ہو۔ سکول والوں کی اس نصیحت میں درس یہ پوشیدہ ہے کہ نہ صرف بچے بلکہ آپ بھی اپنی زبان وکلچر سے دستبردار ہو جائیں۔ ساری مغربی دنیا چاہتی تو یورپ کی کوئی ایک زبان چُن کر اسے اختیار کر لیتی مگر انہیں مشہور تاریخ دان آرنلڈ جے ٹائن بی کے تجزیے کا گہرا شعور اور ادراک ہے۔ ٹائن بی کی مشہور تصنیف تو ان کی 12جلدوں میں ''اے سٹڈی آف ہسٹری‘‘ ہے مگر انکے بعض لیکچرز پر مبنی ایک مختصر کتاب ''دنیا اور مغرب‘‘ میں ٹائن بی نے تفصیل سے واضح کیا ہے کہ جب آپ کسی زبان کو اختیار کر لیتے ہیں تو پھر اس زبان کا کلچر اور اقدار بھی ساتھ ساتھ چلی آتی ہیں۔ اسی شعور کے مطابق یورپ کے ہر ملک نے اپنی زبان اور اقدار کو محفوظ رکھا ہے۔
فن لینڈ‘ جس کی آبادی صرف 60 لاکھ ہے‘ کی سکول ایجوکیشن کو ساری دنیا میں نمبر وَن تسلیم کیا جاتا ہے۔ فن لینڈ میں تعلیم ان کی اپنی فِنش زبان میں دی جاتی ہے۔ انگلش وہاں ثانوی زبان کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم بھی اسی زبان میں دی جاتی ہے البتہ تحقیق وریسرچ کیلئے انگریزی اور جرمن ریسرچ سے براہِ راست استفادہ کیا جاتا ہے۔ جہاں تک ہمارے عرب و اسلامی ممالک کا معاملہ ہے‘ اُن میں سے بعض انگریز یا فرانس وغیرہ کے غلام رہے مگر آج وہ انگریزی کے بجائے اپنی زبان جیسے عربی‘ ترکی وغیرہ میں تعلیم دیتے ہیں اور انگریزی وہاں ثانوی زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ انگریز تو یہاں سے چلے گئے اور بظاہر ہمیں آزادی بھی مل گئی مگر وہ ہمیں گہری ذہنی غلامی کا تحفہ دے کر گئے ہیں۔ اب ہم ذ ہنی غلام ہیں اور کسی طرح اس غلامی سے نجات پر تیار نہیں۔ پہلے ہماری دینی جماعتیں اردو کو رائج کرنے پر بہت زور دیتی تھیں مگر اب انہوں نے خود انگلش میڈیم سکول قائم کر کے گویا اس مشن سے سرنڈر کر لیا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہماری نئی نسل اردو میں موجود سارے دینی‘ علمی اور ادبی اثاثے سے کسبِ فیض نہیں کر سکتی۔ اب بچوں کی اکثریت علامہ اقبال‘ مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی‘ مفتی محمد شفیع‘ فیض احمد فیض اور دیگر بڑے بڑے زعمائے کرام کی علمی نگارشات اور صف اوّل کے شعرائے کرام کے شعری خزانے‘ ابوالکلام آزاد سے لے کر آج تک کے ادیبوں کی ادبی نگارشات سے لطف اٹھانے سے محروم ہے۔
ہم اور ہم سے بعد آنیوالی نسل فارسی کی گلستان‘ بوستان اور غالب واقبال کے فارسی کلام سے محروم رہی اور نئی نسل اردو کے سارے اثاثے سے محروم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ پاکستان کے سارے صوبوں کے درمیان رابطے کی زبان اردو ہے مگر یہ کتنی بڑی محرومی ہے کہ دفتروں اور تعلیمی اداروں سے اردو کو تقریباً دیس نکالا مل چکا ہے۔ جتنا بڑا انگلش میڈیم سکول ہو گا وہاں تعلیم حاصل کرنیوالے بچے اپنی اقدار‘ اپنے کلچر اور اپنی زبان اور پاکستانیت سے اتنے ہی بیگانہ ہوں گے۔ اکثر والدین کے اندر یہ شعور وادراک تک نہیں کہ بچوں کو اپنی زبان واقدار سے جوڑ کر رکھنا کتنا ضروری ہے۔ اس حوالے سے وہ اپنے تربیتی فریضے سے بالعموم غافل دکھائی دیتے ہیں۔البتہ میں بعض ایسے والدین کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے اس سلسلے میں عملی قدم اٹھایا ہے۔ ہمارے ایک دوست جو پاکستان کے نامور صحافی‘ دانشور اور تجزیہ کار ہیں‘ پہلے وہ بھی علمی وادبی مجالس میں نئی نسل کے بچوں کی اردو سے دوری کے حوالے سے دل کے پھپھولے جلاتے سنائی دیتے تھے۔ پھر ایک دن انہوں نے ایسی ہی ایک علمی تقریب میں بتایا کہ انہوں نے اپنے پوتے پوتیوں کیلئے اردو کی ٹیوشن کا بندوبست کر لیا ہے۔ یہ باذوق استاد بچوں کو نہ صرف نصابی اردو پڑھائیں گے بلکہ ان کے اندر اردو کا شعری ونثری ذوق بھی اجاگر کریں گے۔ مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ یورپ و امریکہ میں بہت سے پاکستانی والدین بچوں میں اردو‘ اپنی معاشرتی اقدار اور پاکستانیت سے گہری وابستگی کیلئے کافی کٹھن انتظامات کرتے ہیں۔ لندن میں مقیم سابق نیوز کاسٹر محترمہ مہ پارہ صفدر نے مجھے بتایا کہ برطانیہ کے سکولوں اور وہاں کے بچوں کیساتھ میل جول سے بچوں کو انگریزوں جیسی انگریزی تو آ ہی جاتی ہے‘ اسلئے انہوں نے گھر میں بچوں کو پابند کیا کہ وہ اردو میں بات چیت کریں گے۔ محترمہ مہ پارہ برسوں قبل اپنے دونوں بچوں کو لندن کے ایک اردو سنڈے سکول میں لے کر جاتی تھیں‘ وہاں انہیں نہ صرف درست تلفظ کیساتھ اردو پڑھائی جاتی بلکہ اپنی تہذیبی اقدار وروایات سے بھی روشناس کرایا جاتا۔ اب لندن میں مقیم ان کا صاحبزادہ‘ وہاں کی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ نہایت شستہ اردو بڑے شائستہ لہجے میں بولتا ہے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ جو ملک اپنی اسلامی‘ تہذیبی اقدار اور اردو کی ترویج کیلئے وجود میں آیا تھا وہاں اردو بیچاری لاوارث ہے۔ اردو کے حوالے سے بانیٔ پاکستان کے واشگاف اعلان‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور سپریم کورٹ کے دو ٹوک فیصلے کی صریحاً خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ہمارے اربابِ اقتدار کا یہی چلن ہے کہ انہوں نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ آئین کچھ کہتا ہے تو کہتا رہے‘ وہ وہی کچھ کریں گے جو انکی مرضی ہے۔ اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت کیلئے محترمہ فاطمہ قمر جیسے بے قرار لوگ واویلا کرتے ہیں تو کرتے رہیں‘ اُنکا واویلا پتھر کی دیواروں پر دستک دینے کے مترادف ہے۔ چلئے حکمرانوں کو تو چھوڑیے مگر ہمارے وہ علمائے کرام اور سیاسی پارٹیاں جو اپنی تہذیب و ثقافت کی دعویدار ہیں‘ انہیں تو آگے بڑھ کر اپنی ڈوبتی ہوئی اقدار کی کچھ خبر لینی چاہیے اور حکومتوں اور لوگوں کو خبردار کرنا چاہیے کہ ہم نے اپنے ساتھ کر کیا لیا ہے۔ اس کا فوری مداوا ہونا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں