شعلے نہیں شبنم

17 نومبر کے اخبارات میں محترمہ مریم نواز کا ایک بیان دیکھا تو خوشگوار حیرت ہوئی۔ اس بیان میں شعلہ بیانی نہیں‘ شبنم افشانی تھی۔ محترمہ کا بیان مسلم لیگ (ن) کے حالیہ بیانیے سے ہٹ کر تھا۔ پہلے تو میں یہ سمجھا کہ شاید یہ لندن اور برازیل کے سفر سے حاصل ہونے والے ثمرات کا کوئی عکسِ جمیل ہے۔ بیان 16 نومبر کو لندن سے وطن واپسی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دیا گیا۔ محترمہ نے کہا کہ لوگوں کے درمیان افہام وتفہیم کے ذریعے رواداری کو فروغ دینا وقت کا تقاضا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور پُرتشدد تنازعات کے اس دور میں رواداری اور برداشت کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ تفصیلات پڑھ کر علم ہوا کہ یہ بیان 16 نومبر کے روز یو این او کے عالمی یومِ تحمل و رواداری کی مناسبت سے دیا گیا تھا۔
اس روز عالمی سطح پر تحمل وبردباری‘ ایک دوسرے کے مؤقف کو برداشت کرنے‘ نیز نفرت و تشدد سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ جب بھی کسی جنگ کی ہولناکیاں اور تباہیاں سامنے آتی ہیں تو اس سے عام لوگوں کی زندگیاں عذابِ مسلسل کے گرداب کا شکار ہو جاتی ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں غصہ‘ نفرت‘ عدم برداشت اور قومی عصبیت کی کوکھ سے جنم لے کر وجود میں آئی تھیں۔ چلیے یہ تو کچھ دہائیوں پہلے کی بات تھی۔ اب تباہی کی تازہ ترین مثال سارے عالم کے سامنے ہے۔ گزشتہ اڑھائی برس سے ساری دنیا بچشم خود دیکھ رہی ہے کہ کس طرح سے اسرائیلی وزیراعظم غصے اور صہیونی عصبیت کی آگ میں جل کر معصوم اہلِ غزہ پر آتش وآہن کی بارش کرتے چلے آ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی‘ سکیورٹی کونسل‘ ساری دنیا کے کروڑوں باضمیر انسانوں نے اسرائیل کو صبر وتحمل سے کام لینے‘ فلسطینیوں کی نسل کشی سے مکمل اجتناب کرنے اور کشت وخون سے ہاتھ روکنے کا پُرزور مطالبہ کیا مگر اسرائیلی وزیراعظم کو بے گناہ انسانوں‘ بچوں اور بوڑھوں کے خون کی ایسی چاٹ لگی ہے کہ وہ ابھی تک عالمی معاہدوں پر دستخط کرنے کے باوجود اس خونریزی سے باز نہیں آیا۔
عالمی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو جگہ جگہ کشت وخون کے دلدوز واقعات دکھائی دیں گے۔ اگر آپ ان واقعات کا گہرائی میں اُتر کر جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ آج بھی دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے کالے ''قانون‘‘ کی عملداری ہے۔ ماضی قریب میں بوسنیا‘ عراق اور لیبیا وغیرہ میں مذکورہ بالا قانون اپنی کریہہ شکل میں نفرت وعصبیت کے بدترین مناظر دکھا رہا تھا اور انسانوں کا خونِ ناحق بہا رہا تھا۔ آج یہی غصہ‘ نفرت اور عدم برداشت غزہ‘ مقبوضہ کشمیر‘ سوڈان‘ یوکرین اور نجانے کہاں کہاں انسانی خون کی ارزانی دکھا رہا ہے۔ برداشت اور رواداری کا عالمی دن منانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کو دوسروں کے نقطۂ نظر‘ اُن کی رائے اور عقائد کا احترام کرنے کا درس دیا جائے۔ ماضی قریب یا بعید کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت عیاں ہوگی کہ بیشتر خوں ریزی اور تنازعات کے پس پردہ عوامل کی بڑی وجہ عدم برداشت اور اپنے آپ کو دوسرے ملکوں اور انسانوں سے اعلیٰ وارفع سمجھنے کا رویہ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کا بنیادی سبب ہٹلر کی زیر قیادت نازی جرمنی کا دوسرں کے بارے میں عدم برداشت اور جرمنی کو باقی اقوام سے اعلیٰ سمجھنے کا رویہ ہے۔ اسی رویے کی بنا لاکھوں انسانوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس عالمی جنگ کے کشت وخون سے عالمی سطح پر انسانوں نے یہ سبق سیکھا کہ دنیا کو باور کروایا جائے کہ پُرامن معاشروں کیلئے عالمی سطح پر مذہب‘ عقائد‘ حقِ رائے دہی‘ زبان‘ ثقافت کے باہمی احترام کی مکمل یقین دہانی کرانے کی ضرورت ہے۔ اسی مقصد کے تحت دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
اب آئیے محترمہ مریم نواز کی عالمی یوم تحمل و رواداری کے موقع پر لندن میں کی گئی گفتگو کی طرف! محترمہ نے ساری دنیا کو بالعموم اور وطن عزیز کو بالخصوص نفرت کے شعلوں سے اجتناب کرنے اور باہمی رواداری کے شبنمی رویوں کو اختیار کرنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں جن جن ملکوں میں رواداری‘ دلداری‘ تحمل وبرداشت اور ایک دوسرے کے مؤقف کے بارے میں احترام کا رویہ اپنایا گیا ہے‘ وہ ممالک اس دنیا میں جنتِ ارضی کے نظارے پیش کرتے نظر آتے ہیں۔سکینڈے نیوین ممالک مثلاً ڈنمارک‘ ناروے‘ سویڈن وغیرہ کے معاشروں کا جائزہ لیں تو وہاں کے حکمران حزبِ مخالف کے ارکان کو دھمکیاں دیتے دکھائی دیں گے نہ سنائی دیں گے۔ وہاں ایک دوسرے کا احترام آپ کو ہر طرف نظر آئے گا۔ ان اقدار کی پاسداری کا ایک راز بھی ہے‘ وہ یہ کہ وہاں آپ کو کس کی حق تلفی کا اکّا دُکّا واقعہ بھی نظر نہیں آئے گا۔ وہاں عدالتیں بغیر کسی تعصب کے فیصلہ کرتی ہیں۔ حقدار کو اس کا حق ملتا ہے۔ عدالتوں کو کوئی بادشاہ‘ وزیراعظم اور کوئی پارلیمنٹ ڈکٹیٹ کرتی نظر آ جائے‘ یہ ناممکنات میں سے ہے۔ جہاں قانون کی مکمل عملداری اور پاسداری کا کلچر ہو وہاں قدرتی طور پر شہریوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور غم وغصہ کم کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
جس طرح عدالتوں کی ریٹنگ میں پاکستان انتہائی نچلی سطح پر آتا ہے‘ اسی طرح تحمل‘ برداشت‘ رواداری‘ ایک دوسرے کی رائے کے احترام کے حوالے سے بھی ہم دنیا کے آخری چند ملکوں میں شامل ہیں۔ انفرادی رویوں کے اعتبار سے‘ گھروں میں ایک دوسرے کیلئے محبت واحترام کے حوالے سے‘ سیاست کے ایوانوں میں ایک دوسرے کے مؤقف کو سننے‘ برداشت کرنے اور آپس میں افہام وتفہیم کا رویہ اختیار کرنے میں ہم شاید دنیا میں سب سے پیچھے ہوں گے۔ یہاں سڑکوں پر کسی کی گاڑی کو کسی دوسرے کی گاڑی چھو جائے تو وہ آپے سے باہر ہو کر گاڑی سے باہر نکلتا ہے اور ٹکرانے والی گاڑی کے ڈرائیور سے گتھم گتھا ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی بچی کسی کے کھیت سے بھٹہ توڑ لیتی ہے تو وہ بے رحم جاگیردار اس کی جان لے لیتا ہے۔ بے زبان اونٹ کھیت میں آ جائے تو اس کی کونچیں کاٹ دی جاتی ہیں۔ سیاست کے ایوانوں میں ایک دوسرے کو مزہ چکھانے کی باتیں ہوتی ہیں۔ سابقہ حکومت سے وابستہ حکمرانوں کے رویوں کی اٹھتے بیٹھتے مذمت کی جاتی ہے۔ اُن کے آمنے سامنے بیٹھ کر عزت واحترام کے ساتھ بات چیت کرنے کو اپنی کمزوری اور اہانت تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں جو برسر اقتدار آتا ہے‘ وہ سمجھتا ہے کہ اب اس نے آبِ حیات نوش کر لیا ہے‘ اسے اب سدا بہار حکمران بننے کا حق حاصل ہو گیا ہے۔ دنیا بھر کے طاقتور حکمرانوں کے اپنے ملکوں میں‘ اگر وہاں عدل وانصاف بانٹنے والی عدالتیں اور ایک مضبوط اور سچا میڈیا موجود ہے تو جذبات وہاں آپے سے باہر ہو کر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے نظر نہیں آئیں گے۔ ابھی چند روز قبل جب امریکہ کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز کے پاور فل میئر کا انتخاب ہوا تو وہاں انتخابی مہم کے دوران آل پاور فل صدر نے 34سالہ مہاجر ایشیائی‘ افریقی نژاد امریکی امیدوار کو دھمکیاں دیں اور اس کے جیتنے کی صورت میں فیڈرل فنڈز بند کر دینے کی بات بھی کی۔ مگر جونہی الیکشن کے نتائج سامنے آئے تو اسی ٹرمپ نے ممدانی کو مل جل کر کام کرنے کی دعوت دی۔ انتخابی مہم سے متعلق رات گئی بات گئی والا رویہ اختیار کر لیا۔ بہرحال محترمہ مریم نواز کی طرف سے ملک میں افہام و تفہیم‘ تحمل و برداشت کے رویے کے فروغ کی مجھے بہت خوشی ہوئی۔ ہمیں امید ہے کہ انہوں نے 16نومبر کے حوالے سے رواداری کا محض رسمی بیان نہیں دیا ہوگا بلکہ دل سے باہمی احترام و رواداری کا کلچر اپنانے کی بات کی ہوگی۔ بقول شاعر مشرق:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
آنے والے چند دنوں میں معلوم ہو ہی جائے گا کہ ملک میں شعلوں کے بجائے حزبِ مخالف کے ساتھ شبنمی رویہ عملاً اختیار کیا جاتا ہے یا نہیں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں