"MMC" (space) message & send to 7575

اسلام اور عصری علوم …(حصہ دوم)

تاریخی حقائق یہ ہیں: جب سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی اور وہ عقائد اور اعمال میں بھی اسلام پر سختی سے کاربند تھے تو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انہیں غلبہ عطا فرمایا‘ لیکن جوں جوں وہ علم کے میدان میں پیچھے رہتے چلے گئے‘ اُن کا زوال تیز تر ہو گیا۔ اسلام سائنس اور ٹیکنالوجی اور علم کی ترقی میں بہت بڑا معاون ہے۔ سیکولرازم فقط مادّی مفادات کے حصول اور دین کو انفرادی اور اجتماعی زندگی سے نکالنے کا نام ہے۔ اسلام میں دینی تعلیم کی اہمیت بلاشبہ سب سے زیادہ ہے‘ لیکن اسلام عصری علوم سے صرفِ نظر کی تعلیم نہیں دیتا‘ بلکہ اس کا محرِک ہے۔ مندرجہ ذیل تاریخی حقائق اس کا واضح ثبوت ہیں کہ اسلام مادّی اور روحانی‘ دونوں طرح کی زندگی کی ترقی اور کامیابی کا ضامن ہے۔
مغرب کے مستشرقین میں نہایت مشہور اور مقبول تاریخ دان Franz Rosenthall ''علم اور مسلمان‘‘ کے تحت لکھتا ہے: ''جو لوگ یورپ کی جدید ترقی کا بہت شور مچاتے ہیں‘ ان کو جاننا چاہیے کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ (Renaissance) اُس وقت ممکن ہوئی جب یورپ نے سائنس اور علوم میں تیرھویں صدی سے سولہویں صدی تک مسلمانوں کی ایجادات سے استفادہ کیا۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی تمدن یا تہذیب بھی مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں حصولِ علم‘ فروغِ علم اور ابلاغ میں مسلمانوں سے بڑھ کر نہیں تھی‘‘۔ پھر اس نے اپنے موقف کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا: ''مسلمانوں کی زندگی میں فہم وادراک‘ مذہب‘ سیاست اور معاشرت‘ الغرض کوئی بھی شعبہ ایسا نہ تھا کہ ایک عام مسلمان کو روز مرہ زندگی میں بھی علم کے حاصل کرنے اور اس کی حفاظت کرنے سے انتہائی دلچسپی نہ ہو‘ یہاں تک کہ علم کو زندگی کی ہر شے سے بڑھ کر فوقیت دینا ہر مسلمان کا شیوہ بن گیا‘ حتیٰ کہ علم اور اسلام ہم معنی بن گئے‘‘۔(Knowledge Triumphant: Concept of Knowledge in Medieval Islam, P:2)
الغرض یہ کہناکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور سیکولرازم لازم وملزوم ہیں‘ درست نہیں ہے۔ اسلام علم‘ سائنس اور تحقیق کا منبع ہے۔ اسلام وہ مذہب ہے جس کی شروعات ہی پہلی وحی کے پہلے لفظ میں اِقْرَأ (پڑھو) کے حکم سے ہوئی (العلق: 1)۔ قرآنِ کریم نے رسول اللہﷺ کی نمایاں صفات یہ بیان کیں کہ آپﷺ آیاتِ الٰہی کی تلاوت اور تزکیۂ نفس کے ساتھ ساتھ کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں (آل عمران: 164)۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر سے ملاقات کیلئے طویل سفر کیا اور اس کا مقصد ''علم الاسرار‘‘ یعنی ظاہری احکام کے پیچھے جو باطنی حکمتیں پوشیدہ ہیں‘ انہیں جاننا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان حضرت آدمؑ کے جس وصف کو فرشتوں پر فضیلت کا سبب بتایا‘ وہ علم ہی تھا اور بعض مفسرین نے لکھا ہے: حضرت آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے اُن چیزوں کا علم عطا فرمایا جو زمین پر بود وباش اور بقائے حیات کیلئے ضروری تھیں‘ اسی کو ہم دنیاوی یا عصری علم سے تعبیر کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ (ابن ماجہ: 224)۔ نیز فرمایا: ''حکمت کی ہر بات مومن کی گم شدہ میراث ہے‘ سو وہ اُسے جہاں پائے‘ (ضرور حاصل کرے) کیونکہ وہی اس کا صحیح حقدار ہے‘‘ (ترمذی: 2687)۔ حکمت نہایت جامع لفظ ہے اور ہمارے علمی سرمائے میں فلسفے کو بھی حکمت قرار دیا گیا ہے‘ حکمت کے ایک معنی ہیں: '' کسی چیز کی حقیقت کو جاننا‘‘۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ‘ اُس کے فرشتے اور زمینی وآسمانی مخلوق حتیٰ کہ اپنی بلوں میں چیونٹیاں اور (پانی میں) مچھلیاں لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والے پر رحمت کی دعا کرتی ہیں‘‘ (ترمذی: 2685)اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور ہر صاحبِ علم کے اوپر ایک اورعلم والا ہے‘‘ (یوسف: 76) یعنی علم میں ارتقاء کے مدارج کبھی ختم نہیں ہوتے۔
سیکولرازم‘ لبرل ازم‘ سائنسی وفنی علوم اور ترقی لازم وملزوم نہیں ہیں‘ پس یہ سمجھ لینا غلط ہے کہ سیکولرازم کے بغیر سائنسی وفنی ترقی ناممکن ہے۔ سائنس وٹیکنالوجی الغرض تمام مادّی علوم کی معراج مادّی ترقی اور جسمانی راحتوں اور آسائشوں کا حصول ہے‘ جبکہ دینی علوم کا تعلق مادّی ارتقا کے ساتھ ساتھ روحانی ارتقا سے بھی ہے‘ اس کا منبع وحی ربانی اور ذاتِ باری تعالیٰ ہے‘ جبکہ سیکولرازم کے حقیقی معنی لادینیت کے ہیں‘ لہٰذا اسلام اور سیکولرازم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی میں ارتقا کا کہیں بھی اسلام سے تصادم نہیں ہے‘ نہ یہ اسلام کے معارض ہیں۔ ہر دور کے کفار یہی کہتے رہے: ''جو کچھ بھی ہے‘ یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے‘ ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہلاک کرتا ہے اور درحقیقت انہیں اس کا علم نہیں ہے‘ وہ تو صرف گمانوں میں مبتلا ہیں‘‘ (الجاثیہ: 24)۔ (2) ''بس (جو کچھ بھی ہے) یہی دنیا کی زندگی ہے‘ ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں (دوبارہ) نہیں اٹھایا جائے گا‘‘ (المومنون: 37)۔ پس اسلام اور سیکولرازم میں مابہِ الامتیاز (Differentiator) عقیدۂ آخرت ہے اور اسلام کے تمام بنیادی عقائد‘ عبادات‘ احکام اور اخلاقیات ہیں۔ شیخ سعدی نے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے دولت اور ہنر (ٹیکنالوجی) کا فرق بتایا کہ دولت چھن سکتی ہے‘ ختم ہو سکتی ہے‘ اس پر کوئی آفت نازل ہو سکتی ہے‘ لیکن ہنر بجائے خود دولت ہے‘ اس لیے ہنرمند جہاں بھی ہو گا‘ دولت اس کے قدموں میں ہو گی‘‘ (گلستانِ سعدی)۔
لہٰذا سیکولرازم اور سائنسی ترقی کو لازم وملزوم اور سائنسی ترقی کو اسلام کی ضد سمجھنا فریب ہے‘ البتہ سیکولرازم یقینا اسلام کی ضد ہے۔ مسلمانوں نے اپنے زمانۂ عروج میں سائنس اور علم کو ایسی بلندیوں تک پہنچا دیا کہ خود مغرب کے تاریخ دانوں کو اس کا اعتراف اور تعریف کرنی پڑی‘ مثلاً: برطانوی مؤرخ Robert Stephen Briffault نے اپنی کتاب ''The Making of Humanity‘‘ میں واضح طور پر لکھا ہے: ''اگر مسلمانوں نے علمِ فلکیات کو اپنے عروج کے دور میں قابلِ قدر بلندیوں پر نہ پہنچایا ہوتا تو اس کے بغیر نہ کوپرنیکس (Copernicus) اور نہ نیوٹن (Newton) ہو سکتے‘‘ (صفحہ: 92) امریکن تاریخ دان جان ولیم ڈریپر اپنی کتاب ''History of the Conflict between Religion & Science‘‘ میں لکھتا ہے: ''ادب کے میدان میں مسلمان اس کے ہر حصے اور موضوع میں ایسی دلچسپی لیتے کہ یہ تفریح طبع اور دماغی سوچ دونوں کو ان کی عروج تک پہنچا دیتے‘ سائنس کے میدان میں ان کی قابل فخر ترقی کا یہ حال تھا کہ وہ عملی تجربات کے بغیر صرف قیاسات پر اکتفا نہیں کرتے تھے‘ وہ قدرت کی ہر شے کو تجربات سے پرکھنے کے بعد ہی قبول کرتے تھے۔ لہٰذا تجربہ اور اس کے نتیجے کا مشاہدہ ہی اُن کے نزدیک قابلِ قبول تھا‘‘۔ اس کے مقابلے میں یونانی فلاسفہ فقط فکری ابحاث پر ہی کفایت کرتے تھے‘ اسی لیے مشہور برطانوی مؤرخ اور فلسفی برٹرینڈ رسل نے یونانیوں کے متعلق لکھا: ''یونانیوں نے دنیا کو صرف شاعروں کی نظر سے دیکھا نہ کہ سائنسدانوں کی نظر سے‘‘ (The Scientific Outlook, Page:2)۔
دنیا کی قدیم ترین اور پہلی یونیورسٹی ایک مخیر مسلم خاتون فاطمہ بنت محمد الفَہری نے مراکش میں 245 ہجری میں تعمیر کی تھی‘ اسکا نام جامعۃ القرَوِیّین ہے‘ یونیسکو کے مطابق یہ دنیا کی قدیم ترین واحد یونیورسٹی ہے جو آج تک مصروفِ عمل ہے۔ مسلمانوں نے اپنے عہدِ عروج میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے‘ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں: (1) یورپ میں سب سے پہلی یونیورسٹی مسلمانوں نے بنائی تھی‘ اس کا نام ''سالرنو یونیورسٹی‘‘ (Salerno University) تھا۔ (2) کشش ثقل کو دریافت کرنا رابرٹ نیوٹن سے منسوب کیا جاتا ہے‘ مگر درحقیقت نیوٹن سے کم از کم پانچ سو سال قبل ایک مسلمان سائنسدان وجغرافیہ دان شریف الادریسی (متوفّٰی 494ھ؍ 1111ء) نے واضح الفاظ میں کششِ ثقل کی تعریف ان الفاظ میں کی تھی: ترجمہ: ''اجسام میں جو وزن ہے‘ زمین اُسے اپنی طرف اسی طرح کھینچتی ہے‘ جیسے مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے‘‘۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں