نوٹ: ہم نے ''چند سبق آموز احادیث‘‘ کے عنوان سے گیارہ اقساط پہلے شائع کی ہیں‘ آج کا کالم اسی کا تسلسل ہے۔
''حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تمہارے حکمراں‘ تمہارے بہترین لوگ ہوں‘ تمہارے مالدار لوگ سخی ہوں اور تمہارے آپس کے معاملات باہمی مشورے سے طے ہوں تو تمہارا زمین کے اوپر رہنا تمہارے لیے زمین کے اندر جانے سے بہتر ہے (یعنی زندگی میں تمہارے لیے خیر ہے) اور جب تمہارے امرا شریر لوگ ہوں‘ تمہارے مالدار بخیل ہوں اور تمہارے اجتماعی امور عورتوں کے ہاتھ میں چلے جائیں تو تمہارا زمین کے اندر چلے جانا تمہارے لیے زمین کے اوپر رہنے سے بہتر ہے‘‘ (ترمذی:2266) یعنی اب زندگی میں خیر نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: کون ہے جو مجھ سے ان کلمات کو سن کر ان پر عمل کرے یا ایسے شخص کو سکھلائے جو ان پر عمل کرے۔ ابو ہریرہؓ کہتے ہیں: میں نے عرض کی: یارسول اللہﷺ! میں ان پر عمل کروں گا‘ تو آپﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور (مندرجہ ذیل) پانچ باتوں کو شمار کرتے ہوئے فرمایا: (1) تم حرام چیزوں سے بچو‘ تم سب لوگوں سے زیادہ عبادت گزار بن جاؤ گے (2) اللہ نے تمہارے مقدر میں جو لکھا ہے‘ اس پر راضی ہو جاؤ‘ تم لوگوں (کے احتیاج) سے بے نیاز ہو جاؤ گے (یعنی تمہارے دل سے دنیا کی ہوس نکل جائے گی) (3) اپنے پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کرو‘ تم (پکے) مومن ہو جاؤ گے (4) دوسروں کیلئے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو‘ تم سچے مسلمان ہو جاؤ گے (5) زیادہ نہ ہنسا کرو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے‘‘ (ترمذی:2305)۔ اس سے موقع بے موقع بے مقصد ہنسی مراد ہے‘ ورنہ مناسب موقع پر رسول اللہﷺ نے بھی ہنسی فرمائی ہے۔
حضرت عدیؓ بن عمیرہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ کسی خاص طبقے (کی بدعملی) کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا حتیٰ کہ (وہ اس قدر بے حس ہو جائیں کہ) برائیوں کو عَلانیہ دیکھیں اور ان کو روکنے پر قادر بھی ہوں‘ لیکن نہ روکیں (پس جب دین کے معاملے میں بے حسی اس حد تک ہو جائے) تو پھر اللہ تعالیٰ خاص طبقے کی بدعملی کے سبب عام لوگوں کو بھی عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے‘‘ (مسند احمد: 17720) یعنی مومن کا کام ہر وقت حالات کو بدلنے کی سعی کرنا ہے‘ حالات کے دھارے پر بہنا کبھی بھی مومن کا شعار نہیں رہا‘ یہ ان لوگوں کا شعار رہا ہے جن کے بارے میں فارسی کا مقولہ ہے: ''اگر زمانہ تمہارے ساتھ خیر کے معاملے میں نباہ نہیں کرتا تو تم اس کے رنگ میں رنگ جاؤ‘‘۔ اس کے برعکس مومن کا شعار یہ ہے: ''اگر زمانہ تمہارے ساتھ خیر کے معاملے میں نباہ نہیں کرتا تو تم اپنی توفیقات کے مطابق اس کو بدلنے کی سعی کرو‘‘۔
حضرت عُرسؓ بن عمیرہ بیان کرتے ہیں: (1) رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ عام لوگوں کو خاص طبقہ (اشرافیہ) کے اعمال کی سزا اس وقت تک نہیں دیتا جب تک کہ خاص طبقہ کوئی ایسا عمل کرے جسے عام لوگ بدلنے کی طاقت رکھتے ہوں‘ لیکن اس کو تبدیل نہ کریں‘ پھر اس وقت اللہ تعالیٰ عام اور خاص لوگوں کی ہلاکت کی اجازت دیتا ہے‘‘ (معجم الکبیر للطبرانی:343)۔ نبیﷺ نے فرمایا: جب زمین پر کسی گناہ کا ارتکاب ہو رہا ہو تو جو لوگ وہاں موجود ہیں‘ وہ اسے ناپسند کر رہے ہوں تو یہ ایسا ہی ہے کہ گویا وہ وہاں پر موجود نہیں ہیں (اس کے برعکس) جو اس برائی کے ارتکاب کے وقت وہاں پر موجود نہ ہوں‘ لیکن اس پر راضی ہوں تو گویا وہ اس جرم میں شریک ہیں‘‘ (معجم الکبیر للطبرانی: 345)۔ حضرت عبداللہؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہو گئے تو (پہلے پہل) ان کے علما نے انہیں روکا‘ لیکن وہ باز نہ آئے‘ پھر وہ علما ان کے ہم نشین‘ ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہو گئے‘ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے رنگ میں رنگ دیا اورداؤد و عیسیٰ علیہما السلام کی زبانی ان پر لعنت فرمائی اور ایسا اس وجہ سے ہوا کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور شرعی حدود سے تجاوز کرتے تھے‘ (راوی بیان کرتے ہیں:) رسول اللہﷺ ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ یہ کہتے ہوئے آپ بیٹھ گئے اور فرمایا: نہیں! قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! تم اس وقت تک نجات نہ پاؤ گے جب تک تم ان بدکاروں کو برائی سے روک کر خیر کی طرف پلٹ دو‘‘ (ترمذی:3047)‘‘۔حضرت عبداللہؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: پہلے پہل جب بنی اسرائیل میں خرابی پھیلی (تو اُن کی کیفیت یہ تھی کہ) ایک شخص دوسرے سے ملتا اور کہتا: ارے بھائی! یہ کیا کر رہے ہو‘ اللہ سے ڈرو اور اس کام کو چھوڑ دو‘ یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے‘ پھر اگلے روز اُن سے ملتا تو کوئی روک ٹوک نہ کرتا‘ بلکہ ان کا ہم نوالہ‘ ہم پیالہ اور ہم نشین بن جاتا‘ جب انہوں نے یہ وتیرہ اختیار کیا تو اللہ نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے رنگ میں رنگ دیا‘ پھر آپﷺ نے سورۃ المائدہ کی آیات: 78تا81پڑھیں اور فرمایا: ہرگز نہیں! تمہیں ضرور بالضرور نیکی کا حکم دیتے رہو گے اور برائی سے روکتے رہو گے اور ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اسے حق پر کاربند رکھو گے اور برائی سے روکے رکھو گے‘‘(ابودائود:4336)۔ سورۂ مائدہ کی مذکورہ بالا آیات کا ترجمہ یہ ہے:''بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے کفر کیا‘ ان پر دائود اور عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کی زبانی لعنت کی گئی‘ یہ اس سبب سے ہوا کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے اور وہ برائی سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے‘ یقینا وہ بہت برے کام کرتے تھے‘‘۔
ابواُمیّہ شعبانی بیان کرتے ہیں: میں ابوثعلبہ خُشَنِی کے پاس آیااور اُن سے کہا: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں: ''اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو ، جب تم ہدایت پر ہو تو کسی کی گمراہی تمہیں ضرر نہیں پہنچائے گی‘‘ (المائدۃ:105) (یعنی کیا ہم دنیا والوں سے لاتعلق ہوجائیں اور اُن کی اصلاح کی فکر سے بے پروا ہوجائیں) ابوثعلبہ خُشنی نے کہا: تم نے اس کی بابت ایک باخبر شخص سے پوچھا ہے ،میں نے اس کی بابت رسول اللہﷺ سے پوچھا تھا‘ آپﷺ نے فرمایا: (نہیں!) بلکہ تم مسلسل نیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہوحتیٰ کہ ایسا مرحلہ آجائے کہ تم دیکھو : کمینے کی اطاعت کی جارہی ہے‘ خواہشات کی پیروی کی جارہی ہے‘ دنیا کو (دین پر) ترجیح دی جارہی ہے اور ہر شخص اپنی رائے پر نازاں ہے، توپھر تم خاص اپنی فکر کرو اور عوام کو چھوڑ دو کیونکہ اب اسکے بعد ایسے دن آنیوالے ہیں کہ اُن میں دین پر قائم رہنا اتنا مشکل ہوجائے گا جیسے آگ کے کھولتے ہوئے انگارے کو مٹھی میں پکڑنا‘ پس ایسے حالات میں جو نیکی پر کاربند رہے گااُسے ایسا عملِ خیر کرنیوالے پچاس افراد کے برابر ثواب ملے گا۔ عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: عتبہ کے علاوہ باقی نے ان کلمات کا اضافہ کیا: ''عرض کیا گیا: یا رسول اللہﷺ! ہمارے 50افراد کے برابر یا اُس دور کے 50 افراد کے برابر؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہارے (یعنی عہدِ صحابہ کے) 50 افراد کے برابر ثواب ملے گا‘‘ (ترمذی:3058)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اختلافِ احوال سے احکام بدل جاتے ہیں‘ پس جو شخص مشکل ترین حالات میں شریعت کے احکام پر کاربند رہے گا اسکا اجر اتنا ہی زائد ہوگا۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جبریل علیہ السلام کو حکم فرماتا ہے: جبرائیل! فلاں بستی کو اُسکے باسیوں سمیت الٹ دو۔ جبریلِ امین (بارگاہِ الٰہی میں )عرض کرتے ہیں: پروردگار!اس بستی میں تیرا فلاں بندہ بھی ہے‘ جس نے کبھی پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی (اُسکے بارے میں کیا حکم ہے)‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس بستی کو اُس سمیت الٹ دو کیونکہ (میری شرعی حدود کو پامال ہوتا ہوا دیکھ کر ) اسکی جبیں پر کبھی شکن نہیں آئی (اور وہ لاتعلق بنا رہا)‘‘ (شُعَبُ الایمان: 7189)۔ یہ بہت بڑی وعید ہے‘ ہر مسلمان کو امت کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور اپنی بساط کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکَر کا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔