عالمِ اسلام کے مشہور مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں۔ پاکستان میں لوگوں کی بڑی تعداد اُن سے عقیدت اور وابستگی رکھتی ہے اور ان کے لیکچرز کو بڑے ذوق وشوق سے سنتی ہے۔ اُن کے چاہنے والے ان سے ملاقات کے متمنی رہتے ہیں۔ مجھے پہلی بار ڈاکٹر ذاکر نائیک سے 2012ء میں دبئی میں ملاقات کا موقع ملا تھا اور مسلسل تین روز تک علمِ دین کے حوالے سے ان سے تبادلۂ خیال ہوتا رہا۔ اس ملاقات میں مَیں نے محسوس کیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں عاجزی اور انکساری کی دولت سے نوازا ہے اور اپنی وضع قطع کے مقابلے میں وہ اپنے مقصد سے شدید وابستگی رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک دوستوں کے دوست ہیں اور محبت کرنے والوں کا جواب ہمیشہ محبت‘ پیار اور شفقت سے دیتے ہیں۔ حالیہ دورے کے دوران بھی مجھے کراچی اور پھر لاہور میں دو دفعہ ان سے ملاقات کا موقع میسر آیا۔ میں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ان کو مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ‘ لاہور پر تنظیم کے عہدیداران‘ وابستگان اور اپنے قریبی دوستوں کے سامنے اپنے ارشادات اور افکار رکھنے کی دعوت دی۔ ڈاکٹر صاحب ان ایام میں بہت مصروف تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے کمال شفقت اور محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرکز قرآن وسنہ آنے کی ہامی بھر لی۔
میں نے فقط قریبی دوستوں اور قرآن وسنہ موومنٹ کے عہدیداران کو ہی اس موقع پر شرکت کی دعوت دی تھی لیکن اس کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد ڈاکٹر صاحب کا نام سن کر عشاء کی نماز کے بعد ہی مرکز میں جمع ہونا شروع ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب رات 11 بج کر 40 منٹ پر مرکز میں پہنچے لیکن اس موقع پر بھی حاضرینِ مجلس ہشاش بشاش اور ان کی آمد کے منتظر تھے۔ میں نے اپنے دوستوں کے ہمراہ اُن کا استقبال کیا۔ جب وہ ہال میں داخل ہوئے تو شرکا نے بڑی گرم جوشی اور پُرتپاک انداز سے انہیں مرحبا کہا۔ برادر معتصم الٰہی ظہیر نے اس موقع پر نقابت کے فرائض انجام دیے اور خطبہ استقبالیہ کیلئے مجھے دعوت دی۔ میں نے خطبہ استقبالیہ میں جو گزارشات سامعین کے سامنے رکھیں‘ انہیں کچھ کمی بیشی اور ترامیم کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں بے پایاں اور اَن گنت ہیں‘ جن کا شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 34 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں مکمل گن بھی نہیں سکتے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الرحمن میں متعدد مرتبہ اس بات کا ارشاد فرمایا ''پس (اے انسانو اور جنو!) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے؟‘‘۔ گو اللہ کی نعمتیں گنتی میں نہیں آ سکتیں لیکن اس کے باوجود اگر تجزیہ کیا جائے تو کوئی نعمت بھی نعمتِ ایمان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگر انسان ایمان کی نعمت سے محروم ہو تو سرداری‘ مال‘ جاگیر‘ حسن و جمال اور خاندانی وجاہت جیسی نعمتیں اس کے کسی کام نہیں آ سکتیں۔ چنانچہ فرعون جیسا بادشاہ‘ قارون جیسا سرمایہ دار‘ شداد جیسا جاگیردار اور ابولہب جیسا سردار اسی لیے ناکام اور نامراد ہوئے کہ وہ ایمان کے راستے پہ نہ تھے۔ انبیاء کرام علیہم السلام نے ایمان کی آبیاری کے لیے بھرپور انداز سے اپنا کردار ادا کیا اور ان سب انبیاء کرام کے بعد نبی آخر الزماں حضرت محمد کریمﷺ ایمان اور اسلام کی دعوت کیلئے دنیا میں جلوہ گر ہوئے۔ آپﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ائمہ دین نے دعوتِ دین کے فریضے کو بطریقِ احسن انجام دیا اور دعوتِ دین کے اس فریضے کو انجام دینے کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان ائمہ کے کارہائے نمایاں کو تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ ائمہ دین اور محدثین کی خدمات ہم سب کے سامنے ہیں۔ ان کے بعد بھی بہت سے علما کو خدمتِ دین کا موقع ملا جن میں عصر حاضر میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کا نام سرفہرست ہے۔ آپ کی دعوت سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہو چکے ہیں اور تاحال دعوت کا یہ سفر جاری وساری ہے۔ آپ کی قومیت گو ہماری قومیت سے جدا ہے لیکن آپ سے ہماری وابستگی کی واحد وجہ دین اسلام ہے۔ دین کی سربلندی اور اس کی نشر واشاعت کا فریضہ انجام دینے کے لیے ہمیں ہمہ وقت کوشاں رہنا چاہیے اور سورۃ المائدہ کی آیت نمبر دو میں دیے گئے پیغام ''نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں تعاون نہ کرو‘‘ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ہمیں بھرپور طریقے سے تعاون کرنا چاہیے۔
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کے فرزند فارق نائیک کو خطاب کی دعوت دی گئی جنہوں نے اپنے خطاب میں وحدتِ امت کا درس دیا اور شخصیات اور بستیوں سے وابستگی اختیار کرنے کے بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید سے وابستگی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ آخر میں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے نہایت فصیح وبلیغ انداز میں اپنی معروضات کو سامعین کے سامنے رکھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطاب میں اس بات کا ذکر کیا کہ بچپن میں اُن کی زبان میں لکنت تھی اور وہ صحیح طور پر الفاظ کی ادائیگی سے قاصر تھے۔ انہوں نے کبھی اس بات کی توقع نہ کی تھی کہ وہ ایک اچھے خطیب کے طور پر لوگوں کی اصلاح کے فریضے کو انجام دے سکتے ہیں۔ شیخ احمد دیدات کی خدمات سے متاثر ہو کر انہوں نے میڈیسن کے شعبے کو خیرباد کہہ دیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی نشر واشاعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اس موقع پر امت کے درمیان جڑائو کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا کہ اگر امت میں وحدت موجود ہو تو دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی امت مسلمہ کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ آپ نے اہلِ دین اور اہلِ اسلام کو اصولی اور اعتقادی مسائل پر ہم آہنگ ہونے کا پیغام دیا اور کہا کہ جس طرح اہلِ کتاب اور مسلمانوں کے درمیان نقطۂ اشتراک توحید ہے‘ اسی طرح مسلمانوں کے مسالک اور گروہوں کے درمیان نقطۂ اتحاد کتاب وسنت ہے۔ اگر ہم کتاب وسنت سے صحیح معنوں میں وابستگی اختیار کر لیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے امت کے درمیان پائے جانے ولے اختلافات بہ آسانی حل ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ آپ اپنے نظریات کے اظہار میں بے باک ہیں اور اسلام کی دعوت دیتے ہوئے کسی بھی قسم کی لچک اور مداہنت کے قائل نہیں ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اس موقع پر پاکستانی عوام کی اپنے ساتھ محبت کا بھی ذکر کیا کہ جب وہ بیرونِ ملک تھے تو ان کو اس بات کی اطلاع موصول ہوتی رہتی تھی کہ اہلِ پاکستان ان سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس محبت کا مظاہرہ ان کو اس دورے میں دیکھنے کو ملا‘ وہ اس کی توقع بھی نہیں کر رہے تھے۔ یہ سچ بات ہے کہ دین کا رشتہ یقینا قومیت کے رشتوں کو مات کر دیتا ہے۔ اس موقع پر شرکائے مجلس جہاں ڈاکٹر صاحب کے خطاب میں منہمک تھے‘ وہیں ان کی شخصیت کا سحر بھی ان پر پوری طرح طاری ہو چکا تھا۔ مجلس کے اختتام پر ڈاکٹر صاحب کو یادگاری شیلڈ اور کتابیں بھی پیش کی گئیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنے خطاب کے بعد مرکز قرآن وسنہ سے تشریف لے گئے۔ ان کو الوداع کرتے ہوئے ہر دل بوجھل تھا کہ نجانے زندگی میں دوبارہ کب ان کا خطاب سننے اور ان کی زیارت کا موقع ملے۔ رات گئے یہ تقریب اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوئی۔