لوگوں کی اکثریت مال ودولت اور دنیاوی اسباب کی کثرت کو کامیابی سمجھتی اور اسی حوالے سے اپنی توانائیوں اور وسائل کو صرف کرتی ہے۔ دورِ حاضر میں عصری تعلیم کے حصول کا مقصد بنیادی طور پر اپنے معاشی معاملات کو بہتر بنانا ہے مگر جب کتاب اللہ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ کے ہاں کامیابی کا معیار کچھ اور ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر کامیابی کے حوالے سے بہت سے خوبصورت ارشادات فرمائے۔ اللہ کی خشیت کو کامیابی قرار دیتے ہوئے سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 200 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور ڈرتے رہو اللہ سے تاکہ تم کامیابی سے ہمکنار ہو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المومنون کے شروع میں فلاح پانے والے ان مومنین کا ذکر کیا‘ ارشاد ہوا ''یقینا ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی۔ جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ اور جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ اور جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے‘ یقیناً(ان سے تعلق) یہ قابلِ ملامت نہیں ہیں۔ جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کر جانے والے ہیں۔ اور جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔ یہی لوگ میراث پانے والے ہیں۔ جو وارث ہوں گے فردوس کے‘ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ میں فلاح پانے والے مومنوں کی جن نشانیوں کا ذکر کیا‘ ان میں نماز میں خشیت اختیار کرنا سرفہرست ہے اور جس آخری وصف کا ذکر آیا وہ ''نماز پر محافظت‘‘ کرنا ہے۔ سورۃ الاعلیٰ کی آیت 14 اور 15 میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے کامیاب ہونے والے لوگوں کا ذکر کیا۔ فرمایا ''بیشک اس نے فلاح پالی جو پاک ہو گیا۔ اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پڑھتا رہا‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس حقیقت کو بھی واضح کیا کہ بہت سے لوگ دنیا وی اسباب کے حصول کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ بہترین کام کرنے میں مصروف ہیں۔ آخرت کو فراموش کرنے والے اور فقط دنیا کیلئے تگ ودوکرنے والے لوگ درحقیقت ناکام اور نامراد ہیں۔ سورۃ الکہف کی آیات 103 اور 104 میں ارشاد ہوا ''کہہ دیجیے کہ اگر (تم کہو تو) میں تمہیں بتا دوں کہ بہ اعتبارِ اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ وہ (لوگ) ہیں کہ جن کی دنیاوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہوگئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کودنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی زندگی کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ بہترین راستہ یہی ہے کہ انسان دنیا اور آخرت دونوں میں سربلند ہونے کیلئے تگ ودو کرے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اہلِ ایمان کی اُس خوبصورت دعا کا ذکر کیا جس میں دنیا اور آخرت کی سربلندی کو جمع کرنے کا ذکر ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت 201 میں ارشاد ہوا ''اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذابِ جہنم سے نجات دے‘‘۔ دنیا اور آخرت میں سربلند ہونے کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ انسان اپنی فرض نماز کی حفاظت کا اہتمام کرتا رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کاروبارِ زندگی اور دیگر مشغولیات کی موجودگی میں نماز اور ذکر الٰہی میں مداومت کی اہمیت کو سورۃ النورکی آیت 37 میں کچھ انداز سے بیان فرمایا ''ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی‘ (اور وہ)اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں اس بات کا حکم دیا کہ اہلِ ایمان کو اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی چاہیے خصوصاً درمیانی نماز پر توجہ دینی چاہیے۔ انسان نمازِ عصر کے وقت بالعموم اپنے کاروباری معاملات کی انجام دہی میں مصروف ہوتا ہے تو نماز میں غفلت اور کوتاہی کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ چنانچہ انسان کو اپنی جملہ نمازوں خصوصاً درمیانی نماز پر توجہ دینی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت 238 میں ارشاد فرماتے ہیں ''نمازوں کی حفاظت کرو‘ بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ کیلئے باادب کھڑے رہا کرو‘‘۔ قرآن مجید میں نماز کی اہمیت کو اس حد تک اجاگر کیا گیا کہ میدانِ جہاد میں بھی اس کے قیام کو ضروری قرار دیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیات 101 تا 103 میں فرماتے ہیں ''جب تم سفر میں جا رہے ہو تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں‘ اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے‘ یقینا کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں۔ جب تم ان میں ہو اور نماز کھڑی کرو تو چاہیے کہ ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لیے کھڑی ہو‘ پھر جب یہ سجدہ کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آ جائیں اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی‘ وہ آ جائے اور تیرے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچائو اور اپنے ہتھیار لیے رہے‘ کافر چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے بے خبر ہو جائو تو وہ تم پر اچانک دھاوا بول دیں‘ ہاں اپنے ہتھیار اتار رکھنے میں اس وقت تم پر کوئی گناہ نہیں جبکہ تمہیں تکلیف ہو یا بوجہ بارش کے یا بسبب بیمار ہو جانے کے اور اپنے بچائو کی چیزیں ساتھ لیے رہو‘ یقینا اللہ نے منکروں کیلئے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے۔ پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو اور جب اطمینان پائو تو نماز قائم کرو! یقینا نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے‘‘۔ جہاد کے دوران نماز کے قیام کی رغبت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ انسان کو کسی بھی طور نماز سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارے معاشرے کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ دنیاوی اعتبار سے بہت سے باشعور‘ تعلیم یافتہ اور ذمہ دار لوگ بھی نماز کو اس طرح اہمیت نہیں دیتے جس طرح دینی چاہیے۔ چنانچہ بہت سے لوگ فجرکی نماز کو نیند کی وجہ سے‘ ظہر نماز کو دوپہر کے کھانے‘ عصر کی نماز کو کاروباری مشغولیت‘ مغرب کی نمازکو شام کی چہل قدمی اور عشا کی نماز کو رات کے کھانے یا عشائیے کی وجہ سے صحیح طور پر ادا نہیں کرتے۔ حالانکہ انسان کو اپنی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے نماز کو بنیادی اہمیت دینی چاہیے۔ سورۃ المدثر کی آیات 40 تا 49 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''کہ وہ جنتوں میں (بیٹھے ہوئے) گنہگاروں سے سوال کرتے ہوں گے۔ تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے۔ نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ اور ہم بحث کرنے والے (انکاریوں) کا ساتھ دے کر بحث مباحثہ میں مشغول رہا کرتے تھے۔ اور روزِ جزا کو جھٹلاتے تھے۔ یہاں تک کہ ہمیں موت آ گئی۔ پس انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی۔ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں‘‘۔ ان آیات میں انسانوں کی بہت سی ایسی کوتاہیوں کا ذکر کیا گیا جو ان کو جہنم میں لے جائیں گی۔ ان میں سے سر فہرست نماز کی ادائیگی پر متوجہ نہ ہونا ہے۔ نبی کریمﷺ تمام عمر خود بھی نماز کا اہتمام فرماتے رہے اور آپﷺ کے تلامذہ اور صحابہ کرامؓ بھی نمازوں کو خشوع وخضوع سے ادا کرتے رہے۔ معاشی سرگرمیاں‘ گھریلو مصروفیات اور دور دراز کے اسفار نمازوں کے راستے میں رکاوٹ نہ بن سکے حتیٰ کہ دورانِ جہاد بھی وہ نمازوں پر پوری طرح کار بند رہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید نمازکو اہمیت دینے کی وجہ سے دنیاوی امور کو صحیح طریقے سے انجام نہیں دیا جا سکتا۔ یہ فقط ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ انسان بطریق احسن جملہ امور کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نمازوں کو بھی بروقت اور باجماعت ادا کر کے دین و دنیا کی بھلائیوں کو سمیٹ سکتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں دنیاوی امورکے انجام دہی کے ساتھ بھرپور طریقے سے ارکانِ اسلام کو بجا لانے کی توفیق دے‘ آمین!