پچھلے دنوں مجھے ایک ادارے نے یہ سوال بھیجا کہ مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ہمیں کیا کردار ادا کرنا چاہیے کہ خطے میں امن آئے اور پاکستان پر بدلتے حالات کے منفی اثرات کم سے کم ہوں؟ یہ سوال خاصی سوچ بچار کا متقاضی ہے کیونکہ مڈل ایسٹ کئی اعتبار سے ہمارے لیے نہایت اہم خطہ ہے۔
بیرونِ ملک پاکستانیوں کی بیشتر تعداد خلیجی ممالک میں مقیم ہے اور یہ خطہ پاکستان کے لیے ترسیلاتِ زر کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ ہمارے روحانی رشتے مکۃ المکرمہ‘ مدینہ منورہ‘ نجفِ اشرف اور کربلا معلی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا قبلۂ اوّل بھی اسی خطے میں ہے جو اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ ہماری انرجی کی درآمدات ساری کی ساری خلیجی ممالک سے آتی ہیں۔ یہ ممالک ہمارے ہمسائے بھی ہیں کیونکہ گوادر سے براستہ سمندر سلطنتِ عمان زیادہ دور نہیں ہے۔
مسلم ممالک سے دوستانہ تعلقات پاکستان کے آئین کا تقاضا بھی ہیں۔ بیشتر خلیجی ممالک میں موروثی حکومتیں ہیں‘ چند ممالک میں مجلسِ شوریٰ ضرور موجود ہے مگر اس کا کردار محدود ہے۔ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کا ہیڈ کوارٹر جدہ میں ہے‘ اس لیے میزبان ملک سعودی عرب کا اس تنظیم میں خاصا اثر و رسوخ ہے۔ یاد رہے کہ چند سال پہلے ملائیشیا اور ترکیہ نے چند مسلم ممالک کا اجلاس بلانے کی کوشش کی تھی اور پاکستان کو اپنا ہمنوا بنانا چاہا تھا لیکن سعودی عرب کے ردِعمل کی وجہ سے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔
مڈل ایسٹ میں جہاں موروثی حکومتیں نہیں تھیں‘ وہاں آمریت تھی۔ مصر‘ شام‘ عراق اور لیبیا وغیرہ میں آمرانہ حکومتیں ایک عرصہ تک چلیں۔ مصر میں الیکشن کے ذریعے اخوان المسلمین کی حکومت آئی لیکن مصری مقتدرہ نے زیادہ دیر اسے برداشت نہیں کیا۔ پورے مڈل ایسٹ میں آزادیٔ رائے بہت محدود ہے۔ الجزیرہ ٹی وی پوری دنیا پر تنقید کر سکتا ہے لیکن قطر کی حکمران فیملی کی صرف تعریف ہی کرتا ہے۔
پچھلے چند عشرے مڈل ایسٹ میں تنائو کی صورتحال رہی ہے۔ ایران‘ عراق کی جنگ برسوں چلی پھر صدام حسین نے کویت پر چڑھائی کر دی اور یہ بہت بڑی حماقت تھی۔1980ء میں امریکہ نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ مڈل ایسٹ میں استحکام کے لیے وہ فوجی قوت کا استعمال کر سکتا ہے۔ اس پالیسی کو 'کارٹر ڈاکٹرائن‘ کہا جاتا ہے۔ بحرین اور قطر میں موجود امریکی فوجی اڈے اسی نظریے کا شاخسانہ ہیں۔
2003ء سے لے کر اب تک مڈل ایسٹ کا نقشہ خاصا بدل چکا ہے۔ آج کا عراق پرانے عراق کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہے۔ شام خانہ جنگی کی وجہ سے لاغر و نحیف ہے۔ اس کی اقتصادی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ امریکی‘ ترک‘ ایرانی اور روسی افواج ملک کے کچھ حصوں میں موجود ہیں۔ لیبیا میں بھی اب وہ سکت نہیں رہی‘ ملک عملی طور پر تقسیم ہے۔ یہ تینوں وہ ملک ہیں جو اسرائیل کے لیے چیلنج رہے ہیں۔ اب انہیں مغربی طاقتوں نے کمزور کردیا ہے لیکن کچھ ان کی اپنی بھی غلطیاں ہیں۔ اب ایران کی باری ہے اور پاکستان کو بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
حالیہ جاری جنگ میں غزہ اور لبنان کی تباہی ہمارے سامنے ہے۔ اس تباہی پر مسلم دنیا کا ردعمل بہت نرم رہا ہے اور اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ہم سے زیادہ بہتر ردعمل جنوبی افریقہ اور برازیل جسے غیر مسلم ممالک نے دکھایا ہے۔ مسلم ممالک کا مخمصہ یہ رہا ہے کہ ان کی حکومتوں کی اکثریت حماس کو فلسطینی عوام کی نمائندہ تنظیم تسلیم نہیں کرتی۔ دوسری طرف اسرائیل کے لیے امریکہ کی سفارتی‘ مالی اور عسکری مدد جاری ہے اور اگر یہ مدد نہ ہوتی تو اسرائیل یہ ظالمانہ جارحیت شاید زیادہ دیر جاری نہ رکھ سکتا۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک اسرائیل70 ارب ڈالر اس جنگ میں جھونک چکا ہے۔ چھ لاکھ اسرائیلی شہری اکتوبر 2023ء کے بعد ملک سے کوچ کر چکے ہیں‘ لیکن عالمی سیاست کی یہ بھی ستم ظریفی دیکھئے کہ اس وقت بھی دنیا کے 164 ممالک اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔
اس وقت اگرچہ محدود جنگ جاری ہے لیکن اگر یہ جنگ وسیع تر ہو جاتی ہے تو اسرائیل اور ایران ایک دوسرے پر بڑے حملے کرسکتے ہیں اور اس صورت میں جنگ ہماری سرحدوں تک پہنچ سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس صورت میں ایران ہم سے عسکری مدد کی توقع کرے‘ جو موجودہ حالات میں پاکستان کے لیے شاید ممکن نہ ہو۔ ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں اور اندرونی خطرات اس سے بھی بڑھ کر ہیں‘ لیکن برادر ملک ایران کی کم سے کم توقع یہ تو ہو گی کہ پاک ایران سرحد مکمل طور پر کنٹرول میں ہو اور دہشت گرد تنظیمیں وہاں سے کوئی کارروائی نہ کریں۔ ہمیں اس طرح کی مکمل مدد کرنی چاہیے تاکہ ایران یکسوئی سے جنگ لڑ سکے۔
بعض عرب ممالک یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کی جائے۔ غزہ میں قتل عام کے بعد یہ مطالبہ اور بھی زور پکڑ گیا ہے لیکن مجھے یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ امریکہ ویٹو پاور استعمال کرکے ایسی کسی بھی قرارداد کو ناکام بنا دے گا۔ دوسری طرف فلسطینیوں کی یہ ڈیمانڈ ہے کہ فلسطین اتھارٹی کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دی جائے۔ اس وقت فلسطینی اتھارٹی کو اقوام متحدہ میں مبصر کی حیثیت حاصل ہے۔ اس صورت میں بھی پاکستان کو بڑھ چڑھ کر کوئی کردار ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ کام فلسطین کے ہمسایہ ممالک یعنی اردن‘ شام اور لبنان کو کرنا چاہیے گو کہ یہاں بھی امریکی ویٹو پاور استعمال ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان کی شروع سے پالیسی رہی ہے کہ عربوں کے آپس کے تنازعات سے دور رہا جائے۔2015ء میں ہمارا یمن میں فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ اسی پالیسی کے سبب ہوا تھا اور یہ ایک صائب فیصلہ تھا۔ موجودہ لڑائی کی اگرچہ نوعیت مختلف ہے لیکن پھر بھی ہمیں خاموشی سے عرب اکثریت کا ساتھ دینا چاہیے۔ زیادہ زور و شور والی جذباتی خارجہ پالیسی ہمارے قومی مفاد میں نہیں ہے۔
حال ہی میں ریاض میں غزہ اور لبنان کے حوالے سے ہونے والی عرب اسلامی سمٹ میں سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ اسرائیل کو ایران کی زمینی اور فضائی حدود کا احترام کرنا چاہیے‘ پاکستان کیلئے یہ بات خوش آئند ہے کہ سعودی عرب اور ایران کو موجودہ حالات نے بتدریج قریب تر کر دیا ہے۔
جب میں پاکستان میں سکڑتی ہوئی آزادیٔ رائے اور ووٹ کی گرتی ہوئی توقیر کو دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ پاکستان بتدریج مڈل ایسٹ کا ملک بنتا جا رہا ہے اور میرے لیے یہ امر خوشی کا باعث ہرگز نہیں ہے۔ ہمارے مشرق میں بھارت میں الیکشن کے نتائج بہت کم متنازع ہوتے ہیں۔ وہاں سیاسی استحکام ہے‘ معیشت ترقی کی جانب گامزن ہے‘ سو چہ عجب کہ عرب دنیا بھارت کی جانب راغب ہو رہی ہے۔ ہمیں پوری قوت اور یکسوئی کے ساتھ اپنے داخلی حالات کو درست کرنا ہوگا۔ جب اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت میں سیاسی استحکام آئے گا‘ معاشی خوشحالی آئے گی تو مڈل ایسٹ میں ہمارا امیج رفیق والا نہیں بلکہ ایک باعزت اور قابلِ احترام قوم والا ہوگا۔