"JDC" (space) message & send to 7575

کشمیر اور فلسطین، استعماری مکرو فریب

کشمیر اور فلسطین کے مسائل برطانوی استعمار کے پیدا کردہ ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ 1947ء میں شروع ہوا‘ جب بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرکے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کے معاہدہ پر دستخط کروائے۔ فلسطین کا مسئلہ 1948ء میں شروع ہوا جب وہاں اسرائیل کی ریاست قائم کرکے آبادی کے ایک بڑے حصے کو ملک بدر کر دیا گیا اور ہزاروں افراد اُردن‘ شام اور لبنان کے مہاجر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہو گئے۔ جموں اور کشمیر میں بھی 1947ء میں بہت بڑی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوئی۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ آزادی سے پہلے جموں میں غیرمسلم اقلیت میں تھے اور وہاں مسلمانوں کی تعداد 67 فیصد تھی جبکہ آج جموں میں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ البتہ کشمیر اور فلسطین کے مہاجرین میں ایک واضح فرق ہے۔ کشمیر سے نقل مکانی کرنے والوں کو پاکستان میں شہری حقوق ملے جبکہ عرب ملکوں میں بسنے والے فلسطینی اب بھی مہاجرین کے کارڈ لیے پھرتے ہیں۔چلئے اس مسئلے کو ایک اور زاویے سے‘ اور ایک زندہ مثال کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں کشمیری نژاد الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ مسلح افواج میں جا سکتے ہیں۔ پراپرٹی خرید سکتے ہیں جبکہ عرب ممالک میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں کوئی خالد مشعل‘ محمود عباس یا کوئی اور فلسطینی لیڈر مصر‘ شام‘ لبنان یا اردن میں سیاسی قیادت نہیں کر سکتا‘ یہ پالیسی اس لیے بھی بنائی گئی تھی کہ فلسطین کی تحریک آزادی کمزور نہ پڑ جائے۔
1948ء میں فلسطین میں دو متوازی ریاستوں کے قیام کی تجویز تھی۔ یہ تجویز اقوامِ متحدہ نے دی تھی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسے مغربی اقوام کی حمایت حاصل تھی۔ ساتھ سے فلسطینیوں سے یہ وعدہ متعدد بار کیا گیا کہ اسرائیل کی ریاست بننے کے بعد مقامی عرب آبادی کے حقوق محفوظ رہیں گے تو کیا فلسطینیوں کے حقوق آج محفوظ ہیں؟ پی ایل او کے لیڈر یاسر عرفات سے کہا گیا کہ مسلح جدوجہد ترک کر دو‘ مذاکرات کی طرف آؤ۔ تم اسرائیل کو تسلیم کر لو‘ ہم تمہیں اسرائیل کے متوازی فلسطینی ریاست بنا دیں گے۔ 1993ء میں اوسلو کا معاہدہ ہوا‘ ایک بار پھر وعدہ کیا گیا کہ پانچ سال کے اندر اندر فلسطینی تارکینِ وطن کی واپسی اور نئی ریاست کے حدود و اربعہ کی بات چیت مکمل ہو جائے گی۔ شمعون پیریز‘ اضحاک رابین اور یاسر عرفات کو نوبیل امن انعام مل گئے لیکن اوسلو کے معاہدے پر عمل نہ ہو سکا۔ اسرائیل میں امن کے داعی لیڈر اضحاک رابین کو قتل کر دیا گیا۔ امن کی آخری شمع بھی بجھ گئی اور بنیامین نیتن یاہو جیسے متعصب صہیونی لیڈروں کے لیے اقتدار کا راستہ کھل گیا۔ نیتن یاہو اور نریندر مودی میں ایک بڑی مماثلت یہ ہے کہ دونوں مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ دونوں اپنی سیاسی عصبیت کی تاویل مقدس صحیفوں اور ویدوں میں تلاش کرتے ہیں۔ ان کی تاویلیں بزعم خویش حتمی ہیں اور انہیں نہ ماننے والے فلسطینی اور بھارتی دوسرے درجے کے شہری ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ انڈیا خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا۔ سکیورٹی کونسل نے قرارداد پاس کی کہ ریفرنڈم کے ذریعے کشمیریوں کی رائے معلوم کی جائے گی کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا انڈیا کے ساتھ۔ انڈیا مختلف حیلوں بہانوں سے ریفرنڈم کو ٹالتا رہا۔ یاد رہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے برملا کہا تھا کہ ریفرنڈم کا وعدہ نہ صرف کشمیریوں سے ہے بلکہ پوری دنیا سے ہے۔ کشمیریوں کی ڈھارس بندھانے کیلئے انڈیا نے انہیں اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کے ذریعے خود مختاری دی۔ صرف خارجہ پالیسی‘ کرنسی‘ دفاع اور مواصلات کے اختیارات مرکز کے پاس تھے۔ باقی تمام امور کشمیریوں کے پاس رہے۔ آرٹیکل 35-A کو لاگو کیا گیا کہ کوئی غیر کشمیری ریاست میں جائیداد نہیں خرید سکتا۔ 2019ء میں یہ سب کچھ کافور ہو گیا۔ اس سے پہلے حالات بہت مختلف تھے بلکہ شروع میں تو کشمیر کا پرچم بھی الگ تھا۔ وزیراعلیٰ کو وزیراعظم کہا جاتا تھا۔ گورنر کو صدرِ ریاست کہا جاتا تھا۔ جموں کشمیر کی اپنی قانون ساز اسمبلی تھی۔ آہستہ آہستہ کمال مکاری سے یہ سب اختیارات واپس لے لیے گئے۔ جموں اور لداخ کو انتظامی طور پر علیحدہ کر دیا گیا۔
پہلی عالمی جنگ کے دوران برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے تحریری وعدہ کیا کہ برطانوی حکومت فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام میں مدد کرے گی۔ جنگ میں صہیونیوں نے اتحادی ممالک کی مدد کی تھی۔ اس سپورٹ کے بدلے میں انہیں اپنی ریاست کا وعدہ ملا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی میں ہٹلر نے یہودیوں پر مظالم ڈھائے لیکن شومیٔ قسمت سے ہٹلر کے مظالم کی سزا فلسطینیوں کو ملی۔ اسرائیلی لیبر پارٹی امن کی داعی تھی‘ اس کے لیڈر شمعون پیریز اور اضحاک رابین بھی امن کے لیے کوشاں رہے لیکن موجودہ دائیں بازو کی انتہا پسند حکومت فلسطینی ریاست کا نام بھی سننا گوارا نہیں کرتی۔ بالکل اسی طرح انڈیا نے بھی کشمیر کے بارے میں مکمل قلا بازی کھائی ہے۔
مغربی طاقتوں کو تو چاہیے تھا کہ وہ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کو حل کرانے میں کلیدی کردار ادا کرتے۔ یہ دونوں مسئلے برطانوی استعمار کے پیدا کردہ ہیں لیکن امریکہ اور برطانیہ غزہ کی جنگ میں اسرائیل کے مکمل حامی رہے۔ جنگ شروع ہوئی تو صدر بائیڈن فوراً اسرائیل پہنچے اور یہ تک کہا کہ میں بھی صہیونی ہوں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ہو جائے کہ صہیونی ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری نہیں‘ ہر وہ شخص جو عہد نامہ قدیم میں بیان کردہ Promised Landپر یقین رکھتا ہے وہ صہیونی ہو سکتا ہے۔ سات اکتوبر 2023ء کے فوراً بعد برطانیہ کا اُس وقت کا وزیراعظم رشی سوناک‘ سی ون تھرٹی جہاز اسلحہ سے بھر کے تل ابیب پہنچا تھا۔ آج کے بین الاقوامی تعلقات سے اخلاقیات غائب ہیں صرف مفادات ملکوں کے رشتوں کا تعین کرتے ہیں۔
حالیہ دنوں اسرائیل کے وزیراعظم نے امریکہ کا دورہ کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ اقتدار میں یہ ان کا امریکہ کا تیسرا دورہ ہے۔ دونوں میں گاڑھی چھنتی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کو وائٹ ہاؤس میں ڈنر کے لیے دعوت دی گئی۔ ڈنر ٹیبل پر جو گفتگو ہوئی وہ چشم کشا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے برملا کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ وہی متوازی فلسطینی ریاست ہے جس کا وعدہ اوسلو معاہدے میں موجود ہے۔ بالکل اسی طرح جسے نریندر مودی کہتا ہے کہ کشمیر میں ریفرنڈم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا حالانکہ پنڈت جواہر لال نہرو نے ریفرنڈم کا وعدہ پوری دنیا سے کیا تھا۔
اسرائیلی وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ فلسطین میں صرف ایک ریاست ہو گی اور اس میں سکیورٹی کے اختیارات ہمارے پاس ہوں گے۔ دوسرے لفظوں میں فلسطینیوں کو گرفتار کرنا بلکہ انہیں قتل کرنا اسرائیل کی صوابدید ہو گی۔ عام خبروں میں کہا جاتا ہے کہ غزہ میں اب تک 57 ہزار فلسطینی شہید ہوئے ہیں جبکہ برطانیہ کے ماہرین کے ایک سروے کے مطابق اصل تعداد 83 ہزار ہے۔
1917ء میں فلسطین میں یہودی آبادی کا تناسب دس فیصد تھا‘ آج پچاس فیصدہے۔ اس تناسب کو مزید اسرائیل کے حق میں کرنے کے لیے غزہ کے لوگوں کو دوسرے ممالک میں آباد ہونے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ وادیٔ کشمیر میں بھی ہندو آبادی کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ آج نریندر مودی اور نیتن یاہو وہی کچھ کر رہے ہیں جس کی بنیاد برطانوی سامراج نے رکھی تھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں