میں نے1961ء میں میٹرک بہت اچھے نمبروں کے ساتھ پاس کیا تو گوجرہ کے معروف سیاسی لیڈر حمزہ صاحب میرے والد کو مبارک دینے آئے۔ گوجرہ میں کالج بن چکا تھا‘ عین ممکن تھا کہ مجھے اسی کالج میں داخل کرا دیا جاتا لیکن حمزہ صاحب کا مشورہ تھا کہ لڑکے کا مستقبل بنانا ہے تو گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل کرائیں۔ والد صاحب نے اپنے محدود وسائل کے باوجود اس مشورے پر عمل کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں میرٹ سسٹم رائج ہو چکا تھا۔ میٹرک کے نمبروں کے اعتبار سے مجھے میڈیکل‘ نان میڈیکل اور آرٹس کسی بھی شعبے میں داخلہ مل سکتا تھا۔ میرا رجحان آرٹس کی طرف تھا اور والد صاحب کو بھی شوق تھا کہ بیٹا سول سروس میں جائے۔ وہ ڈپٹی کمشنر کی شان وشوکت قریب سے دیکھتے رہتے تھے اور اُس زمانے کا ڈپٹی کمشنر آج کی طرح سیاسی لیڈروں سے مرعوب نہیں ہوتا تھا‘ اُسے آئینی تحفظ حاصل تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں میرٹ سسٹم آنے کے باوجود ماحول انگریزی مائل تھا۔ حالانکہ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد درویش مزاج اور دیسی طبیعت کے تھے‘ وہ اکثر کالج میں شلوار اور اچکن پہن کر آتے اور پاؤں میں کھسہ ہوتا۔ یہ بظاہر بہت دیسی نظر آنے والا انسان لبرل بھی تھا۔ آزادیٔ رائے پر مکمل یقین رکھتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب موسیقی اور شاعری کو خوب سمجھتے تھے۔ وہ ایک شفیق انسان تھے۔ ان کے دروازے طلبہ کیلئے ہمیشہ کھلے رہتے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے زیادہ پاپولر پرنسپل نہیں دیکھا۔
گورنمنٹ کالج لاہور کی اپنی شان تھی۔ ہم کالج کا بلیزر بڑے فخر سے پہنتے تھے۔ ہر طالب علم میں اعلیٰ سے اعلیٰ پرفارمنس کی لگن تھی‘ ڈسپلن تھا۔ اسی کالج کے اکثر طلبہ میڈیکل کالجوں اور انجینئرنگ یونیورسٹی میں جاتے۔ سول سرونٹس بھی زیادہ تر ہمارے کالج ہی کے فارغ التحصیل تھے۔ اُس زمانے میں اسلامیہ کالج لاہور کے کسی اولڈ سٹوڈنٹ نے تفاخر سے کہا کہ پاکستان بنانے میں ہمارا کالج پیش پیش تھا‘ گورنمنٹ کالج کی طرف سے جواب آیا 'مگر پاکستان کو چلاتے ہم ہیں‘۔
تعلیمی کارکردگی تو گورنمنٹ کالج کی شاندار تھی ہی لیکن غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی یہ آگے آگے تھا۔ بین الکلیاتی مباحثوں میں کالج کے طلبہ بہت ساری ٹرافیاں لاتے۔ مجلسِ اقبال کا اجلاس ہر ہفتے ہوتا۔ پروفیسر قیوم نظر اس کے صدر تھے۔ کالج کے طالب علم اپنا افسانہ یا شاعری سناتے اور پھر تنقید کا دور آتا۔ کالج کا ڈرامہ کلب بہت فعال تھا۔ شعیب ہاشمی مرحوم‘ نگار احمد اور شمیم احمد (شمیم ہلالی) کلب کے روح رواں تھے۔ کالج میگزین راوی بڑا معیاری رسالہ تھا۔ راوی کا ایڈیٹر بننا کوئی آسان کام نہ تھا۔ انگریزی اور اردو کے کہنہ مشق لکھاری ہی یہ مقام حاصل کرتے تھے۔
میں پندرہ سال کی عمر میں والدین سے پہلی مرتبہ جدا ہو کر کواڈرینگل ہاسٹل آیا تھا۔ یہ بذاتِ خود نفسیاتی طور پر کٹھن مرحلہ تھا۔ لاہور کی آبادی 1961ء میں صرف 16 لاکھ تھی لیکن مجھے یہ شہر بہت بڑا لگتا تھا کیونکہ میں ایک قصبے سے آیا تھا۔ مغرب کے تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ کے نفسیاتی مسائل سے نپٹنے کیلئے ایک ماہر نفسیات ہوتا ہے جس کا کام ہی تعلیمی مشاغل اور نفسیاتی اُلجھنوں کو ایڈریس کرنا ہوتا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک مکمل شعبہ نفسیات تھا۔ ڈاکٹر اجمل اس کے ہیڈ تھے لیکن طلبہ کی نفسیاتی کاؤنسلنگ کا کوئی بندوبست نہ تھا۔ میرا تقریباً ایک سال ذہنی اُلجھنوں میں گزرا۔ میں پہلے کی نسبت خاصا خاموش ہو گیا تھا لیکن پھر ریکوری کی سٹیج بھی آ گئی۔ نئے دوست بن گئے‘ ٹینس کھیلنا شروع کر دی۔ کالج کا سوئمنگ پول ہمارے ہاسٹل کے عقب میں واقع تھا‘ کبھی کبھار وہاں چلا جاتا۔ کالج کے ٹینس کوچ کے ساتھ پریکٹس کی خواہش ظاہر کرتا تو وہ کہتا کہ صاحب ہاف سیٹ چائے اور ایک کیک پیس کوچنگ کے بعد ہو گا۔ سودا بُرا نہیں تھا۔ غلام حسین کے ساتھ آدھا گھنٹہ کھیل کر خوب ورزش ہو جاتی تھی۔ نیند بہت اچھی آتی تھی۔
مجھے کالج کے اوپن ایئر تھیٹر میں ہونے والا 1961ء کا مباحثہ یاد آ رہا ہے۔ موضوع تھا Marriage is the biggest tradegy of life۔ ایک قصبے سے آنے والے پندرہ سالہ لڑکے کیلئے یہ ایک نیا اور دلچسپ واقعہ تھا۔ مقررین میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل تھے۔ صدارت یونین کے صدر شمشاد احمد خان کر رہے تھے۔ ہارون کیانی یونین کے منتخب سیکرٹری تھے۔ مباحثے کے دوران مقررین اور سامعین کے درمیان دلچسپ سوال وجواب ہوئے مگر سلیقے اور شائستگی کے ساتھ۔ مجھے یاد ہے کہ فرسٹ ایئر میں مجھے فرفر انگریزی بولنے والے لڑکے لڑکیاں بہت متاثر کرتے تھے اور گورنمنٹ کالج میں ایسے طلبہ عام تھے۔ گورنمنٹ کالج دوسرے تعلیمی اداروں سے اس لیے بھی بہتر تھا کہ یہاں میٹرک یا سینئر کیمبرج میں اچھے مارکس لینے والے ہی داخلہ حاصل کرتے تھے۔ اسّی فیصد طالبعلم بہت پڑھاکو قسم کے ہوتے تھے۔ باقی مباحثوں‘ کرکٹ‘ ہاکی‘ تحریری صلاحیتوں‘ پیراکی‘ ایتھلیٹکس کے ذریعے شہرت پاتے۔ ڈاکٹر نذیر صاحب آزادیٔ رائے کے حامی تھے۔ 1962ء میں جسٹس ایم آر کیانی کا اچانک انتقال ہوا تو کالج میں تعزیتی اجلاس ہوا۔ یاد رہے کہ جسٹس کیانی ایوب خان کے مارشل لاء کے ناقدین میں ایک مقام رکھتے تھے۔ ارشاد اللہ خان اس وقت کالج میگزین کے انگلش سیکشن کے ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے کیانی صاحب کی تعریف وتحسین میں زوردار مضمون لکھا۔ ایک جملہ مجھے آج تک یاد ہے: He spoke in the dark days fo martial law۔ یعنی کیانی صاحب مارشل لاء کے تاریک ایام میں بھی بولتے رہے۔ گورنر نواب کالا باغ کے حکم پر راوی کو چھ ماہ کیلئے بند کر دیا گیا مگر پرنسپل صاحب نے پروا نہ کی اور ارشاد اللہ خان یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ اگلے روز اپنے دوست‘ کلاس فیلو اولڈ راوین اور معروف شاعر سرمد صہبائی کا سوشل میڈیا پر انٹرویو دیکھا۔ موصوف کا کہنا تھا کہ گورنمنٹ کالج کا امتیاز بڑی حد تک سی ایس پی پیدا کرنا تھا۔ میری رائے میں سرمد نے اپنی مادر علمی سے انصاف نہیں کیا۔ علامہ اقبال‘ فیض احمد فیض‘ ن م راشد‘ ڈاکٹر عبدالسلام‘ ڈاکٹر ثمر مبارک مند تمام اولڈ راوین ہیں۔
گورنمنٹ کالج میں میرے دورِ طالب علمی کا سب سے اہم ایونٹ کالج کی صد سالہ تقریبات تھیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان مہمانِ خصوصی تھے۔ کالج کے سامنے اوول گراؤنڈ میں جلسہ ہوا۔ درویش صفت پرنسپل نے اس دن اچکن شلوار اور کھسہ پہنا ہوا تھا۔ اچکن کے اوپر کے دو بٹن حسبِ معمول کھلے تھے۔ ڈاکٹر صاحب استقبالیہ تقریر پڑھتے ہوئے ایک ہاتھ کی انگلیوں سے اپنے لمبے بالوں کو سلجھا رہے تھے۔ ادھر ایوب خان سینڈ ہرسٹ اکیڈمی کے تربیت یافتہ تھے‘ جہاں سختی سے بتایا جاتا ہے کہ بال تراشیدہ ہونے چاہئیں‘ اور کون سے فنکشن میں کون سا لباس پہننا ہے‘ جوتے ایسے پالش ہوں کہ پہننے والے کو شیشے کی طرح اپنی شکل نظر آئے۔ ایوب خان کو ہمارے پرنسپل صاحب کی وضع قطع پسند نہ آئی۔ انہیں سینٹرل ٹریننگ کالج ٹرانسفر کر دیا گیا۔ کالج میں پہلی ہڑتال ہوئی۔ طلبہ نے کلاسوں میں جانے سے انکار کردیا۔ ان کا مطالبہ تھا ''ہمارا باپ واپس لاؤ‘‘ اور حکومت اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہو گئی۔
گورنمنٹ کالج سے میں نے ایف اے اور بی اے امتیازی نمبروں سے پاس کیے‘ البتہ ایم اے اکنامکس میں سیکنڈ ڈویژن آئی۔ ہم آٹھ کلاس فیلو تھے‘ آٹھ میں سے چار اتنے اچھے تھے کہ کوئی بھی ممتحن ان کو سیکنڈ ڈویژن دے ہی نہیں سکتا تھا اور وہ تھے منیر قریشی‘ محمد عمر فاروق (مشرقی پاکستان سے) عارفہ جمال الدین اور شاہین ملک۔ گورنمنٹ کالج کے چھ سال میں مجھے انگریزی اچھی خاصی بولنا آ گئی تھی۔ ہماری قوم تب بھی انگریزی سے متاثر ہوتی تھی اور آج بھی ہوتی ہے۔ ایم اے کا رزلٹ آیا تو مجھے ایک ہفتہ کے اندر صادق پبلک سکول بہاولپور میں بطور لیکچرار اکنامکس جاب مل گئی‘ اور وجہ میری سپوکن انگلش تھی جو انٹرویو میں بڑی کام آئی۔