"JDC" (space) message & send to 7575

جنگ کی بدلتی نوعیت

اس مرتبہ لڑی گئی پاک بھارت جنگ روایتی جنگوں سے بہت مختلف تھی۔ نہ سائرن بجے نہ بلیک آئوٹ ہوا‘ نہ ہی شہروں میں حفاظتی مورچے کھودے گئے۔ نہ ٹینکوں نے گولہ باری کی نہ توپیں دھاڑیں۔ نہ انفنٹری کے دستے آمنے سامنے آئے اور نہ ہی کہیں دست بدست لڑائی ہوئی۔ اس دفعہ تو دونوں ملکوں کے لڑاکا ہوائی جہاز بھی اپنی اپنی فضائی حدود ہی میں رہے۔ یہ جنگ آئی ٹی اور ریموٹ کنٹرول سے لڑی گئی۔ کسی بڑی جنگ میں چینی ٹیکنالوجی کا استعمال پہلی مرتبہ ہوا اور تجربہ کامیاب رہا۔ اس جنگ میں پروپیگنڈا کا استعمال انڈیا کی طرف سے بڑے بھونڈے طریقے سے ہوا اور ایسے ایسے بے تکے جھوٹ بولے گئے کہ آج انڈین میڈیا پوری دنیا میں مذاق بن کے رہ گیا ہے۔
انڈیا کے پاس پچھلے دو تین عشروں میں جدید ترین مغربی ہتھیار آ گئے ہیں۔ ایک زمانے میں انڈیا کا بیشتر اسلحہ روسی ساخت کا تھا مگر اب امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور اسرائیل انڈیا کو اسلحہ سپلائی کرنے والے نمایاں ملک ہیں۔ اس اسلحے کی وجہ سے انڈیا تکبر کا شکار ہو گیا۔ اس کا خیال تھا کہ پاکستان کا اسلحہ کمتر نوعیت کا ہے۔ رافیل جہازوں سے داغے گئے میزائل جلد ہی پاکستانی ہوائی جہازوں کا صفایا کر دیں گے۔ وکرانت نامی بحری بیڑہ کراچی کی بندرگاہ کو مفلوج کر دے گا۔ پاکستان کی بیرونی تجارت مکمل طور پر رک جائے گی۔ نہ تیل آئے گا اور نہ ہی انڈسٹری چلے گی۔ ٹرانسپورٹ‘ حتیٰ کہ ٹریکٹر ٹرالیاں سب بند ہو جائیں گی۔ پاکستان اپنے گھٹنوں پر آ جائے گا اور انڈیا کی پوری دنیا میں بلّے بلّے ہو جائے گی۔ پاکستان انڈیا کا بغل بچہ بن کر رہ جائے گا۔ انڈیا کا سپر پاور بننے کا خواب اگلی دو دہائیوں میں پورا ہو جائے گا۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ 2019ء کی انڈیا کی بالاکوٹ پر مہم جوئی‘ ابھینندن کی گرفتاری اور پھر دنیا بھر کے میڈیا پر انڈین پائلٹ کی واہگہ کے راستے واپسی کی کوریج‘ یہ سب باتیں انڈیا بھولا نہیں ہے۔ پاکستان پر مسلط کی گئی حالیہ جنگ 2019ء میں ہونے والی انڈین سبکی کا بدلہ تھا۔ انڈیا پچھلے کئی سالوں سے بین الاقوامی طاقتوں سے کہہ رہا ہے کہ اس کا نام پاکستان کے حوالے سے نہ لیا جائے کیونکہ وہ اب رتبے میں بہت بلند ہے‘ چین کے ساتھ برابری کا موازنہ ہو سکتا ہے لیکن اب اس بات کا کیا کیا جائے کہ پاکستان اور انڈیا کا نام ایک ہی سانس میں دنیا کے متعدد لیڈر اور مبصر لے رہے ہیں۔ انڈیا اور چین کی عسکری طاقت میں خلیج مزید بڑھ گئی ہے۔ تو کیا 2025ء کی سبکی کا بدلہ انڈیا آئندہ چند سالوں میں لینے کی کوشش کرے گا؟ میرا خیال ہے کہ ضرور ایسا کرے گا لیکن آئندہ ہونے والی جنگ کی نوعیت کچھ اور طرح کی ہو گی۔ اگلی جنگ کی نوعیت پر بحث کرنے سے پہلے موجودہ جنگ پر نظر ڈالیں تو نقصان دونوں جانب ہوا ہے۔ اگلی جنگ اس سے زیادہ خطرناک اور پُراسرار ہوگی۔ اس لیے ضروری ہوگا کہ پاکستان میں ہماری صفیں درست ہوں‘ ملک میں اتحاد ہو۔ اس وقت قوم منقسم ہے جو نیک شگون نہیں۔
یہ بات ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ بی جے پی کی حکومت کانگریس کے مقابلے میں پاکستان دشمنی میں خاصی آگے ہے۔2008ء میں ممبئی میں ہونے والا دہشت گردی کا واقعہ پہلگام واقعے سے بہت بڑا تھا‘ لیکن ممبئی حملوں کو ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ مصر میں شرم الشیخ میں مذاکرات کا بندوبست ہو گیا۔ اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم منموہن سنگھ تھے اور پاکستان کے یوسف رضا گیلانی۔ دونوں جانب معاملات کو سلجھانے کی خواہش نظر آ رہی تھی۔ اگر آپ شرم الشیخ کانفرنس کا مشترکہ بیان پڑھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔ نریندر مودی میں پاکستان کے ساتھ پنجہ آزمائی کی خواہش بدرجہ اتم موجود ہے۔ منموہن سنگھ ان کے مقابلے پڑھے لکھے اور مہذب آدمی تھے۔ ان کا خاندان جہلم سے انڈیا گیا تھا۔ وہ پاکستان کو بہتر سمجھتے تھے۔ مذاکرات شروع ہوئے تو انہوں نے یہ شعر پڑھا:
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
شعر حسبِ حال تھا کہ دشمنی کو زیادہ طول نہ دیا جائے۔ یوسف رضا گیلانی کو بھی پاکستانی وفد کے ایک باذوق ممبر نے ایک شعر پڑھنے کیلئے دیا اور وہ بھی حسبِ حال تھا۔ دونوں ملکوں میں شدید کشیدگی کے باوجود برف پگھلنے لگی تھی کہ چند سال بعد بی جے پی کی حکومت نئی دہلی میں حکمران بن گئی۔ اس پارٹی کی مسلمانوں سے نفرت کو آپ بخوبی جانتے ہیں۔ یہ پارٹی مہاتما گاندھی سے بھی بغض رکھتی ہے اور ان کے قاتل نتھورام گوڈ سے کے اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ 2016ء کے آغاز میں پٹھانکوٹ میں دہشت گردی ہوئی تو الزام فوراً پاکستان پر لگا دیا گیا اور پھر مودی نے وہ مشہور جملہ بولا'' خون اور پانی اکٹھے نہیں بہہ سکتے‘‘۔ انڈیا نے سرکاری سطح پر انڈس واٹر ٹریٹی پر نظر ثانی کا سوچ لیا حالانکہ وہ یکطرفہ طور پر اس معاہدے میں کسی تبدیلی کا مجاز نہیں ہے۔
گو کہ یہ جنگ تینوں مسلح افواج نے مربوط حکمت عملی سے لڑی لیکن پاک فضائیہ کی کارکردگی نہایت عمدہ رہی۔ میں پاک فضائیہ کے چند بہترین افسروں کو دمشق میں اپنی پوسٹنگ کے زمانے سے جانتا ہوں۔ مشہورِ زمانہ پائلٹ ایم ایم عالم جو اپنی زندگی میں ہی لیجنڈ بن چکے تھے‘ ان سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ پاک فضائیہ ہمیشہ انڈین ایئرفورس سے بہتر رہی اور یہ ایک مرتبہ پھر ثابت ہو گیا ہے کہ یہ بڑے پروفیشنل لوگ ہیں‘ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں‘ سیاست سے دور رہتے ہیں۔ اس جنگ میں ایئر ڈیفنس اور بحریہ نے بھی پاک فضائیہ کا بھرپور ساتھ دیا۔
اب آتے ہیں انٹرنیشنل ردِعمل کی طرف۔ چین‘ ترکیہ اور آذربائیجان پاکستان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے جبکہ فرانس‘ اسرائیل اور افغانستان نے انڈیا کا ساتھ دیا۔ فرانس کے علاوہ جی سیون کے دوسرے ممالک کا سٹینڈ انڈیا کو پسند نہیں آیا۔ وہ جو انڈیا کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان کو عالمی برادری میں تن تنہا کردیا ہے‘ غلط ثابت ہوا۔ اس جنگ کا سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہوا ہے۔ چینی عسکری ٹیکنالوجی اور لڑاکا ہوائی جہازوں کی کارکردگی شانداررہی۔ پاکستانی مسلح افواج کی مہارت اور تائیدِ ایزدی بھی شامل حال رہی۔ میں جنگ کے دنوں میں لاہور میں تھا۔ کئی عرب ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیا۔ خلیجی ممالک کو خدشہ تھا کہ جنگ پھیلتی ہے تو تیل کی سمندری ترسیل و تجارت کو نقصان ہو سکتا ہے۔ امریکہ نے جنگ بندی کرائی مگر انڈیا بڑی دیر تک کہتا رہا کہ یہ پاک ہند دو طرفہ فیصلہ تھا۔ دراصل تیسری کسی طاقت کا نام انڈیا کو قبول نہیں۔ انڈیا کی اَنا بہت بڑی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ملکوں میں اگلی جنگ پانی پر ہو گی۔ انڈیا کا منصوبہ ہے کہ دریائے چناب سے سرنگ کے ذریعے پانی دریائے راوی تک پہنچایا جائے۔ یہ سندھ طاس معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہو گی۔ انڈیا اب پاکستان کو اندر سے کمزور کرنے کی کوششیں مزید تیز کر دے گا۔ دہشت گرد تنظیموں کی مالی امداد زیادہ کر دے گا۔ ہمیں اپنی داخلی سیاسی صورتحال کو درست کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ انڈیا کے سفارتی مشن کی قیادت ششی تھرور کر رہے ہیں جو اپوزیشن پارٹی کانگریس کے رکن ہیں جبکہ پاکستانی سفارتی وفد میں اپوزیشن کا ایک ممبر بھی شامل نہیں۔ جناب قومی یکجہتی کا درس انڈیا ہی سے لے لیں وہ اس معاملے میں ہم سے آگے ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں