صدر ٹرمپ نے چند ہفتے قبل غزہ میں امن کیلئے اسرائیلی وزیراعظم کی موجودگی میں اپنا ایک امن منصوبہ پیش کیا تھا۔ بیس نکات پر مشتمل یہ منصوبہ خاصا دلچسپ ہے۔ اس میں مرکزی نکتہ اسرائیل کی سکیورٹی ہے‘ اور اب اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ٹرمپ منصوبے سے ہی اخذ شدہ قرارداد منظور کرلی ہے۔ آٹھ مسلم ممالک نے شروع میں ہی اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا تھا ‘ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل تھا۔ پاکستان آج کل سلامتی کونسل کا منتخب ممبر ہے۔ پاکستان نے متعدد تحفظات کے باوجود قرار داد کے حق میں ووٹ دیا۔
غزہ کی پٹی دو سال تک اسرائیل کے غیظ و غضب کے نشانے پر ہے۔شہادتوں کی تعداد 70 ہزار کے قریب ہے‘ 80 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔دو سال میں اذیت دیکھنے کے باوجود فلسطینیوں نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسلام آباد میں میرے کئی فلسطینی دوست رہتے ہیں‘ ان کے عزیزو اقارب غزہ میں ہیں جب بھی ان سے عزیزوں اور اہلِ خانہ کا حال پوچھا تو جواب ملا: الحمد للہ زندہ ہیں۔ ان لوگوں کو دیکھ کر صبرِ ایوب یاد آ جاتا ہے۔
ستمبر کے آخر میں جب وزیر خارجہ اسحاق ڈار نیو یارک سے واپس آئے تو انہوں نے دو اہم بیان دیے۔ ایک تو یہ کہا کہ غزہ میں عالمی امن دستے بھیجنے کی تیاری ہو رہی ہے اور انڈونیشیا نے 20 ہزار فوجی بھیجنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس سے یہ تاثر عام ہوا کہ پاکستان بھی غزہ میں فوجی دستہ بھیجے گا مگر یہ ایسا حساس موضوع ہے کہ ہر زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا بیان وزیر خارجہ نے اسمبلی کے فلور پر دیا کہ نیویارک میں ہمیں جو منصوبہ دکھایا گیا تھا‘ موجودہ منصوبہ اس سے مختلف ہے۔ راقم الحروف کو صاف لگتا ہے کہ ڈنڈی اسرائیل کی محبت میں ماری گئی ہے کیونکہ اسرائیل کی سکیورٹی اس منصوبے کا محور ہے۔میں نے اس منصوبے کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ مجھے تو یہ بہت زیادہ رجائیت کی طرف مائل لگتا ہے‘ یعنی Over Optimisticہے۔ مثلاً آغازہی میں کہا گیا ہے کہ غزہ کو انتہا پسندی سے پاک کیا جائے گا۔ کیا دو سال کے مختصر عرصے میں یہ ممکن ہو سکے گا؟ اور پھر مسئلہ غزہ تک ہی محدود نہیں‘ پورا خطہ خاک و خون میں لتھڑا ہوا ہے۔ اکتوبر میں مغربی کنارے پر اسرائیلیوں نے ریکارڈ حملے کیے ۔ جنوبی لبنان میں اسرائیل حزب اللہ سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کیلئے دیواریں بنا رہا ہے۔ گولان کی پہاڑیوں کو ہضم کرنے کے بعد اسرائیل نے شام کا کچھ ملحقہ علاقہ بھی قبضے میں لے لیا ہے۔ شام میں نئی حکومت ابھی پیر جمانے کی کوشش میں ہے۔ شام موجودہ حالت میں خاصا کمزور ہے لیکن اسرائیل کے فضائی حملے پھر بھی ہوتے رہتے ہیں۔ دراصل اسرائیل کو علاقے کا سب سے بڑا چودھری بننے کا شوق ہے‘ وہ چودھری جو قانون سے بالاترہو‘ جسے کوئی پوچھ نہ سکے۔ اسرائیل کے موجودہ رویے بھی اسی سوچ کی غمازی کرتے ہیں۔ ٹرمپ منصوبے کی کامیابی کی شکل میں اسرائیل خطے کی بے لگام طاقت کے طور پر ابھرے گا۔ اس نے ابھی سے اعلان کر دیا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست اسے کسی صورت قبول نہیں۔
اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں آٹھ اہم مسلم ممالک نے ٹرمپ منصوبے کو کیوں قبول کیا؟ پاکستان اور الجزائر نے سلامتی کونسل میں امریکی قرارداد کے حق میں کیوں ووٹ دیا؟ بڑی وجہ یہ ہے کہ آغاز میں عربوں نے اسرائیل کے بارے میں بڑا جذباتی اور سخت رویہ اپنایا اور ہر مرتبہ اپنا ہی نقصان کرایا۔ 1948ء میں نکبہ کے دوران پچاس کے قریب گائوں تباہ کردیے گئے اور لاکھوں فلسطینیوں کو لبنان‘ شام اور اردن کے مہاجر کیمپوں میں پناہ لینا پڑی۔ ان کی آل اولاد آج بھی ان کیمپوں میں رہ رہی ہے۔
پاکستان کی جانب سے قرارداد کی حمایت کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری پالیسی رہی ہے کہ جس مسئلے پر عربوں کا اجماع یعنی اتفاقِ رائے ہو اس کی حمایت کی جائے۔ مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں ہماری دوسری پالیسی یہ رہی ہے کہ جہاں عربوں کا آپس میں اختلاف ہو‘ اس مسئلے اور اس جگہ سے دور رہا جائے۔ اسی پالیسی کی وجہ سے ہم نے 2015ء میں یمن میں فوج نہیں بھیجی تھی اور وہ درست فیصلہ تھا۔ اب ہمیں غزہ میں فوجی دستہ بھی قطعاً نہیں بھیجنا چاہیے۔ غزہ کے 53 فیصد علاقے پر اب بھی اسرائیل کا فوجی قبضہ ہے۔ عالمی استحکام فورس کو مختلف امور کیلئے روزانہ اسرائیلی فورس سے رابطہ کرنا ہوگا جبکہ ہم اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ عالمی فورس کا بڑا کام حماس کو غیر مسلح کرنا ہوگا اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ کیا پاکستانی فوجی غزہ کی درجنوں سرنگوں میں جا کر حماس کے سپاہیوں سے اسلحہ چھیننے کا فریضہ سرانجام دیں گے؟اس میں حماس کا بھی جانی نقصان ہو سکتا ہے۔ مجھے تو فلسطینی بھائیوں سے ممکنہ لڑائی کا سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے اربابِ اقتدار تمام پہلوئوں پر غور کرکے ہی فیصلہ کریں گے۔ جلدی میں کیا گیا فیصلہ عرب عوام میں پاکستان کیلئے خیر سگالی کے جذبات کو ختم کر سکتا ہے۔
اب ذرا تصور کریں کہ پاکستانی دستہ غزہ میں موجود ہے اور اسرائیلی فضائیہ حماس پر ہوائی حملہ کر دیتی ہے۔ رقبہ چونکہ بہت ہی محدود ہے لہٰذا پاکستان کا بھی جانی نقصان ہو سکتا ہے۔ اب ہماری زمینی فوج اسرائیلی فضائیہ پر حملہ کرنے سے تو رہی۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ وطنِ عزیز کو مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں سے خطرہ ہے۔ ہم اس پوزیشن میں نہیں کہ فوجی دستے غزہ بھیج سکیں۔ ویسے بھی فلسطین میں حماس اور پی ایل او کے مابین گزشتہ 20 سال سے شدید اختلافات ہیں ہم اس لڑائی میں کیوں پڑیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ منصوبے کی مجوزہ امن فورس کو عرب عوام اسرائیل اور امریکہ کی بی ٹیم ہی سمجھیں گے۔ یہ امن فورس پورے عرب ممالک میں غیر مقبول ہو گی‘ لہٰذا ہمیں کوئلوں کی دلالی میں نہیں پڑنا چاہیے۔ ٹرمپ منصوبے میں فلسطینی ریاست کا ذکر ضرور ہے لیکن کہا گیا ہے کہ یہ فلسطینیوں کی خواہش ہے‘ اس جانب پیش قدمی کرنے کا کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ اس سے فلسطینی مقدمہ اور کمزور ہو جائے گا۔ پاکستانی مندوب نے سکیورٹی کونسل میں اپنی تقریر میں اس ضمن میں صراحت سے بات کی لیکن ان کی بات ہوا میں تحلیل ہو کر رہ گئی۔ میری نظر میں تو فلسطینی ریاست کا حصول اب اور مشکل ہو گیا ہے۔
واشنگٹن میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی خوب آئو بھگت ہوئی ہے۔ عرصہ دراز سے اٹکا ہوا ایف 35 طیاروں کا معاملہ بھی آگے بڑھا ہے۔ یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ سعودی عرب سے ابراہیمی معاہدے میں شریک ہونے یعنی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔ اس حوالے سے سعودی عرب کا ردِعمل جو میڈیا میں رپورٹ ہوا ہے ‘وہ یہی ہے کہ ہمیں اس بارے میں کوئی جلدی نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ فلسطین کی صورتحال کی وجہ سے سعودی عرب اس سلسلے میں خاصی حتیاط سے کام لے رہا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ دسمبر2020ء میں عرب امارات‘ بحرین اور مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ اسرائیل نے بدلے میں کچھ دیے بغیر بہت بڑا انعام حاصل کر لیا۔ اکتوبر 2023ء میں حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ فلسطینی اس بات کو شدت سے محسوس کر رہے تھے کہ عرب ممالک ان کے مسئلے کو فراموش کر چکے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پچھلے دو سال میں دنیا بھر میں فلسطین کا مسئلہ پھر سے اجاگر ہوا ہے۔ چند ماہ پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی یو این ممبر شپ کی قرارداد پیش ہوئی تو فلسطین کو 142 ووٹ ملے لیکن اصل فیصلہ تو سکیورٹی کونسل نے کرنا ہے جہاں امریکہ نے اس معاملے کو متعدد بار ویٹو کیا ہے۔ میرے خیال میں سعودی عرب‘ پاکستان اور انڈونیشیا کو مشترکہ حکمت عملی اپنا کر امریکہ سے فلسطینی حقوق کی بات کرنی چاہیے۔ورنہ مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو گا۔