"JDC" (space) message & send to 7575

ایران‘ اسرائیل جنگ کے نتائج

ایران‘ اسرائیل کے مابین جنگ بندی ہوئی تو دنیا نے سکھ کا سانس لیا ورنہ ہر طرف تنائو کی کیفیت تھی۔ تیل کی قیمتیں بڑھنے لگی تھیں‘ سمندری جہازوں کے کرائے اور انشورنس روز بروز بڑھ رہے تھے۔ سپلائی چین بے یقینی کا شکار تھی۔ دنیا بھر میں سٹاک مارکیٹیں مندی کے رجحان میں مبتلا تھیں۔ پاکستان تو اور بھی مشکل میں تھا۔ ہمسائے کے گھر آ گ لگی ہو تو حرارت ساتھ والے گھر بھی محسوس کرتے ہیں۔ اگر آبنائے ہُرمز بند کرنے کی سنجیدہ کوشش ایران کرتا تو جنگ ہمارے پچھواڑے میں آ جاتی کیونکہ گوادر وہاں سے زیادہ دور نہیں۔ اگر ایرانی میزائل خلیجی ممالک کا رخ کرتے تو وہاں کی اقتصادیات پر لامحالہ منفی اثرات مرتب ہوتے اور ہمارے ورکر وہاں سے واپس آنا شروع ہو جاتے‘ اسی لیے جنگ بندی کا اعلان ہوا تو پاکستان میں ہم سب نے سکون محسوس کیا۔اب آتے ہیں جنگ کے نتائج کی طرف! کہا جاتا ہے کہ جنگ میں سب سے پہلی ہلاکت سچ کی ہوتی ہے۔ انڈیا پاکستان کی چار روزہ جنگ کو ختم ہوئے چھ ہفتے گزر چکے‘ فتح کا جشن دونوں جانب جاری ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال مڈل ایسٹ میں بھی ہے۔ ایران اور اسرائیل دونوں فتح کے دعوے کر رہے ہیں۔ ایسے میں غیر جانبدار مبصر کا کام خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔
سٹرٹیجک لحاظ سے دیکھیں تو فتح ایران کی ہوئی ہے۔ اس جنگ میں اسرائیل اور امریکہ کے دو اہداف نمایاں تھے۔ ایرانی ایٹمی پروگرام کا مکمل خاتمہ اور تہران میں نئی حکومت کا قیام‘ جو مغربی دنیا کے لیے زیادہ قابلِ قبول ہو۔ اس ضمن میں رضا شاہ پہلوی کا بیٹا ذہنی طور پر پوری طرح سے تیار تھا لیکن‘ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘ خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ امریکہ اور اسرائیل دونوں مذکورہ بالا اہداف حاصل نہیں کر پائے۔ ایرانی ایٹمی پروگرام کو نقصان ضرور ہوا لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہوا اور ایرانی حکومت اپنی جگہ موجود ہے۔لیکن جانی اور مالی نقصان ایران کا اچھا خاصا ہوا ہے۔ جنگ کا آغاز بڑا ڈرامائی تھا۔ پہلے روز اسرائیل نے ایران کے متعدد فوجی کمانڈر اور سائنسدان شہید کر دیے۔ یوں لگ رہا تھا کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ایجنٹ ایران کے اطراف میں پھر رہے ہیں اور ہر اہم منصب رکھنے والے کی خبر لمحہ بہ لمحہ تل ابیب کو دے رہے ہیں۔ ان مخبروں میں کئی ایرانی تھے اور چند بھارتی بھی‘ ان میں سے متعدد کو پھانسی کی سزا مل چکی ہے اور باقی فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔
پہلے روز تو اسرائیل کو یقینا ڈرامائی کامیابیاں ملیں لیکن ایک دو روز میں ایران پھر اپنے پائوں پر کھڑا تھا۔ اسرائیل کو بڑا گمان تھا کہ اس کے آسمان کے نیچے جولوہے کا گنبد(آئرن ڈوم) ہے وہ ناقابلِ تسخیر ہے‘ لیکن ایرانی میزائل اس گنبد میں سوراخ کرکے اپنے اہداف تک پہنچ گئے۔ اسرائیل سے چیخ وپکار کی آوازیں آنے لگیں۔ تل ابیب‘ یروشلم اور حیفہ میں لوگوں کی راتیں پناہ گاہوں میں گزرنے لگیں۔ اسرائیل کا ناقابلِ تسخیر والا زعم ٹوٹنے لگا۔ یہاں اس بات کی بھی تشریح کر دی جائے کہ اسرائیل کے آئرن ڈوم کا نام صرف علامتی ہے۔ دراصل یہ سائبر دفاعی سسٹم ہے‘ جو آنے والے میزائل یا ڈرون کی اطلاع فوراً ایئر ڈیفنس سسٹم کو دیتا ہے اور میزائل اپنے ہدف تک پہنچ نہیں پاتا۔ لیکن متعدد ایرانی میزائل اپنے نشانے تک پہنچے اور اسرائیل میں سراسیمگی کی لہر دوڑ گئی۔
اب آتے ہیں دوسرے ہدف‘ یعنی حکومتی تبدیلی کی طرف! اچھا ہوا کہ اسرائیل تہران میں حکومت تبدیل نہ کر سکا‘ ورنہ اس کے اثرات خطے کے لیے اچھے نہ ہوتے۔ خاص طور پر پاکستان پر تو بہت ہی منفی اثرات مرتب ہوتے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ جب باہر سے زبردستی حکومت بدلنے کی کوشش ہوتی ہے تو افراتفری پھیلتی ہے۔ نئی حکومت کو اپنے قدم جمانے میں وقت لگتا ہے۔ گورننس کمزور ہو جاتی ہے۔ علاقائی وار لارڈز سر اٹھانے لگتے ہیں۔ شورشیں زور پکڑنے لگتی ہیں۔ ایسی صورت میں دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں مل جاتی ہیں ۔ ایران کا صوبہ سیستان بلوچستان تو ایک عرصے سے دہشت گردوں کی آماجگاہ رہا ہے اور ہماری جانب بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔ اگر امریکہ اور اسرائیل تہران کی حکومت بدلنے میں کامیاب ہو جاتے تو موساد اور راء کے ایجنٹ ہماری سرحدوں کے قریب بیٹھ کر اپنا بھیانک کھیل ہمارے بلوچستان میں کھیلنے میں مصروف ہو جاتے۔
ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں دونوں جانب سے متضاد دعوے کیے جا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے درجنوں بھاری بم نطنز‘ اصفہان اور فردو کی ایٹمی تنصیبات پر برسائے۔ ان میں سے ہر بم کا وزن 35ہزار پائونڈ یعنی تقریباً 17ٹن تھا۔ امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ ہم نے ایرانی نیوکلیئر تنصیبات کو Obliterate یعنی مکمل تباہ کر دیا ہے۔ البتہ زمینی حقائق اس سے ذرا مختلف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایٹمی مواد تباہ کر دیا گیا تھا تو ریڈیائی اثرات ایران کی فضا میں کیوں نہ پھیلے؟ غالب گمان یہ ہے کہ ایران نے افزودہ یورینیم کو حملوں سے پہلے ہی محفوظ مقامات کی طرف منتقل کر دیا تھا۔ ایک باخبر ایرانی مبصر نے کہا ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام فی الحال منجمد ہو گیا ہے۔ یہ بات زیادہ قرینِ قیاس ہے کیونکہ اتنی بھاری بمباری سے تینوں مقامات پر انفراسٹرکچر کو نقصان ضرور ہوا ہو گا۔ میں نے 1999ء میں بلغراد پر ہونیوالی امریکہ اور نیٹو کی بمباری کے اثرات خود دیکھے ہیں۔ انکی مرمت میں کئی سال لگے تھے۔ کتنا عرصہ یہ تباہی سربوں کیلئے مقام عبرت بنی رہی‘ حالانکہ سرب بھی ایرانیوں کی طرح غیور اور بہادر لوگ ہیں۔
ایران اور اسرائیل‘ دونوں پر اس جنگ کے اثرات لمبا عرصہ رہیں گے۔ اگر تنائو جاری رہا تو کئی اسرائیلی شہری مغربی ممالک کی طرف کوچ کر جائیں گے کہ دہری شہریت رکھتے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کم ہو جائے گی۔نیتن یاہو نے یہ جنگ اپنے اقتدارکیلئے لڑی لیکن قوم کا خاصا نقصان ہو گیا۔ مالیاتی پابندیوں کا ستایا ہوا ایران اب مزید مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے البتہ اگر ایرانی قیادت مغربی سازوں اور دھنوں پر رقص کرنے لگے تو خوشحالی جلد آ سکتی ہے‘ لیکن ایسا ممکن نہیں۔ ایرانی غیور قوم ہیں‘ وہ اپنے خلاف کی گئی جارحیت کو آسانی سے نہیں بھولیں گے اور مغرب کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سفارتی اور سیاسی طور پر یہ عرصۂ جنگ انڈیا کیلئے متعدد چیلنجز لے کر آیا ہے۔ انڈیا کے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں جو انقلابِ ایران کیساتھ مزید مضبوط ہوئے۔ لیکن مودی سرکار کے آنے کے بعد انڈیا اور اسرائیل ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ حال ہی میں پاکستان کے خلاف انڈیا نے اسرائیلی اسلحہ استعمال کیا اور اطلاعات ہیں کہ ایران کے خلاف استعمال کیے گئے اسلحہ میں انڈین اسلحہ بھی شامل تھا۔ پاکستان پورے قد کے ساتھ ایران کے ساتھ کھڑا رہا‘ البتہ انڈیا نے نیوٹرل یعنی غیر جانبدار پالیسی اختیار کیے رکھی۔ انڈیا شنگھائی تعاون تنظیم کا ممبر ہے‘ جب ایس سی او نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف بیان دیا تو انڈیا نے اس پر تحفظات کا اعلان کیا۔ عزتِ نفس رکھنے والی ایرانی قوم اس جنگ میں انڈیا کی اسرائیل سے دوستی کو دیر تک نہیں بھلا پائے گی۔
ایران اسرائیل جنگ کے دوران مجھے چند عربی چینلز نے تبصرے کیلئے دعوت دی۔ اسرائیلی اور انڈین میڈیا نے یہ افواہ عام کر دی تھی کہ اگر یہ جنگ جاری رہی تو پاکستان ایران کی عسکری مدد کرے گا۔ میں نے انٹرنیٹ پر ریسرچ کی تو پتا چلا کہ مسٹر اروڑا نامی انڈین کالم نگار نے یہ ''زریں افکار‘‘ یروشلم پوسٹ میں بیان کیے ہیں۔ میں نے انٹرویو کے دوران محسوس کیا کہ خلیجی ممالک نہیں چاہتے کہ ایران زیادہ طاقتور ہو اور انڈیا کیلئے بھی ان کے دل میں نرم گوشہ ہے۔چوں کفر از کعبہ بر خیزد کجا مانند مسلمانی۔
سوشل میڈیا پر مسلسل کہا جا رہا ہے کہ اب اگلی باری پاکستان کی ہے۔ ایسے اندازے بالکل غلط ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاںمرحوم کیلئے ہر وقت دعا کیا کریں کہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور کئی گمنام رفقائے کار کے ساتھ مل کر پاکستانی دفاع بہت مضبوط کر گئے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں