"JDC" (space) message & send to 7575

کشکول بردار مغل شہزادے

حال ہی میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اچھی خبر سنائی کہ تنخواہ دار طبقے کو آئندہ بجٹ میں ٹیکس ریلیف دیا جائے گا۔ ساتھ ہی میڈیا میں یہ خبر بھی آئی کہ سرکاری ملازموں کی تنخواہیں بڑھنے کا امکان ہے لیکن یہ قدم آئی ایم ایف کی منظوری کے بعد اٹھایا جائے گا۔ چند ماہ پہلے اراکین اسمبلی کی تنخواہ میں یکلخت دو سو فیصد اضافہ کیا گیا۔ موجودہ اور تمام سابق چیئرمین سینیٹ ناقابلِ یقین مراعات کے تاحیات حقدار ٹھہرے ہیں۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق پچھلے نو ماہ میں سینیٹ ملازمین کو 28کروڑ 49لاکھ روپے اعزازیہ کے طور پر دیے گئے۔ ہمارا ملک عجیب تضادستان بنتا جا رہا ہے۔ 40فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں جبکہ ایک مخصوص طبقے کے وارے نیارے ہیں۔ ہمارا ملک اسلامی فلاحی ریاست کا ہدف لے کر وجود میں آیا تھا مگر اس راستے پر چلنے سے ہماری قیادت اور اشرافیہ انکاری ہے۔ ہم اپنے اقتصادی اور مالی فیصلے کرنے پر قادر نہیں۔ کیا ہمارا ملک غریب ہے؟ میرا جواب یقینا نفی میں ہو گا۔ ہماری سٹیل مل پندرہ سال سے بند ہے لیکن ہم ملازمین کی تنخواہ دے رہے ہیں۔ پی آئی اے اور پاکستان ریلویز برسوں خسارے میں چلتے رہے اور حکومت ان کا خسارہ پورا کرتی رہی۔ پچھلے سال ستمبر میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے وطن عزیز میں جمہوریت اور عوامی نمائندوں پر اٹھنے والے اخراجات پر ایک سٹڈی کی جس کے مطابق صرف وفاقی سطح پر سالانہ اخراجات 27 ارب روپے سے کچھ زائد تھے۔ صوبائی اسمبلیوں کے اخراجات بھی شامل کر لیں تو بات کہاں تک جائے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ من جملہ دوسری وجوہات کے‘ ہمارا کشکول اس جمہوریت کی وجہ سے بھی بڑا ہوتا جا رہا ہے۔
پچھلے سال کی بات ہے کہ میں اسلام آباد کلب کے پولو گراؤنڈ کے گرد واک کر رہا تھا۔ درجنوں سائیس اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کے ساتھ ایک جانب کھڑے تھے۔ میں نے پوچھا کہ گھوڑے کس پولو کلب کے ہیں؟ جواب ملا کہ گھوڑے قصرِ صدارت سے آئے ہیں‘ انہیں ورزش کیلئے پولو گراؤنڈ لایا جاتا ہے۔ میں نے استفسار کیا کہ پریذیڈنسی میں کتنے گھوڑے ہیں؟ جواب ملا کہ ایک سو کے قریب ہیں۔ مجھے ایک عشرہ پہلے قصرِ صدارت میں بننے والے پولو گراؤنڈ کے بارے میں نیب ریفرنس یاد آ گیا جو اَب کئی دوسرے سکینڈلز کی طرح طاقِ نسیاں کی زینت بن چکا ہے۔
اپنے تجسس کی خاطر میں نے اپنے فارن آفس کے چند سابقہ ساتھیوں سے پوچھا کہ آپ پروٹوکول میں کام کر چکے ہیں‘ یہ ایک سو گھوڑے کس کس کام آتے ہیں؟ پتا چلا کہ یہ 23مارچ کی پریڈ میں صدرِ مملکت کو بگھی میں بٹھا کر پریڈ گراؤنڈ لاتے ہیں اور غیرملکی سفرا جب صدرِ مملکت کو اسنادِ سفارت پیش کرتے ہیں تو انہیں بگھی میں بٹھا کر لایا جاتا ہے۔ جواب صحیح تو تھا لیکن ہمیں علم ہے کہ بگھی میں چار گھوڑے استعمال ہوتے ہیں اور ویسے بھی اسناد پیش کرتے وقت گھوڑوں کی بگھی کا استعمال صرف انہی دو چار ملکوں میں رہ گیا ہے جہاں بادشاہت ہنوز قائم ہے۔ لیکن ہم کیا کسی بادشاہت سے کم ہیں۔ شومیٔ قسمت سے کشکول ہماری شناخت بنتا جا رہا ہے لیکن طبعاً ہم مغل شہزادوں سے کسی صورت کم نہیں۔یوں تو کشکول ہم نے زمانے سے پکڑا ہوا ہے لیکن بھکاریوں والی ہماری شناخت پچھلے آٹھ دس برسوں میں زیادہ ہوئی ہے۔ کوئی دو عشرے قبل ہمارا ایک وفد مشرقِ بعید کے ایک امیر ملک کے پاس مالی امداد کی درخواست لے کر گیا۔ اس ملک کی قیادت نے درخواست منظور کرنے سے پہلے ایک سوال پوچھا کہ پاکستان مالی امداد لیتا بھی ہے اور مالی امداد دیتا بھی ہے‘ یہ کیا ماجرا ہے؟ جب ہمارے وفد نے وضاحت چاہی تو ہمیں بتایا گیا کہ آپ فلاں فلاں ترقی یافتہ ملک سے امداد لیتے رہے ہیں اور افغانستان کو مالی امداد دیتے رہے ہیں۔
پچھلے چند سال سے آئی یم ایف اور ورلڈ بینک کے وفود پھر سے اسلام آباد آنا شروع ہوئے ہیں ورنہ سکیورٹی خدشات کی بنا پر اکثر ملاقاتیں دبئی میں ہوتی تھیں۔ ایک مرتبہ آئی ایم ایف وفد کے ایک ممبر نے ذاتی گفتگو میں اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ پاکستانی وفد ہم سے زیادہ مہنگے ہوٹل میں قیام پذیر ہے۔ گردشِ دوراں نے ہمیں غریب ضرور کر دیا ہے لیکن ہماری عادات اور رویے مغل شہزادوں والے ہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس نوزائیدہ اسلامی ملک کی قیادت حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت علی المرتضیؓ کی سادگی مسلسل اپنائے رکھتی‘ لیکن سادگی اور دیانتداری ہمیں اپنے گنتی کے چند لیڈروں کے علاوہ کسی اور میں نظر نہیں آتی۔ لیاقت علی خان‘ چودھری محمد علی اور محمد خان جونیجو ہمارے وہ چند لیڈر تھے جن کی ایمانداری مسلم تھی۔ لیکن دوسروں کے بارے میں یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ یاد رہے کہ بددیانتی صرف مالی کرپشن کا نام نہیں‘ جنرل ضیا الحق کا نوے دن میں الیکشن کرانے کا وعدہ اور پھر وعدہ خلافی بھی بددیانتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی 1977ء کے الیکشن میں دھاندلی بھی بددیانتی کے زمرے میں آئے گی۔
مجھے دوچار بار قصرِ صدارت اور وزیراعظم ہاؤس کی راہداریوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ کیا ٹھاٹ باٹ ہیں ہمارے حکمرانوں کے‘ لگتا ہی نہیں کہ وہ کسی غریب ملک کے لیڈر ہیں۔ مجھے ایتھنز میں پاکستان ہاؤس کے پاس ہی رہنے والے یونان کے صدر Stephanopoulos یاد آ گئے جو ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ میں رہتے تھے۔ سویڈن کے سابق وزیراعظم اولوف پالمے یاد آ گئے جو سائیکل چلاتے چلاتے قتل ہوئے تھے اور پھر میرا دھیان سرے محل‘ جاتی امرا‘ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ اور بنی گالا کی طرف چلا جاتا ہے۔ ہمارے لیڈر نام غریبوں کا لیتے ہیں‘ تسبیح جمہوریت کی پڑھتے ہیں لیکن شان و شوکت مغل حکمرانوں والی اپناتے ہیں۔
اگلے بجٹ میں حکومت چھ لاکھ سالانہ یعنی پچاس ہزار ماہانہ آمدنی والے کو انکم ٹیکس میں چھوٹ دینا چاہتی ہے لیکن یہ قدم اٹھانے کیلئے بھی آئی ایم ایف کی منظوری ضروری ہے۔ دیکھا آپ نے کہ ہم اس منحوس کشکول کی وجہ سے کہیں کے نہیں رہے۔ لیکن اس کشکول کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ آئی ایم ایف کے پاس بار بار جانے کا ریکارڈ ہم نے خود قائم کیا ہے مگر ہمارا مزاج شاہانہ ہے۔ ہمارے وفاقی وزیروں کی تعداد اکتیس ہے۔ وزیر مملکت‘ مشیر اور معاونِ خصوصی اس کے علاوہ ہیں۔ انڈیا کے مرکزی وزیر تیس ہیں۔ دیکھیے ایک بار پھر ہم نے انڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا۔ آپ ہی بتائیں کہ پنڈت نہرو یا لال بہادر شاستری یا اٹل بہاری واجپائی یا نریندر مودی نے بھارت کے باہر کوئی جائیداد بنائی؟ خیر اپنے لیڈروں کے بارے میں اور ان کے اندرون اور بیرونِ ملک اثاثوں کے بارے میں آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں تو پھر چہ عجب کہ انڈیا اپنا کشکول کب کا توڑ چکا۔
مجھے نجانے کیوں بہادر شاہ ظفر اور مرزا غالب یاد آ رہے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر ایسٹ انڈیا کمپنی سے وظیفہ وصول کرتے تھے مگر دربار کی شان و شوکت قائم تھی۔ مرزا غالب قرض لے کر اعلیٰ قسم کی امپورٹڈ شراب پیتے تھے اور پھر ہفتوں گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے کہ کسی قرض خواہ کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن ہمارے لیڈروں کی شان دیکھیے کہ ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے لیکن ہمارے لیڈر ٹھاٹ باٹ سے پوری دنیا گھومتے ہیں۔ فارن سیکرٹری آمنہ بلوچ کا کہنا ہے کہ بیرونِ ملک پاکستانی سفارتخانوں کو مالی مشکلات کا سامنا ہے اور میں یہ بات ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ یہ پرانا ایشو ہے لیکن کیا ہم نے اس کا کوئی دائمی حل ڈھونڈنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے؟ کیا ہمیں چند سفارتخانے بند نہیں کر دینے چاہئیں؟ کیا ہماری کابینہ کی تعداد آدھی یعنی موجودہ امریکی کابینہ کے برابر نہیں ہو سکتی؟ کیا ہمیں اپنی بیورو کریسی کا سائز کم نہیں کرنا چاہیے؟ اسلامی مملکت میں تو لیڈروں کو حضرت عمر فاروقؓ کی سادگی اپنانی چاہیے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ کی طرح نانِ جویں پر گزارا کرنا چاہیے مگر صد افسوس کہ ہمارے لیڈروں کا ماٹو ہے کہ:
بابر بہ عیش کوش کہ 'حکومت‘ دوبارہ نیست

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں