"SBA" (space) message & send to 7575

عمران خان کو ایک جرم میں دوسری سزا

اب بھی اگر آپ بس کردیں گے تو گریس دکھائیں گے۔ بڑا دل رکھنا کسی پہ احسان نہیں ہوتا کیونکہ ہر ریاست اور اُس کے ذمہ داران ہونے کے دعویداروں کی یہ تاریخی روایت چلی آئی ہے‘ بلکہ ذمہ داری بھی۔ اگر آپ مزید من گھڑت‘ جھوٹے اور بے بنیاد مقدمے بنائیں گے تو اس سے اپنے کھوکھلے پن‘ ذاتی انا اور شخصی غضب ناکی کا مظاہرہ کریں گے۔ حاصل کچھ بھی نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ قیدی ڈیلر ویلر نہیں ہے وہ عوام کا لیڈر ہے۔ اسی لیے وہ باہر تھا تو اتنے لوگ اس کے ساتھ نہیں چلتے تھے‘ جو اُس کے جیل جانے کے بعد سے اُس کے ساتھ مسلسل چل رہے ہیں۔ اُس کا قافلہ بڑھ رہا ہے۔
عمران خان نے توشہ خانے کے تحائف کے ایک ہی الزام میں بری ہونے کے بعد دوسری بار سزا سنائے جانے کے موقع پر جج کے منہ پر بڑا بہادرانہ تبصرہ کیا۔ عمران خان نے کہا: میں واپس آئوں گا۔ باطل پر حق کی فتح یقینی ہے۔ جدوجہد عبادت ہے‘ میں شہادت کے لیے بھی تیار ہوں۔ فوج میری ہے اور پاکستانی قوم کی ہے۔ شخصی تنقید ماضی میں ڈکٹیٹرز پر بھی ہوتی آئی ہے۔ مجھے اور میری اہلیہ کو قیدِ تنہائی میں رکھ کر ذہنی اذیت دی جا رہی ہے۔ ہمارے لیے ٹی وی‘ کتابیں اور ملاقات سب پہ پابندی ہے۔ اللہ رب العزت کا وعدہ ہے جو صبر کا دامن نہیں چھوڑتے اور نماز قائم رکھتے ہیں‘ اُنہیں کوئی خوف نہیں ڈرا سکتا اور نہ ہی وہ حزن وملال کا شکار ہوتے ہیں۔
عمران خان کے خلاف پہلے ہی پنجاب میں 186 ایف آئی آرز‘ KP میں دو ایف آئی آرز‘ اور فیڈرل کیپٹل اسلام آباد میں 78 ایف آئی آرز ایسی کاٹی گئی ہیں جو قانون‘ انصاف‘ تفتیش اور دستور کی بالادستی کا ٹھٹھا اُڑانے کے مترادف ہیں۔ سٹیریو ٹائپ ان فوجداری مقدموں میں ایک ہی الزام ہے۔ عمران خان کے اُکسانے پر لوگوں نے جلوس نکالا‘ نعرے لگائے اور پولیس پر ڈنڈے اور پتھر برسائے۔ قانون کا اس سے بھی اگلامذاق یہ اُڑایا گیا کہ یہ سب کچھ جیل میں بیٹھے ہوئے ایک اکیلے شخص نے کیسے مینج کر لیا اور ریاست اُسے دیکھتی رہ گئی۔
سابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کے خلاف اسی طرح کے 77 مقدمے درج کیے گئے جبکہ سینیٹر شبلی فراز‘ سابق سینیٹ اپوزیشن لیڈر کو 33 فوجداری مقدموں میں ملوث کیا جا چکا ہے۔ حکومتی اداروں کے سارے جبروت اور سیاست کی ساری وحشت کے باوجود بھی نہ پی ٹی آئی توڑی جا سکی نہ ہی پاکستان تحریک انصاف کو ختم کیا جا سکا۔ عمران خان کو ڈیل یا ڈھیل مانگنے پر مجبور کیا جا سکے‘ یہ ناممکن ہے۔ مگر اس ساری ایکسر سائز پر قوم کے خزانے اور خرچے سے کروڑوں روپے ضائع کیے جا چکے ہیں۔ اس سے پہلے نواز شریف کے دور میں ان کے سینیٹر کے نیچے احتساب کا جو ادارہ بنایا گیا تھا اُس نے کئی ارب روپے لگا کر بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف کرپشن‘ ڈرگ اور قتل تک کی ایف آئی آرز درج کرا دیں۔ جب ان کی اپنی باری آئی تو شریفانہ طور پر معافی مانگی‘ برطانیہ بذریعہ جدہ پہنچے اور اُسی بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے ساتھ بیٹھ کر چارٹر آف ڈیمو کریسی سائن کر ڈالا۔ بدلہ لینے کے جنون میں مبتلا اور غیظ وغضب کے مارے ہوئے یہ لوگ اب بھی 1980ء اور 1990ء کے عشرے میں جی رہے ہیں۔ غوث خواہ مخوہ حیدر آبادی نے کیا خوب کہا تھا:
ہمیشہ کی طرح تنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
بدن پر اک پھٹی لنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
ضرورت امن کی دنیا میں پہلے سے زیادہ ہے
مگر قیمت بہت مہنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
اہنسا کے پسِ پردہ بہت زوروں پہ تیاری
امن کے نام پر جنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
زمانے کا چلن کیا پوچھتے ہو خواہ مخواہؔ مجھ سے
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
قیدی نمبر 804 کے خلاف دو طرح کے مقدمات بنائے گئے۔ ایک وہ جنہیں میگا کرپشن ‘ شدید بدانتظامی اور مالی گڑبڑ گھوٹالے کا نام دیا گیا۔ Get Imran Khan مہم کی پہلی قسط کے میڈیا ٹرائل کے لیے قومی خزانے سے اربوں روپے لٹائے گئے‘ جس کے نتیجے میں ساڑھے تین سال تک دروغ گوئی کا پہاڑ کھود کھود کر دو مرے ہوئے چوہے برآمد ہو سکے۔ پہلے کا نام توشہ خانہ رکھا گیا۔ حالانکہ اس سے سات‘ آٹھ سال پہلے توشہ خانہ کے نام پر دو سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کو گاڑیاں نکلوانے اور آصف زرداری اور مریم نواز پر BMW اور لیبیا کے مرحوم صدر کی طرف سے دی گئی بلٹ پروفSUV نکلوانے کے الزامات لگے‘ جس کے جواب میں ان چاروں ہستیوں نے عالمِ مستی میں دو مؤقف بدلے۔ ایک مؤقف یہ تھا: مجھے پتا نہیں تھا جو BMW میرے گھرمیں رہی وہ کہاں سے آئی تھی۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم میں نے اُسے ٹیکس کے کاغذات میں اپنی گاڑی کے طور پر کیوں ڈکلیئر کر رکھا تھا۔
دوسرا دفاعی مؤقف یوں تھا۔ مجھے اس حوالے سے قانون کا زیادہ علم نہیں۔ 2008ء میں اس وقت کے وزیراعظم نے توشہ خانہ رولز کو تبدیل کیا۔ ہ گاڑیاں جو پچھلے دور میں ہمیں ملی تھیں اور کئی سالوں سے توشہ خانہ میں موجود تھیں‘ اُنہوں نے بطور وزیراعظم اگر دو گاڑیاں نکال کر سستے داموں ہمیں دے دیں تو اس میں حرج کیا ہے؟ پیسے تو ہم نے دیے تھے نا! اس کے مقابلے میں عمران خان پر گھڑی کا کیس گھڑیال کی طرح بنا کراُسے سیاست کے گھنٹہ گھر میں بجایا گیا۔ فیصلے کے بعد جب اس کیس کی سکروٹنی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت آئی تو یہ کیس ہوا میں اُڑ گیا۔
قیدی نمبر 804 اور بشریٰ عمران کے خلاف دوسری طرز کے مقدمے میں پستی کی انتہا یہ تھی کہ ایک گھریلو عورت کے ایام مخصوصہ کو بنیاد بنا کر میڈیا ٹرائل چلایا گیا اور فوجداری مقدمہ بھی۔ اس ایکسرسائز کامطلب بڑا سادہ ہے۔ پائوں سے سر تک زور لگانے کے باوجود عمران خان کے خلاف کوئی قابلِ گرفت الزام ڈھونڈا نہیں جا سکا۔ اب سرکاری ڈھولچی کہتے ہیں‘ ابھی اور مقدمے آنے ہیں۔ سیدھی بات کرو۔ ہر روز نیا کیس بہانہ ہے‘ عوام اور عمران خان نشانہ ہیں۔
سدا بادشاہی اللہ تعالیٰ کی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں