رواں سال فوت ہونے والا پہلا مشہور شخص وہ تھا جس نے 2454 دن کی قیدِ تنہائی بھگتی۔ دنوں کو مہینوں اور سالوں میں تبدیل کیا جائے تو جواب نکلتا ہے ساڑھے چھ برس۔ جرم؟ مغربی ممالک کا جاسوس ہونے کا شبہ۔ اس قیدی کا نام تھا Terry Anderson۔ 16مارچ 1985ء کو وہ امریکہ کی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے فوٹو گرافر کے ساتھ بیروت میں ٹینس میچ کھیل کر گھر واپس آیا تو تین مسلح افراد اس کے انتظار میں تھے۔ انہوں نے اسے زبردستی ایک کار میں بٹھایا اور تیز رفتاری سے ٹیری کو لے کر وہاں سے رفو چکر ہو گئے۔ اغوا کی یہ واردات 1980ء کی دہائی میں لبنان میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران ہوئی۔ ٹیری کو بیروت کے مختلف ٹھکانوں کے زیر زمین و تنگ و تاریک سیلز میں رکھا گیا۔ قید و تنہائی کے علاوہ اُسے دورانِ تفتیش تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ اس کی آنکھوں پر کالی پٹی باندھ کر شہر کے ایک حصے سے دوسرے میں منتقل کیا جاتا تھا۔ کئی بار اس کے ہاتھ اور پاؤں زنجیروں سے باندھے گئے۔ اسے بس اتنی خوراک دی جاتی کہ وہ زندہ رہ سکے۔ ساڑھے چھ برس تک ٹیری کو سورج کی روشنی اور دوسرے قیدیوں سے میل جول اسے محروم رکھا گیا۔ بندوق سر پر رکھ کر اسے ڈرایا جاتا کہ وہ کسی لمحہ بھی چلائی جا سکتی ہے مگر ٹیری کو یقین تھا کہ اغوا کرنے والے اسے ہلاک نہیں کریں گے کیونکہ ایک مردہ شخص کے مقابلے میں ایک زندہ یرغمالی کہیں زیادہ مفید ہوتا ہے۔ ٹیری کے لیے اپنی اتنی لمبی قید جب ناقابلِ برداشت ہو جاتی تھی تو وہ دیواروں سے اپنا سر ٹکراتا تھا۔ کسی نہ کسی بہانے وہ اپنے آپ کو یقین دلاتا رہتا کہ ایک نہ ایک دن وہ اس عذاب سے نجات حاصل کر لے گا۔ تین چیزوں نے اس کی آس کو زندہ رکھا‘ اس کا پختہ عقیدہ‘ اس کی تربیت اور اس کا عزم و استقلال۔ وہ گھنٹوں عبادت کرتا۔ وہ سمجھتا کہ وہ خدا سے باتیں کر رہا ہے مگر اس کا ماؤف ذہن اسے یہ بتاتا کہ وہ دراصل اپنے آپ سے باتیں کر رہا ہے۔ ٹیری کی ہمت قابلِ داد تھی کہ اس نے قید و تنہائی کے دوران اغوا کنندگان کے ساتھ مختصر ملاقاتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عربی اور فرانسیسی زبانیں سیکھ لیں۔
ٹیری کی طویل قید کے دوران لطیفہ یہ ہے کہ انگلستان میں کلیسا کے سربراہ (Archbishop of Canterbury) نے ایک نمائندہ بیروت بھیجا تاکہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کی شرائط طے کر سکے مگر وہ نمائندہ بھی یرغمالی بنا لیا گیا تاہم کچھ عرصہ بعد اسے قید سے رہائی مل گئی۔ رہائی کے بعد وہ بیروت سے ایسے نکلا کہ کسی بھی یرغمالی کی مدد نہ کر سکا۔ کئی بار ٹیری کو مجبور کیا جاتا کہ وہ مغربی ممالک کے خلاف تند و تیز بیان ریکارڈ کرائے‘ وہ ہمیشہ اس حکم کی تعمیل کرتا تھا تاکہ اس بہانے اس کے اہلِ خانہ کو یہ تو پتا چل جائے گا کہ وہ بدستور زندہ و سلامت ہے۔ جب رونلڈ ریگن امریکہ کے صدر تھے تو انہوں نے ایک خفیہ معاہدے کے تحت ایران میں اسلحہ پہنچانے کا وعدہ کیا تھا‘ جس کا مقصد ٹیری اور دوسرے یرغمالیوں کو رہائی دلانا تھا مگر یہ معاہدہ پردۂ راز میں نہ رہ سکا اور نتیجہ اس کی ناکامی کی صورت میں نکلا۔ جنوبی امریکہ کے ایک ملک نکاراگوامیں بائیں بازو کی حکومت کے خلاف لڑنے والوں کی گوریلا جنگ ختم ہوئی اور امریکہ کو وہاں لڑنے والے باغیوں کی فوجی مدد کرنے کی مزید ضرورت نہ رہی تو ٹیری کی قسمت کا ستارہ روشن ہوا۔ دسمبر 1991ء میں (ساڑھے چھ سال کی قید کے بعد) اسے رہائی ملی۔ رہائی پر اسے نئے کپڑے اور نئے جوتے دیے گئے اور اسے شام کے دارالحکومت دمشق پہنچایا گیا جہاں اس کی لبنانی مسیحی منگیتر اس کی سات سالہ بیٹی کے ساتھ اس کی منتظر تھی۔ وہاں سے اسے جرمنی میں موجود ایک امریکی فوجی اڈے پر لے جایا گیا‘ جہاں اس کی اپنی بہن سے ملاقات ہوئی۔ اس کی بہن نے کئی بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر اس کی رہائی کے لیے ان تھک جدوجہد کی تھی۔ 2002ء میں ایک امریکی عدالت نے اسے ایران کے منجمد اثاثوں میں سے دو کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر بطور ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا مگر ٹیری کی قسمت نے یاوری نہ کی اور مختلف کاروباری منصوبوں میں وہ یہ خطیر رقم گنوا بیٹھا۔ 1993ء میں اس نے اپنی خود نوشت لکھی جو کافی کامیاب رہی۔ دل کے آپریشن کی ناکامی کی بعد‘ 21 اپریل کو اپنی وفات سے ایک ہفتہ قبل اس نے اپنی بیٹی سے کہا: میں زندگی کے تمام دکھ سکھ دیکھ چکا ہوں‘ اب دل میں کوئی حسرت نہیں۔ اب میں ایک قانع شخص ہوں اور دنیا سے جانا چاہتا ہوں۔
رواں سال وفات پانے والا دوسرامشہور شخص Roland Dumas ہے۔ وہ فرانس کا چوٹی کا وکیل تھا‘ جو دو بار فرانس کا وزیر خارجہ رہا اور فرانس کے سابق صدر François Mitterrandکا قریبی ساتھی تھا‘ جسے لیبیا کے سربراہ کرنل معمر قذافی سے خفیہ مذاکرات کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ وہ انگریزی‘ جرمن‘ اطالوی اور ہسپانوی زبانوں پر عبور رکھتا تھا۔ 1995ء میں اسے فرانس کی اعلیٰ ترین عدالت (Constitutional Court) کا سربراہ بنایا گیا۔ 1998ء میں اس کا ستارہ بری طرح گردش میں آیا اور اس پر قومی خزانے کی رقوم کے غلط اور بے جا استعمال کا مقدمہ چلایا گیا۔ اس کی سابقہ گرل فرینڈ Christine نے اس کے خلاف گواہی دیتے ہوئے عدالت میں بیان دیا کہ اس نے فرانس کی تیل کی سب سے بڑی کمپنی ELF سے چھ کروڑ فرانک بطور رشوت وصول کیے تاکہ وہ ڈوماس کو تائیوان کو چھ بحری جنگی جہازوں کی فروخت کے لیے آمادہ کر سکے۔ 1998ء میں پولیس نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا اور اس کے تمام بینک اکاؤنٹس کی نقول اپنے ساتھ لے گئی۔ عدالت میں اس پر تند و تیز جرح کی گئی تاکہ اس کے بینک میں بڑی رقوم کی پُراسرار آمد و رفت کے بارے میں اس کی وضاحت کو عدالت کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ استغاثہ کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا گیا کہ تیل کی کمپنی ELF کے کریڈٹ کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے ڈوماس نے کرسٹین کے لیے گیارہ ہزار فرانک کے جوتے خریدے۔ عدالتی کارروائی کے درمیان ڈوماس اپنی رہی سہی عزت بھی کھو بیٹھا تاہم آخر تک وہ اپنی بے گناہی پر اصرار کرتا رہا۔ 1999ء میں اسے اعلیٰ ترین آئینی عدالت کی سربراہی سے مستعفی ہونا پڑا۔ عدالت نے اس کو دو برس کی سزا اور ڈیڑھ لاکھ فرانک کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ بدقسمتی نے محض اسی عدالتی کارروائی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اسے ایک امیر بیوہ کی وصیت کی تیاری میں دیانت کے اعلیٰ اصولوں سے رو گردانی کرنے اور و فات پانے والی خاتون کی وصیت کے مطابق اس کے اثاثے خرچ کرنے کے بجائے ان سے ذاتی مالی فائدہ اٹھانے کے جرم میں بھی بارہ ماہ کی قید سنائی گئی‘ البتہ اس کی سزائیں معطل کر دی گئیں۔دوسری عالمی جنگ کے دوران رونلڈ ڈوماس مزاحمتی تحریک کا رکن بن کر جرمن کی قابض فوج کے خلاف کئی سال بڑی بہادری سے لڑتا رہا۔ وہ ایک بار جرمن خفیہ پولیس کے ہتھے بھی چڑھ گیا تھا اور اسے گولی بھی ماری گئی مگر وہ خوش قسمتی سے بچ نکلا۔ بطور وکیل اس نے کافی عروج دیکھا۔ یورپ کے سب سے بڑے آرٹسٹ Pablo Picasso کی جائیداد بھی اس کے بتائے گئے فارمولے کے مطابق تقسیم کی گئی۔ سیاسی زندگی میں بھی اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ 25 برس تک وہ پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوتا رہا۔اپنی آخری عمر میں اس نے اپنی پامال شدہ عزت اور آبرو کو بحال کرنے کی کافی کوشش کی ‘جس میں اسے جزوی کامیابی ملی۔ تین جولائی کو 101 برس کی عمر پا کر اس کی وفات ہوئی۔ (جاری)