"KNC" (space) message & send to 7575

بلوچستان سے پارا چنار تک

یہ گمان ہوتا ہے کہ ریاست اور سیاست کے اہداف ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ریاست کا معاملہ بھی یہ ہے کہ اس کے ادارے ایک دوسرے سے ہم آہنگ دکھائی نہیں دیتے۔ یہ صورتِ حال یقینا خوش کن نہیں۔
ریاست کا ہدف کیا ہونا چاہیے؟ ریاست کی سلامتی کو درپیش چیلنج۔ ریاست سے یہاں بطورِ خاص وہ ادارہ مراد ہے جس نے ریاست کی سلامتی کے درپے داخلی اور خارجی خطرات کا تدارک کرنا ہے۔ دیگر ریاستی اداروں کو اس معاملے میں اس ادارے کا معاون ہونا چاہیے لیکن انہیں چارہ گری سے گریز ہے۔ ادارے کی ترجیحات کے سامنے بھی سوالیہ نشان ہے۔ اہلِ سیاست کا ہدف کیا ہے؟ گروہی مفادات کا تحفظ۔ اہلِ سیاست میں وہ سب شامل ہیں جو اس وقت اقتدار کی سیاست میں فریق ہیں۔ جو اقتدار میں ہیں‘ وہ بھی اور جو حزبِ اختلاف میں ہیں‘ وہ بھی۔ جو درمیان میں ہیں‘ ان کا شمار بھی اسی طبقے میں ہوتا ہے۔
کرم ایجنسی میں 40سے زائد افراد بے رحمی کے ساتھ قتل کر دیے گئے۔ یہ معمولی واقعہ نہیں جسے کوئی ریاست ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکے۔ کرنا بھی نہیں چاہیے۔ یہ چند افراد کا نہیں‘ سماجی امن اور ریاست کی سلامتی کا قتل ہے۔ یہ فتنہ ہے جو قتل سے سنگین تر ہے۔ ہمارے دین میں اس کی سزا بھی قتل سے زیادہ ہے۔ ریاست اگر اپنے شہریوں کے جان ومال کا تحفظ نہ کر سکے تو اس کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ بیدار ریاستیں اپنے شہریوں کے جان ومال کی حفاظت کو اپنا اولیں فریضہ سمجھتی ہیں۔ ان کے شہری کو اگر کسی دوسرے ملک میں بھی نقصان پہنچے تو وہ اپنے مجرم کا پیچھا کرتی ہیں۔ امریکی یا برطانوی شہری کو کوئی پاکستان میں بھی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ تو آپ کو یاد ہو گا کہ دو پاکستانیوں کے قاتل کو امریکہ کیسے بچا لے گیا۔ اب اگر ایک ریاست اپنی سرحدوں کے اندر بھی اپنے شہریوں کو اہلِ فساد سے نہ بچا سکے تو شہریوں کے لیے اس کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔
یہی نہیں‘ پاک فوج کے جوان آئے دن دہشت گردوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس نوعیت کے زیادہ تر واقعات کے پی میں ہو رہے ہیں۔ بھارت جیسے روایتی دشمن کے ساتھ لڑائیوں میں ہمارے اتنے جوان شہید نہیں ہوئے جتنے ان دہشت گردوں کے ہاتھوں ہو چکے۔ پھر بلوچستان میں جو الاؤ دہک رہا ہے‘ ریاست کے لیے اس کو بجھانا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ سب واقعات قومی اور ریاستی سلامتی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ریاست کے وجود کے لیے براہِ راست چیلنج ہیں۔ کوئی ریاست ان سے صرفِ نظر نہیں کر سکتی۔ اس کا یہ پہلا ہدف ہونا چاہیے کہ ان خطرات کا تدارک کیا جا ئے۔ اُس کے لیے اس سے زیادہ اہم بات کوئی نہیں ہو سکتی۔ دیگر ریاستی ادارے اور اہلِ سیاست‘ معلوم ہوتا ہے کہ ریاست کی تشویش میں شریک نہیں ہیں۔
اہلِ سیاست کا ہدف کچھ اور ہے۔ حکومت یہ چاہتی ہے کہ اس کا وجود باقی رہے۔ یہ اس کی پہلی ترجیح ہے۔ وہ اس کیلئے آئینی ترامیم لا رہی ہے۔ اہلِ سیاست سے مذاکرات کر رہی ہے۔ معیشت کو سنبھال رہی ہے تا کہ عوام میں بے چینی نہ ہو اور وہ حکومت کے خلاف کسی تحریک کا حصہ نہ بنیں۔ وہ اسی مقصد کیلئے پارلیمان کو متحرک کرتی ہے اور سیاسی بساط بچھاتی ہے۔ وہ صبح شام یہ سوچتی ہے کہ کس طرح اپنے سیاسی حریفوں کو شکست دے اور ان کو غیر مؤثر بنائے۔ سلامتی کے مسائل پر پارلیمان کا خصوصی اجلاس ہوتا ہے نہ کل جماعتی کانفرنس۔ یوں لگا ہے جیسے یہ کوئی دوسری دنیا ہے۔ ریاست کی دنیا سے مختلف۔
حزبِ اختلاف کی ترجیح اپنے وجود کی بقا ہے۔ اسے اپنے سیاسی راہنماؤں اور کارکنوں کی جان عزیزہے۔ ان کی آزادی اس کا پہلا ہدف ہے۔ سماج برباد ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ پارا چنار میں قتلِ عام ہو رہا ہے تو اس کی بلا سے۔ بلوچستان میں آگ کا الاؤ روشن ہے تو اسے اس کو بجھانے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ اس بنیادی حقیقت کو بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھتی کہ صوبائی اور مرکزی حکومتیں اگر برسرِ پیکار ہوں تو نقصان عوام اور ریاست کا ہوتا ہے۔ مسلسل احتجاج سے معیشت کو پہنچنے و الا نقصان بھی اس کا مسئلہ نہیں۔ اس کا ہدف واضح طور پر ریاست کے ہدف سے مختلف ہے۔ اس کی منزل اور ریاست کی منزل ایک نہیں ہے۔
یہ صورتِ حال کسی طور خوش کن نہیں ہے۔ ہم اس وقت بحیثیت مجموعی قومی ذمہ داریوں سے غافل ہیں اور ہمیں اس غفلت کا احساس بھی نہیں۔ زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ریاستی ادارے بھی اب انفرادی اور گروہی مفادات کے اسیر ہیں جیسے سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔ عدالتوں میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ ناقابلِ فہم ہے۔ قانون موم کی ناک ہے۔ ایسی ایسی تاویلیں ہیں کہ قانون کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ قانون اگر انصاف کی فراہمی کی ضمانت نہ بن سکے تو عدالتوں پر عوام کے بھروسے کو برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
دہشت گردی کا مسئلہ جس فکری یکسوئی کا متقاضی ہے‘ وہ ابھی تک پیدا نہیں ہو سکی۔ ہم پر یہی واضح نہیں کہ اس کا انتہاپسندی سے کیا تعلق ہے۔ سیاست سے مذہب تک‘ انتہاپسندی کا راج ہے۔ اس کا دروازہ بند کیے بغیر دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ انتہاپسندی سیاسی ہو یا مذہبی‘ اس کے خاتمے کے لیے مکالمہ ضروری ہے۔ ہمارے ہاں ریاست اس کی قائل ہے نہ سیاست۔ صحافت میں بھی وہی مقبول ہے اور اسے زیادہ موقع دیا جا تا ہے جو انتہاپسند ہے۔ جب ٹی وی سکرین پر ہر وقت کہرام مچانے والوں کا غلبہ ہو گا تو معاشرہ انتہاپسند ہی ہو گا۔ جو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے‘ اس سے مکالمہ نہیں ہو سکتا لیکن ان سے تو ہو سکتاہے جنہیں اس کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اس کا کوئی اہتمام نہیں۔ اس لیے ریاست کے پاس کوئی نتیجہ خیز پروگرام نہیں اور اہلِ سیاست کا یہ موضوع نہیں۔ سلامتی کے اداروں کے جوان شہید ہو رہے اور وہی کٹہرے میں بھی کھڑے ہیں۔ اس کا کوئی توڑ ریاست کے پاس نہیں ہے۔
بلوچستان اور ٹی ٹی پی کے معاملات مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں ریاست‘ سیاست اور میڈیا کی سطح پر ترجیحی مسائل سمجھا جائے۔ چونکہ یہ انسانی جانوں کا سوال ہے‘ اس لیے اس پر پارلیمان میں مکالمہ ہو اور سب گروہی اور شخصی مفادات سے بے نیاز ہو کر اس کے کسی حل پر اتفاق پیدا کریں۔ اس کا تعلق خارجہ امور سے ہے اور وفاق سے بھی۔ اگر مرکز اور صوبہ باہم متصادم ہوں تو یہ معاملہ حل نہیں ہو سکتا۔ شخصی اور گروہی مفادات کا تحفظ بھی فطری ہے مگر کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے جب ہمیں ترجیحات کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم یہ نہیں کر سکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ذہنی اور اخلاقی طور پر بانجھ ہیں۔ پارا چنار کا حادثہ اپنے اندر یہ امکان رکھتا ہے کہ قومی سطح پر فرقہ واریت کو ہوا دے۔
یہ سب کچھ لکھنے کے بعد‘ میرے اندر سے یہی آواز آ رہی کہ یہ لکھا سوچا‘ سب بے معنی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک نے وہی کرنا ہے جو وہ کرتا آیا ہے۔ جو قوم اعلیٰ درجے کی قیادت سے محروم ہو جاتی ہے‘ اس میں وہ اعلیٰ ظرفی باقی نہیں رہتی جو بڑے فیصلوں کے لیے ناگزیر ہے۔ جب کسی قوم میں اقبال‘ ابوالکلام اور محمد علی جناح جیسے لوگ ہوں تو قوم مستقبل کے بارے میں پُرامید رہتی ہے‘ چاہے وہ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہوں۔ اب‘ ریاست وسیاست کی سطح پر امید کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں