"KNC" (space) message & send to 7575

جمہوریت اور پاکستان

تجزیہ کیا ہے؟ احوالِ واقعی کا بیان۔ تبصرہ کیا ہے؟ ان احوال پر غلط اور صحیح کا حکم لگانا۔ اگر کچھ غلط ہے تو اس کو درست کر نے کے لیے راستہ تجویز کرنا اورغلط راستوں سے خبردار کرنا۔
تجزیے میں معروضیت ہونی چاہیے۔ جو جیسے ہے‘ ویسے بیان کیا جائے۔ مشاہدے کی قوت اور رائے کی دیانت ‘ اس کے لوازم ہیں۔ تبصرے موضوعی ہوتے ہیں‘ جن کے لیے واقعات سے باخبری کے ساتھ‘ بصیرت کا ہونا لازم ہے۔ یہ انفرادی رائے ہوتی ہے‘ جس سے لازم نہیں کہ سب کو اتفاق ہو۔ بصیرت کا تعلق دانش کے ساتھ ہے۔ دانش کے لیے بھی دیانت ضروری ہے۔ اگر وہ رشوت لے لے تو غلط راستے کی طرف راہنمائی کرتی اور دوسروں کو گمراہ کرتی ہے۔ تجزیے اور تبصرے کایہ فرق واضح نہ ہو تو خلطِ بحث پیدا ہوتا ہے۔
جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں مَیں نے گزشتہ کالم میں جو کچھ لکھا‘ اس کا بڑا حصہ تجزیے پر مشتمل ہے۔ میں نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ یہ میری خواہش کا اظہار تھا نہ نظریے کا۔ میں نے اسی طرح بیان کر دیا جیسے سمجھا۔ تجزیے میں البتہ میری سوچ شامل ہے کہ میرے نزدیک کیا ہونا چاہیے۔ تجزیے کو غلط ثابت کرنے کے لیے واقعاتی غلطی کی نشاندہی ضروری ہے۔ تبصرے پر تنقید کے لیے دانش کو چیلنج کرنا پڑے گا جو استدلال کا محتاج ہو گا۔ میرے تنقید نگاروں نے جوشِ تنقید میں تجزیے اور تبصرے کے فرق کو نظر انداز کیا۔ میرے تجزیے کو میری سوچ فرض کرتے ہوئے‘ اس پر تنقید کی۔
اس بات کو ہم علامہ اقبال کے کام سے سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کو بتایا کہ وہ زبوں حالی اور ذہنی غلامی کا شکار ہیں۔ انہوں نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی‘ اسے گنوا دیا۔ یہ بھی بتایا کہ خلافت کا احیا اب ممکن نہیں۔ یہ امرِ واقعہ کا بیان ہے نہ کہ ان کی خواہش کا۔ اس کے ساتھ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ اس غلامی کا علاج کیا ہے؟ یہ زبوں حالی کیسے دور ہو سکتی ہے؟ خطبہ الہ آباد میں وہ اس کا حل تجویز کرتے ہیں۔ یہ ان کی خواہش اور دانش کا مظہر ہے۔ جب وہ غلامی کا ذکر کرتے ہیں تو کوئی کوتاہ نظر ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ غلامی کے حق میں ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت اپنی اصل صورت میں موجود نہیں ہے۔ دو بڑی جماعتیں‘ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی ایک انتظامی بندوبست کا حصہ ہیں جو جمہوریت کی روح کے مطابق وجود میں نہیں آیا۔ تحریک انصاف سیاسی حرکیات سے ناواقفِ محض ایک سیاسی کلٹ ہے۔ ووٹ زیادہ ملنے سے‘ کلٹ سیاسی جماعت نہیں بن جاتا۔ جیسے کسی مذہبی کلٹ کے مقبول ہونے سے وہ مذہب کا حقیقی نمائندہ نہیں قرار پاتا۔ پاپولزم عوامی مقبولیت کی ایک صورت ہے مگر یہ جمہوریت کی روح سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ہٹلر اس کی کلاسیکی مثال ہے۔ اسی طرح دنیا میں جمہوریت سے ایک عمومی مایوسی ہے۔ جسے عالمی سیاسی منظر نامے کی کچھ خبر ہے‘ اس پر یہ حقیقت واضح ہے۔ یہ سب امرِ واقعہ کا بیان اور تجزیہ ہے۔ اب میں اس پرتبصرہ کرتا ہوں۔
بہتر سیاسی بندوبست تو جمہوریت ہی ہے۔ اللہ کا حکم بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کا اجتماعی نظم عامۃ الناس کی مشاورت سے قائم ہو۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں وہ سیاسی نظم کیسے وجود میں آئے جو جمہوری ہو؟ اس کے لیے جوحکمتِ عملی بنائی جائے گی‘ وہ اگر زمینی حقائق سے متصادم ہو گی تو لازماً ناکام ہو گی۔ آئیڈیل کی تلاش میں ایسا لائحہ عمل اختیار نہیں کیا جا سکتا جو بدترین نتائج تک پہنچا دے۔ اس لیے ایک وقت تک ایسے حالات کو گوارا کیا جاتا ہے جو مثالی نہ ہونے کے باوجود‘ قابلِ برداشت ہوں۔ اگر ایوانِ اقتدار میں موجود قوتیں‘ کسی کی نظر میں عوامی فیصلے کی راہ میں حائل ہیں تو ان کے ہٹانے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان سے ٹکرایا جائے۔ ایسا قدم اٹھانے سے پہلے‘ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جو اقتدار میں ہو‘ وہ آسانی سے اسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اس کی ایک وجہ خود اقتدار کی نفسیات ہے۔ اور اگر برسرِ اقتدار گروہ یہ بھی سمجھتا ہو کہ اس کے پاس جواز بھی ہے تو یہ اور مشکل ہے۔ اس لیے ٹکرانے کا نتیجہ صرف تصادم ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے وجود کو حقیقت مان کر‘ مکالمے اور تدبیر سے کوئی راستہ نکالا جائے۔
پاکستان میں نواز شریف صاحب نے عوام کی حاکمیت کا عَلم اٹھایا۔ مقتدر قوت نے اس کے جواب میں عمران خان صاحب کو لا کھڑا کیا۔ وہ برسرِ اقتدار آ گئے تو اسی مقتدر قوت کو جمہوریت کا سب سے بڑا محافظ قرار دیتے رہے۔ پھر حالات نے پلٹا کھایا تو صفوں کی ترتیب بھی الٹ گئی۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی اب مقتدر قوت کے حلیف اور عمران خان حریف بن گئے۔ یہ اقتدار کی جنگ ہے جو جاری ہے۔ جمہوریت اپنی روح کے ساتھ کہیں موجود نہیں۔ عوام کو یہ نظام کچھ نہیں دے رہا۔ تحریک انصاف بارہ برس سے کے پی میں حکمران ہے۔ اس نے عوام کو کیا دیا؟ مرکز میں حکومت ملی تو عوام کو کیا ملا؟ سندھ اور بلوچستان کے عوام کو کیا مل رہا ہے؟ پنجاب میں کیا جوہری تبدیلی آئی؟ میں (ن) لیگ کے گورننس ماڈل کو بہتر سمجھتا ہوں مگراس ماڈل میں جمہوری قدروں کا وہ احترام نہیں ہے جو ہونا چاہیے۔
اقتدار کی کشمکش میں شریک تمام جماعتیں‘ اپنے اقتدار کے لیے مقتدرہ کی طرف دیکھتی ہیں۔ مقتدرہ بھی سمجھتی ہے کہ وہی قومی مفاد کی بہتر نگہبان ہے اور اس کام کو سیاستدانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ان حالات نے اس سوچ کو جنم دیا کہ ایک کو ہٹا کر دوسرے کو لانے کے بجائے‘ ایک ایسے نظام کو آزمایا جائے جس میں ریاستی اداروں کے نمائندے بالادست ہوں اور سیاسی عناصر اس کا حصہ ہوں۔ جو سیاسی جماعتیں اس سے اتفاق کریں‘ انہیں اس نظام کا حصہ بنا دیا جائے۔ جو اختلاف کریں‘ انہیں غیر مؤثر بنا دیا جائے۔ اسی طرح عوام اور ریاست مل کر ایک نیا سیاسی تجربہ کریں۔ وہی جو چین اور سعودی عرب میں کیا جا رہا ہے۔ آج اگر کسی کا خیال ہے کہ یہ حل درست نہیں اور مقتدر قوت کو یہ حق نہیں کہ وہ نیا تجربہ کرے‘ لہٰذا ریاستی اداروں کو فیصلہ سازی سے الگ کر دیا جائے تو عملاً یہ ممکن نہیں۔ جو لوگ یہ خواہش رکھتے ہیں‘ انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ جب کسی کے پاس اقتدار ہو اور وہ اس کے لیے ایک بیانیہ بھی رکھتا ہو‘ اسے طاقت سے ہٹانا ممکن نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی یہ کوشش کر کے دیکھ چکی۔ اس کا نتیجہ بدامنی ا ور چند لاشوں کے سوا نہیں نکلا اور نہ نکل سکتا تھا۔ آئندہ بھی یہی ہو گا۔ اسی طرح مقتدرہ کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اگر کسی کو سیاسی عصبیت حاصل ہے‘ چاہے وہ کلٹ ہی کیوں نہ ہو‘ اس کو نظر انداز کر کے کوئی سیاسی نظم کامیاب نہیں ہو سکتا۔
یہ میرا تجزیہ اور تبصرہ ہے۔ مجھے پڑھنے والوں کو یہ بتانا ہے کہ کیا ہو رہا ہے‘ کیوں ہو رہا ہے اور کیا ہونا چاہیے۔ پھر یہ کہ اس 'چاہیے‘ کے لیے‘ کیا چاہیے۔ اہلِ اقتدار کے بارے میں مَیں یہ گمان نہیں رکھتا کہ وہ میرا کالم پڑھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ تاہم عوام میں سے‘ جن تک میری بات پہنچ سکتی ہے‘ ان کے سامنے میں اپنا تجزیہ ا ور تبصرہ رکھ سکتا اور یہ تجویز کر سکتا ہوں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ میں گالیاں تو سُن سکتا ہوں‘ بطلِ حریت کہلوانے کے شوق میں یہ نہیں کر سکتا کہ کسی فرد یا خاندان کے اقتدار کے لیے عوام کا لہو بہانے پر اکساؤں۔ میں وادیٔ نمل کی اس چیونٹی کی طرح ہوں جو لشکرِ سلیمان کے آنے سے پہلے‘ دوسری چیونٹوں کو خبردار کرتی ہے کہ کہیں وہ بے خبری میں کچلی نہ جائیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں