"AIZ" (space) message & send to 7575

طلبہ کنونشن

پاکستان میں مختلف طرح کے تعلیمی ادارے پائے جاتے ہیں۔ بعض اداروں میں عصری علوم پڑھائے جاتے ہیں اور بعض ادارے دینی تعلیم کیلئے مختص ہیں۔ عصری تعلیمی اداروں میں بعض تعلیمی ادارے اردو میڈیم اور بعض انگریزی میڈیم ہیں۔ انگریزی میڈیم تعلیمی ادارے بھی دو حصوں میں منقسم ہیں‘ بعض میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات مقامی بورڈ زکے ذریعے منعقد کرتے ہیں جبکہ دیگر اداروں میں او لیول اور اے لیول کا نظام رائج ہے۔ ان اداروں کے طلبہ کیمبرج یونیورسٹی کے نظام کے تحت تعلیم حاصل کرتے اور اسی یونیورسٹی کے تحت امتحانات دیتے ہیں۔ عصری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ بالعموم تعلیم حاصل کرنے کے بعد معیاری ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان اداروں سے پڑھنے والے لوگ مقابلے کے امتحان دینے کے بعد بیورو کریسی میں بھی شامل ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں میڈیکل‘ انجینئرنگ اور بزنس کی تعلیم سے وابستہ تعلیمی اداروں سے پڑھنے والے طلبہ اندرونِ ملک ا ور بیرونِ ملک کامیاب پیشہ ورانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ برطانیہ‘ آسٹریلیا اور کینیڈا میں بڑی تعداد میں پاکستان کے ڈاکٹرز اور انجینئرز اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب‘ کویت‘ قطر اور متحدہ عرب امارات میں بھی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی معیاری زندگی گزار رہے ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دینی اداروں کے طلبہ کو ریاست اور قوم کی خدمت کیلئے وہ مواقع نہیں مل رہے جو عصری تعلیمی اداروں سے پڑھنے والے طلبہ کو میسر آتے ہیں۔
دینی اداروں میں پڑھنے والے بیشتر طلبہ اپنی ذہانت‘ فطانت اور قابلیت کے اعتبار سے کسی بھی طور پر عصری علوم حاصل کرنے والے طلبہ سے کم نہیں ہوتے۔ قرآن مجید کے حفظ اور احادیث طیبہ کی تعلیم سے مزین یہ طلبہ علومِ اسلامیہ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ دینی تعلیم انسان کے شعور کی سطح کو بلند کرتی اور اس کو ایسی زندگی گزارنے کی طرف راغب کرتی ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی منشا کے مطابق ہو۔ ایسے شخص کے عقائد‘ عبادات اور دنیاوی معاملات بالعموم دوسرے لوگوں سے بہت بہتر ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ درسِ نظامی کے فاضل طلبہ بالعموم پڑھنے کے بعد انہی مدارس میں خدمات دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اپنی قابلیت اور ذہانت کے باوجود ان کیلئے ملازمتوں کے مواقع بوجوہ اس حد تک پیدا نہیں ہوتے جس حد تک عصری علوم حاصل کرنے والوں کیلئے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں دینی مدارس کی اسناد کو عصری تعلیمی اداروں کے برابر تسلیم نہیں کیا جاتا اور ان کو اس سطح پر پہنچنے کیلئے بعض اضافی مضامین کے امتحانات بھی دینا پڑتے ہیں۔اس کیساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عصری علوم کیلئے قائم کردہ اداروں کو اپنے اداروں کی رجسٹریشن یا بینک اکائونٹ کھلوانے میں کسی قسم کی دِقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جبکہ دینی اداروں کے بارے میں مختلف طرح کے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ شدت پسندی اور انتہا پسندی کو جوڑ دیا جاتا ہے‘ جس کی وجہ سے انہیں رجسٹریشن کے بہت سے پیچیدہ اور گمبھیر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کیساتھ ساتھ بینک اکائونٹس کھلوانے میں بھی ان کو بہت سی مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس پیچیدگی اور دِقت کا سامنا کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس قسم کے اداروں کے قیام کے حوالے سے تشویش اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
دینی علوم حاصل کرنے والے لوگ بڑے دقیق قسم کے مضامین کو یاد کرتے اور علمِ تفسیر‘ علمِ لغت‘ علوم الحدیث‘ علم الکلام‘ علمِ فقہ اور دیگر بہت سے مشکل مضامین کو اَزبر کرتے ہیں لیکن ان کی بلند فکری اور علمی سطح کے باوجود معاشرے میں ان کو وہ مقام میسر نہیں آتا جو باقی تعلیمی اداروں سے پڑھنے والے طلبہ کو حاصل ہوتا ہے۔ دینی تعلیم میں عبور حاصل کرنے والے لوگ ہر اعتبار سے حکومتی اور ریاستی سرپرستی کے حقدار ہیں لیکن ان سے بے اعتنائی برتی جاتی ہے۔ عصری علوم دینے والے تعلیمی اداروں کو سرکاری فنڈنگ بھی حاصل ہوتی ہے اور بہت سی این جی اوز بھی ان کی معاونت پر آمادہ وتیار ہو جاتی ہیں جبکہ دینی تعلیمی ادارے اس حوالے سے بہت سے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں اور بالعموم مخیر حضرات کے تعاون ہی سے چل رہے ہوتے ہیں۔ ذہین اور معیاری کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کے مواقع دنیا بھر میں موجود ہیں اور سکالرشپ پر کئی مرتبہ وہ بیرونی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ مدارسِ دینیہ کے طلبہ کو اس حوالے سے کسی بھی قسم کی سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہوتی۔ سعودی عرب کی بعض معروف یونیورسٹیوں میں ایسے طلبہ کا داخلہ ہو جانا بھی غنیمت سمجھا جاتا ہے لیکن اس کا تعلق درحقیقت ریاستی سرپرستی کے ساتھ نہیں بلکہ سعودی عرب کی داخلی ترجیحات کے ساتھ ہے۔
مدارس کے نصاب کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ساتھ جوڑنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں۔ اس لیے کہ دینِ اسلام انسانیت کی بقا کا ضامن ہے اور اپنے دین کے حوالے سے اس قسم کے تحفظات رکھنا کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ مدارسِ دینیہ کا نظام وفاق المدارس کے تحت چل رہا ہے اور اس وقت پانچ مستقل وفاق اپنی ذمہ داریوں کو انجام دے رہے ہیں۔ ہر مسلک کا نمائندہ وفاق موجود ہے جس کے توسط سے طلبہ امتحانات بھی دیتے ہیں اور ان کو اسناد بھی جاری ہوتی ہیں۔ پاکستان کے تمام شہری معاشرے کی تعمیر وترقی کا یکساں حق رکھتے ہیں اور کسی بھی شہری کو نظر انداز کرنے کی کسی بھی سطح پر کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔
بہت سی طلبہ تنظیمیں اس حوالے سے مدارس کو درپیش مسائل کو بیان کرنے کیلئے رائے عامہ تک اپنے پیغام کو پہنچانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم جمعیت طلبہ عربیہ کے نمائندگان نے مجھ سے رابطہ کیا اور 13 نومبر کو لاہور میں ہونے والے ایک کنونشن میں شرکت کی دعوت دی۔ جب میں علی انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن (واقع فیروزپور روڈ) میں منعقدہ کنونشن میں شرکت کے لیے پہنچا تو طلبہ اور نوجوانوں کی کثیر تعداد کو وہاں موجود پایا۔ تمام مکاتب فکر کے جید علما کنونشن میں شرکت کے لیے وہاں موجود تھے اور ہر عالم دین اپنے اپنے انداز میں مدارس کے طلبہ کے حوالے سے اپنی معروضات لوگوں کے سامنے رکھ رہا تھا۔
اس موقع پرمیں نے بھی اپنی گزارشات کو طلبہ اور سامعین کے سامنے رکھا اور کہا کہ دینی مدارس کے طلبہ ملک بھر میں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ لاکھوں طلبہ کو ریاست اور معاشرے کی تعمیر وترقی کے لیے مناسب کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کرنا‘ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں مدارس کی اسناد کو عصری تعلیمی اداروں کی اسناد کے برابر حیثیت ملنی چاہیے۔ مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کو ملازمتوں کے یکساں مواقع بھی میسر آنے چاہئیں اور پبلک اور حکومتی فنڈنگ سے مدارس کی معاونت بھی ہونی چاہیے۔ مدارس کے طلبہ کو بیرونِ ملک سکالرشپ پر تعلیم حاصل کرنے کے مواقع بھی میسر آنے چاہئیں۔ اگر مدارسِ دینیہ کے طلبہ کو ریاست کی خدمت کا موقع دیا جائے تو اس طریقے سے ملک کو بہت سے محنتی اور مخلص سماجی کارکن میسر آ سکتے ہیں۔ حکومت کو اس حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر مدارس کے معاملات کی اصلاح اور بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور دیگر لوگوں کو بھی اس طرف راغب کرنا چاہیے۔ اگر عصری تعلیمی اداروں کو فنڈز دیے جا سکتے ہیں تو معیاری مدارس کو بھی فنڈز ملنے چاہئیں تاکہ لاکھوں طالب علموں کا مستقبل محفوظ ہو اور یہ نوجوان ریاستی تعمیر وترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔
شرکائے مجلس نے بڑے انہماک سے مقررین کی تقاریر کو سنا اور یوں یہ پروگرام اپنے جلو میں بہت سی یادیں لیے اختتام پذیر ہو گیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں