جب کسی قوم کے نوجوان تعلیم وتربیت سے آراستہ ہو جاتے ہیں تو وہ قوم ترقی کی منازل طے کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس جب کسی قوم کے نوجوان اپنے وقت کو ضائع کر رہے ہوں تو قوم کا مستقبل خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں کی بڑی تعداد معاشی اعتبار سے خوبصورت مستقبل کی متمنی ہے اور بہت سے نوجوان یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں آباد ہونے کیلئے بیتاب نظر آتے ہیں۔ گو ملک وملت کے درد سے بہرہ ور نوجوان بھی ملک میں موجود ہیں لیکن وہ نوجوان‘ جو اپنے معاشی مستقبل کیلئے ہر چیز کو خیرباد کہنا چاہتے ہیں‘ زیادہ ہیں۔ بہت سے نوجوان نفسیاتی عوارض کا شکار جبکہ کچھ منشیات کے عادی ہو چکے ہیں۔ بہت سے نوجوان اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہیں۔نوجوانوں کے مستقبل پر والدین‘ اساتذہ اور معاشرے کے ذمہ داران کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قر آن مجید میں اُن نوجوانوں کا بھی ذکر کیا جنہوں نے اپنی زندگیوں کو اللہ کے دین کیلئے وقف کر دیا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الکہف کی آیت نمبر 13 میں اصحابِ کہف کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ''یہ چند نوجوان اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی دی تھی‘‘۔ ان لوگوں نے اپنے دین کی حفاظت کیلئے غار میں پناہ لی اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے اس عمل صالح کو قرآن مجید کا حصہ بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جوانی کے ایام کا بھی ذکر کیا کہ آپ کس قدر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دیا کرتے اور بتوں کی پرستش کے خلاف جستجو کیا کرتے تھے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب حضرت محمد کریمﷺ بھی نوجوانوں پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے۔ آپﷺ کی اہلیہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مسلم خواتین کیلئے ایک مثال ہیں۔ آپؓ نے اپنی زندگی کو علم وعمل کی نشر واشاعت کیلئے وقف کیے رکھا۔ اسی طرح نبی کریمﷺ کی عظیم دختر حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا کردار بھی ہر اعتبار سے قابلِ تحسین اور لائقِ تقلید ہے۔ آپؓ نے حیا اور حجاب کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی اولاد کی بہترین انداز میں تربیت کی اور ایک مثالی ماں اور مثالی بیوی کا کردار ادا کر کے ہمیشہ کیلئے امر ہو گئیں۔ نبی کریمﷺ ہمیشہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے اور آپﷺ کے قریبی اصحاب میں حضرت عبداللہ بن عمر‘ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم جیسی شخصیات بھی شامل تھیں جو کم عمری کے باوجود علم دین کی نشر و اشاعت کیلئے وقف رہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو حضرت عمر فاروقؓ اپنے بہت قریب رکھتے تھے اور آپؓ کے علم وفضل کی وجہ سے آپ کے ساتھ بہت زیادہ محبت‘ الفت اور شفقت کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ نے اپنے وصال سے قبل ایک لشکر روانہ کیا جس کی قیادت نوجوان صحابی حضرت اسامہ بن زیدؓ کے حوالے کی گئی۔ نبی کریمﷺ کی دنیا سے رحلت کے بعد بھی نوجوان صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین دین کی نشر و اشاعت کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ نوجوانوں کی تعلیم‘ تربیت اور ان سے شفقت کا معاملہ کرنا درحقیقت نبی کریمﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔ نبی کریمﷺ نے ہمیشہ بڑوں کا احترام کرنے اور چھوٹوں کے ساتھ پیار کرنے کی تلقین کی۔ اس حوالے سے سنن ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا مقام نہ پہچانے‘‘۔
کتاب وسنت کے ان آثار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمیں نوجوانوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے‘ ان کی تعلیم وتربیت کا خصوصی انتظام کرنا چاہیے۔ بعض والدین معاشی سرگرمیوں میں اس حد تک مشغول ہو جاتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم وتربیت سے یکسر غافل ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے نہ تو بچے تعلیمی میدان میں پیش قدمی کر پاتے ہیں اور نہ ہی ان کی اخلاقی حالت مثالی ہوتی ہے۔ بچوں کی تعلیم وتربیت کیلئے ضروری ہے کہ انسان اُن کو مثبت کاموں کی نصیحت کرے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قر آن مجید میں حضرت لقمان کا ذکر کیا ‘جنہوں نے اپنے بیٹے کو بہت سے اچھے کاموں کی بڑے ہی احسن انداز میں نصیحت کی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ لقمان کی آیات 13 تا 19 میں اس کا ذکر کچھ یوں فرماتے ہیں ''اور جب لقمان نے نصیحت کرتے ہوئے اپنے بیٹے سے کہا کہ اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ (کسی کو) شریک نہ کرنا‘ بیشک یہ شرک ظلم عظیم ہے۔ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے‘ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تُو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر‘ (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دبائو ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تُو ان کا کہنا نہ ماننا‘ ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو‘ تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے‘ تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کروں گا۔ پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ (بھی) خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ ضرور لائے گا‘ اللہ بڑا باریک بین اور خبردار ہے۔ اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا‘ اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا‘ برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنا (یقین مانو) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے۔ لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اترا کر نہ چل‘ کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔ اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر‘ اور اپنی آواز پست کر یقینا آوازوں میں سب سے بدتر گدھوں کی آواز ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قر آن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بطور باپ کردار کا بھی ذکر کیا کہ انہیں جب قربانی کا حکم دیا گیا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو بھی ذہنی طور پر اس کام کیلئے تیار کیا۔ اسی طرح جب تعمیرِ بیت اللہ کا وقت آیا تو آپ علیہ السلام نے اس میں بھی سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو بھی اپنے ساتھ شریک کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہمیشہ اپنی اولاد کیلئے دعا گو رہا کرتے تھے جس کا ذکر سورۂ ابراہیم کی آیات 35 تا 41 میں کچھ یوں کیا گیا ہے ''(ابراہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا کہ اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن والا بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے۔ اے میرے پالنے والے معبود! انہوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے۔ پس میری فرمانبرداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تُو بہت ہی معاف اور کرم کرنے والا ہے۔ اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاداس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لیے کہ وہ نماز قائم رکھیں‘ پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں۔ اے ہمارے پروردگار! تو خوب جانتا ہے جو ہم چھپائیں اور جو ظاہر کریں۔ زمین وآسمان کی کوئی چیز اللہ پر پوشیدہ نہیں۔ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل واسحاق عطا فرمائے۔ کچھ شک نہیں کہ میرا پالنہار اللہ دعائوں کا سننے والا ہے۔ اے میرے رب! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی‘ اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما۔ اے ہمارے پروردگار! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو بھی بخش اور دیگر مومنوں کو بھی بخش جس دن حساب ہونے لگے‘‘۔
اگر والدین حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لقمان کی سیرت سے استفادہ کریں تو یقینا نوجوانوں کی اصلاح کیلئے کلیدی کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے اساتذہ اور معاشرے کے رہنمائوں کو بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہیے تاکہ نوجوانوں کا مستقبل سنور سکے اور نتیجتاً ملک و ملت کا مستقبل بھی محفوظ ہو جائے‘ آمین!