ملک بھر میں مختلف مقامات پر مختلف مو ضوعات کے حوالے سے سالانہ اجتماعات کا انعقادکیا جاتا ہے۔ ان اجتماعات میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہو کر مخصوص موضوعات پر فاضل علما کے بیانات کو سنتے ہیں۔ کچھ سالانہ اجتماعات اور کانفرنسوں میں علاقے کے لوگوں کو غیر معمولی دلچسپی ہوتی ہے اور وہ سالانہ اجتماعات کی تیاری میں پورا سال مصروف رہتے ہیں۔ ملک بھر میں اس سلسلے کی وجہ سے لوگوں کی کثیر تعداد میں دینی تعلیمات سے آگہی آتی ہے اور کتاب وسنت کا علم ان تک اچھے طریقے سے منتقل ہوتا ہے۔
ملک کے دیگر مقامات کی طرح ضلع قصور میں بھی بہت سی کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے‘ جس میں ضلع قصور کے قصبے کوٹ آرائیاں میں ہر سال سالانہ ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد سرفہرست ہے۔ مجھے اس کانفرنس میں گزشتہ کئی برسوں سے حاضری کا موقع ملتا رہا ہے اور میں اس پروگرام میں اپنی معروضات اور گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھتا رہتا ہوں۔ اس سال بھی قرآن وسنہ موومنٹ کے زیر اہتمام 19 اکتوبر کو مرکز الاحسان کوٹ آرائیاں میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس میں کوٹ آرائیاں اور گرد ونواح سے لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے‘ قاری محمد یاسین بلوچ‘ ڈاکٹر محمد عظیم اختر اور مولانا منظور احمد کو بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔ قاری عبدالقدیر عاصم‘ حافظ خالد محمود اور انکے رفقا نے ہر سال کی طرح اس سال بھی بھرپور انداز میں کانفرنس کی تیاریاں کی تھیں۔ کانفرنس میں میرا خطاب آخر پر تھا‘ رات ایک بجے کے قریب جب میں قصبے میں پہنچا تو عوام کو پوری طرح متحرک اور بیدار پایا اور کانفرنس کے حوالے سے ان میں غیر معمولی جوش وجذبہ اور ولولہ دیکھنے کو ملا۔ کانفرنس کے سٹیج پر پہنچنے تک نوجوانوں کی بڑی تعداد نے گرم جوش انداز میں مجھے خوش آمدید کہا‘ اس موقع پر میں نے جن خیالات کو سامعین کے سامنے رکھا ان کو کچھ کمی بیشی اور ترامیم کے ساتھ قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے دین کی نشر واشاعت کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کا انتخاب کیا اور دنیا میں یہ اعزاز صرف انبیاء کرام ہی کو حاصل ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے ساتھ کلام فرمایا‘ جس کی تین صورتوں کو سورۃ الشوریٰ کی آیت 51 میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور نہیں ہے یہ مقام کسی بشر کا کہ بات کرے اس سے اللہ مگر وحی کے ذریعہ سے یا پردے کے پیچھے سے یا وہ بھیجتا ہے پیامبر (فرشتہ)‘ پس وہ وحی کرتا ہے اللہ کے حکم سے جو کچھ اللہ چاہتا ہے‘ بلاشبہ وہ ہے برتر اور بڑی حکمت والا‘‘۔
نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس پر بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی طرح وحی کا نزول فرمایا جس طرح سابقہ انبیاء کرام پر وحی کا نزول فرمایا۔ اس حقیقت کو اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت 163 میں یوں بیان فرماتے ہیں: ''بے شک ہم نے وحی بھیجی ہے تمہاری طرف جیسے وحی بھیجی تھی ہم نے نوح اور ان نبیوں کی طرف جو اس کے بعد ہوئے اور وحی بھیجی ہم نے ابراہیم‘ اسماعیل‘ اسحاق‘ یعقوب اور اولادِ یعقوب کی طرف اور عیسیٰ‘ ایوب‘ یونس‘ ہارون اور سلیمان کی طرف اور دی ہم نے دائود کو زبور‘‘۔
نزولِ وحی کا مقصد کائنات کے لوگوں کو آسمانی رہنمائی فراہم کرنا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ رسل اللہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے وحی کے حقیقی معانی سے روشناس بھی کیا تاکہ وہ انسانیت کی درست راستے کی طرف رہنمائی فرمائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ النساء کی آیت 64 میں ارشاد فرمایا: ''اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر اس لیے کہ اطاعت کی جائے اس کی اللہ کے حکم سے‘‘۔
نبی کریمﷺ کی اطاعت ہم سب پر لازم ہے اس لیے کہ نبی کریمﷺکی بعثت کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ ایمان کے اوپر ایک احسانِ عظیم قرار دیا اور یہ بات بتلائی کہ آپﷺ لوگوں کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کا تزکیہ کرتے ہیں‘ کہ آپﷺ کی بعثت سے قبل لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۂ آلِ عمران کی آیت 124 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''یقینا بڑا احسان کیا ہے اللہ نے مومنوں پر کہ بھیجا ان میں ایک رسول انہی میں سے‘ جو پڑھ پڑھ کے سناتا ہے انہیں آیات اللہ کی اور تزکیہ کرتا ہے ان کا اور تعلیم دیتا ہے ان کو کتاب اللہ کی اور سکھاتا ہے ان کو حکمت اگرچہ تھے وہ اس سے پہلے گمراہی میں‘‘۔
نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے شریعت ودین کو آپﷺ کی ذاتِ اقدس پر مکمل کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ المائدہ کی آیت 3 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''آج مکمل کر دیا ہے میں نے تمہارے لیے دین اور پوری کر دی ہے تمہارے لیے اپنی نعمت اور پسند کر لیا ہے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی ذاتِ اقدس پر اپنی نعمتوں کو اس انداز میں تمام کیا کہ آپﷺ نے عقائد‘ عبادات اور معاملات کے حوالے سے انسانیت کی کامل اور مکمل رہنمائی کی اور کسی بھی مسئلہ میں معمولی سی تشنگی کو بھی باقی نہیں رہنے دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کے سر پر تاجِ ختم نبوت رکھ کر تمام انسانیت کے سامنے اس بات کو واضح کر دیا کہ اب کسی نئے نبی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس حقیقت کو اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الاحزاب کی آیت 40 میں یوں بیان فرماتے ہیں: ''نہیں ہیں محمد باپ کسی کے تمہارے مردوں میں سے بلکہ وہ رسول ہیں اللہ کے اور سلسلہ ختم نبوت کی تکمیل کرنے والے ہیں‘ اور ہے اللہ ہر چیز سے پوری طرح باخبر‘‘۔
ختم نبوت کے عقیدے پر ایمان رکھنا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے‘ ہر مسلمان کو کتاب وسنت کی روشنی میں یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ نبی کریمﷺ نے تعلیماتِ شریعت کو بطریقِ احسن لوگوں تک منتقل فرما دیا اور اب کسی نئے نبی کی کوئی گنجائش اور ضرورت باقی نہیں رہی۔ یہ بات درست ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قربِ قیامت دنیا میں جلوہ افروز ہوں گے۔ آپ دجال کو قتل کریں گے اور زمین پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی شریعت اور عدل کو قائم کریں گے لیکن یاد رہے کہ آپ علیہ السلام کونبوت نبی کریمﷺ کے بعد نہیں بلکہ آپﷺ سے پہلے ملی۔ کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ بہت سی احادیثِ طیبہ سے بھی یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ نبی کریمﷺ اللہ تبارک وتعالیٰ کے آخری رسول اور نبی ہیں اور آپﷺکے بعد کسی نئی نبوت اور رسالت کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اس حوالے سے کتاب وسنت کی تعلیمات اور اجماعِ امت سے انحراف کرنے والے لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور ایسے لوگوں کا اسلام‘ قرآن اور پیغمبر اسلامﷺ کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ختم نبوت کے عقیدے کے ابلاغ کے لیے ہر دور میں دینی رہنمائوں اور علما نے بے مثال جدوجہد کی اور پاکستان کی قومی اسمبلی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ 7 ستمبر 1974ء کو طویل غور وخوض اور بحث کے بعد یہ فیصلہ سنایا گیا کہ جو شخص بھی نبی کریمﷺ کو آخری نبی نہیں مانتا‘ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ مسلمانانِ عالم کو جہاں کتاب وسنت کی تعلیمات اور اجماعِ امت کی وجہ سے یہ شرح صدر حاصل ہے کہ نبی کریمﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا‘ وہیں آئینِ پاکستان نے قانونی طور پر بھی اس بات کو واضح کر دیا۔ اس حوالے سے علمائے امت مکمل طور پر بیدار ہیں اور اس عقیدے میں کسی بھی قسم کے رخنے کو کسی بھی طور پر گوارا نہیں کیا جا سکتا۔
اس کانفرنس میں عوام نے علما کرام کے خطابات کو بڑی توجہ سے سنا اور یہ اجتماع اپنے جلو میں بہت سی یادوں کو لیے اختتام کو پہنچا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو عقیدۂ ختم نبوت سے والہانہ وابستگی رکھنے کی توفیق دے‘ آمین!