پاکستان کو قائم ہوئے 77 برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔مملکتِ خداداد اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔آزادی کی نعمت اور اس کی قدر اُن لوگوں سے پوچھنی چاہیے جو برسہا برس سے آزادی کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ کشمیر‘فلسطین اور میانمار کے مسلمان ایک عرصے سے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود آزادی کا خواب ہنوز تشنہ ہے۔ مملکتِ خداداد پاکستان کا قیام بھی آسانی سے نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے حصول کے لیے بہت بڑی منظم سیاسی اور عوامی تحریک چلائی گئی تھی۔ حضرت قائد محمد علی جناحؒ‘ علامہ محمد اقبالؒ‘ مولانا ظفر علی خانؒ‘ محمد علی جوہرؒ اور اکابرینِ تحریک پاکستان اور علمائے کرام نے قیام پاکستان کے لیے بہت زیادہ محنت اور جدوجہد کی تھی۔ برصغیر کے طول وعرض میں بہت بڑی تعداد میں اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔جلسے‘ جلوسوں کے ذریعے رائے عامہ کو منظم کیا گیا اور قیام پاکستان کی راہ کو ہموار کیا گیا۔ موجودہ پاکستان جس حصے پر قائم ہے فقط یہاں کے مسلمانوں ہی نے قیام وطن کے لیے قربانیاں نہیں دی تھیں بلکہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے مسلمانوں نے بھی قیامِ پاکستان کی حمایت کے لیے اپنی آواز کو بلند کیا۔ اس لیے کہ مسلمانانِ برصغیر اس بات کو سمجھ چکے تھے کہ ایک علیحدہ مملکت کا حصول اب وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کے قبیل کے دوسرے افراد متحدہ ہندوستان کو برقرار رکھنے کیلئے رائے عامہ کو ہموار کرتے رہے اور اس حوالے سے اپنے دلائل کو پیش کرتے رہے؛ تاہم مسلم عوام اور رہنماؤں نے ان کے دلائل کو اس لیے قبول نہیں کیا کہ حالات بہت زیادہ خراب ہو چکے تھے اور مسلمان اس قدر زوال پذیر ہو چکے تھے کہ علیحدہ مملکت کے قیام کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ پاکستان کا قیام لاکھوں قربانیوں کا نتیجہ تھا اور قیامِ پاکستان کے وقت ہر مسلمان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں اور ان پر رِقت طاری ہو گئی۔ برصغیر سمیت پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں نے اس عظیم خوشخبری پر اطمینان اور سکون محسوس کیا تھا۔
پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر قائم کیا گیا تھا اور اس کے قیام کے وقت ایک ہی نعرہ لگایا گیا تھا کہ ''پاکستان کا مطلب کیا... لا الہ الا اللہ ‘‘۔ لیکن بدنصیبی کہ جس نعرے کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا‘ 77 برس گزر جانے کے بعد بھی اس پر صحیح طریقے سے عمل نہ ہو سکااور آج بھی اس حوالے سے بہت سی تشنگی محسوس کی جاتی ہے۔
نظریاتی اعتبار سے پاکستان ایک مسلم ریاست ہے جس کے آئین میں کتاب و سنت کی عملداری کی ضمانت دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود اس بات کو محسوس کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بہت سے ایسے کام جاری و ساری ہیں جو کتاب و سنت کی روح کے خلاف ہیں۔ پاکستان میں سودی لین دین اپنے پورے عروج پر ہے‘ قحبہ گری کے اڈے بھی ملک کے کئی شہروں میں موجود ہیں‘ منشیات اور شراب فروشی کا دھندہ بھی جاری و ساری ہے۔ اس ساری صورتحال کو دیکھ کردینی طبقات بہت زیادہ تکلیف محسوس کرتے ہیں اوران قباحتوں کے خاتمے کے لیے آواز بھی اُٹھاتے رہتے ہیں۔ لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ ان قباحتوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے تا حال مؤثر اقدامات بروئے کار نہیں لائے جا سکے۔
پاکستان کا آئین اس اعتبار سے ایک زبردست دستاویز ہے کہ اس نے حرِمت رسول اللہﷺ اور ختم نبوت کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔ 295Cکا قانون نبی کریمﷺ کے شانِ اقدس میں توہین کے راستے میں ایک بہت بڑی دیوار ہے۔اس قانون کو کئی مرتبہ سازشوں کے ذریعے کالعدم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی لیکن علماء کرام‘ دینی طبقات اور دینی رہنماؤں کی کوششوں اور یکسوئی کی وجہ سے اس قسم کی کوئی بھی سازش کامیاب نہ ہو سکی۔ اس آئین نے ختم نبوت کے منکروں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا‘اسی طرح مقدساتِ اُمت کی حرمت کو یقینی بنانے کے لیے ناموس صحابہؓ و اہل بیتؓ کے بل بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہو چکے ہیں۔ کوئی بھی شخص اگر ان ہستیوں کی توہین کا مرتکب ہوگا تو اس کو 10 سال قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔پاکستان کی نظریاتی سرحدوں اور نظریۂ پاکستان کے دفاع کیلئے پاکستان کے مذہبی رہنما‘ دینی ادارے اور جماعتیں اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہٗ نبھانے کی جستجو کر رہے ہیں۔ جب بھی کبھی ملک میں حرمت رسولﷺ، ختم نبوت اور اسلامی اقدار کے خلاف کوئی سازش کی گئی‘ علمائے دین نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
پاکستان ایک عرصے سے اقتصادی بحران کا شکار ہے اور ملک کے معاملات بڑے پیمانے پر قرضوں پر چل رہے ہیں۔ ان قرضوں سے نجات دلانے کے دعوے ہر حکمران اور ہر پارٹی نے کیے لیکن افسوس کہ ان پر عمل نہ ہوسکا۔اس کی بہت بڑی وجہ سودی لین دین ہے جس کی وجہ سے ملک کی معیشت دباؤ کا شکار ہے۔ جب اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلانِ جنگ کیا جائے گا تو معیشت کے معاملات بہتری کی طرف کیسے گامزن ہو سکتے ہیں؟ ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے سودی نظام سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔ لیکن افسوس کہ یہ بات ہمارے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو سمجھ نہیں آ رہی۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 276 میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امر کا اعلان فرما دیا: ''مٹاتا ہے اللہ سود کو اور بڑھاتا ہے صدقات کو اور اللہ نہیں پسند کرتا ہر ناشکرے گنہگار کو‘‘۔ چنانچہ اگر ہم اپنے ملک کی معیشت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے سودی لین دین کے نظام سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ ملکی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے ایک اور امر جس کی طرف توجہ دینا انتہائی ضروری ہے وہ توانائی کا بحران ہے۔ اگر توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے مضبوط حکمت عملی تیار کر لی جائے تو پیداواری اخراجات میں نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے اور صنعتوں کو سستی بجلی ملنے کی وجہ سے مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ توانائی کے اِس بحران پر قابو پانے کیلئے جس خلوصِ نیت کی ضرورت تھی افسوس کہ اس کا مظاہرہ ہمارے حکمران اب تک نہیں کر سکے۔ پاکستان ایسا ملک ہے جس میں شمسی توانائی کا حصول انتہائی آسان ہے لیکن بد نصیبی سے شمسی توانائی کے ذریعے اس بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی مضبوط لائحہ عمل اختیار نہیں کیا گیا۔اس حوالے سے ہمیں یورپی ممالک کے ماڈل سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے جہاں سورج کبھی کبھار نکلتا ہے لیکن اس کے باوجود شمسی توانائی سے بھرپور طریقے سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ہمارے ملک میں بالخصوص ساحلی علاقوں میں تیز ہوائیں چلتی ہیں ان مقامات پر ہوائی چکیوں کی تنصیب سے بھی سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے جوہری توانائی کو بھی اس مقصد کیلئے استعمال نہیں کیا۔ اگر ان تمام ذرائع کو استعمال کرنے کی کوشش کی جائے تو ہمارے ملک میں توانائی کے بحران پر بہ آسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔
ملک کو مضبوط اور مستحکم بنانے کیلئے ملک میں طبقاتی کشمکش کا خاتمہ ضروری ہے۔ ہمارا ملک لسانی اور قومی بنیادوں پر بہت حد تک تقسیم کا شکار ہے جس کا نتیجہ ہم ماضی میں سقوطِ ڈھاکہ کے المیے کی شکل میں دیکھ چکے ہیں کہ لسانی تعصبات اس حد تک بڑھ گئے کہ ملک دولخت ہو گیا۔ افسوس کہ ہم نے اِن واقعات سے سبق نہیں سیکھا۔اگر ہم اِن واقعات سے سبق سیکھیں اور ملک میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے قومیتی‘ سیاسی اور لسانی عصبیتوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے جغرافیے اور نظریے کے دفاع کیلئے قوم کے جذبات کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان ایک مضبوط اور مستحکم ریاست کی حیثیت سے ترقی کی منازل طے کرنے کے تمام لوازمات اور امکانات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے اور اس کو اندرونی وبیرونی دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ فرمائے‘ آمین!