ہم نے کبھی خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھا‘ کبھی آنکھ سے ٹپکنے والے لہو کی روشنی اور روشنائی سے لکھا اور کبھی اشکِ رواں کی رفاقت میں لکھا‘ مگر یوں محسوس ہوا کہ ہم پتھر کی دیواروں پر دستک دے رہے ہیں۔ بقول استادِ گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی ؎
کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجیے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں
ہم نے معیشت کی ابتری‘ سود در سود کے لیے مزید قرضوں کی عدم دستیابی‘ قومی خزانے میں زرِمبادلہ کی کمیابی‘ بیرونی سرمایہ کاری کی عدم فراہمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گھٹتی ہوئی آمدنی کی طرف توجہ دلانے کی بہت کوشش کی مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ ہم نے بطورِ خاص ملک کے دو صوبوں میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور باقی دو صوبوں میں گڈ گورننس کی کسمپرسی اور امن و سلامتی کی عدم موجودگی کی طرف بھی اہلِ اقتدار کو متوجہ کرنے کی کوشش کی مگر کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کے ہاں دستوری سیاست کے لیے کوئی فکر مندی نہیں‘ وہ کوچۂ اقتدار میں جیپ پر آنے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہ عوام کہ جن کی نمائندگی کا وہ دعویٰ کرتے ہیں‘ ان کے کندھوں پر سوار ہو کر ایوانِ اقتدار میں آنے کو پسند نہیں کرتے۔
حالیہ دنوں میں بزرگ سیاستدان جناب محمود خان اچکزئی دو بار لاہور آئے تو ان سے دونوں مرتبہ ملاقات ہوئی اور بے تکلف تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔ ان دنوں وہ اپوزیشن کے اتحاد ''تحریکِ تحفظِ دستور ‘‘کے سربراہ ہیں۔ عرصے سے قوم کو کسی ایسی شخصیت کا انتظار تھا جو پاکستان میں اتحادوں کی سیاست کے علمبردار جناب نوابزادہ نصراللہ خان کی رحلت سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کر سکے۔ اب نوابزادہ صاحب والی ذمہ داری جناب اچکزئی کے حصے میں آئی ہے۔ ہماری محمود خان اچکزئی سے پرانی یاد اللہ ہے۔ 2004ء سے 2010ء تک‘ قیامِ اسلام آباد کے دوران میری ان سے کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ان کے والد گرامی جناب عبدالصمد اچکزئی 1964ء میں میرے والدِ محترم جناب مولانا گلزار احمد مظاہری کے لائل پور میں جیل فیلو تھے۔ والد صاحب جماعت کے چند زعما کے ساتھ یہاں قید تھے۔ انہوں نے اپنی جیل ڈائری میں عبدالصمد اچکزئی صاحب کے دلچسپ سیاسی و نظری خیالات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ہم مولانا گلزار احمد مظاہری کی جیل کہانی سے یہاں چند سطور نقل کر رہے ہیں۔
''آج سات مئی 1964ء ہے۔ آج خان عبدالصمد اچکزئی کو سیالکوٹ جیل سے لائل پور جیل منتقل کیا گیا۔ سپرنٹنڈنٹ جیل بتا رہے تھے کہ آپ جماعت والوں کے حوالے سے اخبارات اور اسمبلی میں لائل پور جیل کی سختیوں کی بات ہوئی تو حکومت نے سخت جیل سمجھ کر اچکزئی صاحب کو یہاں بھیج دیا۔ ہم نے اچکزئی صاحب کو کھانا بھیجا تو بہت خوش ہوئے اور شکریہ ادا کیا۔ پھر جیل میں ان کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ وہ اولاً شباب سے ہی انگریز سے آ زادی اور پھر قیامِ پاکستان کے بعد دستور کی جمہوریت اور دستور کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرتے رہے‘‘۔
جناب عبدالصمد اچکزئی اعلیٰ درجے کی حسِ مزاج بھی رکھتے تھے۔ محمود خان اچکزئی کو دستور کی سربلندی کیلئے جدوجہد اور لطیف مزاح کا ذوق ورثے میں ملا ہے۔ دیکھئے آج سے نہیں چھ دہائیاں پہلے بھی حکمران مخالف سیاستدانوں کو جیل بھیج کر بھی اس فکر میں غلطاں و پیچاں رہتے تھے کہ کہیں قیدی وہاں چین سے تو شب و روز نہیں گزار رہے۔
لاہور میں محدود دوستوں کی مجالس میں جناب محمود خان اچکزئی نے ہلکے پھلکے انداز میں ملکی حالات بیان کیے جنہیں سن کر ہنستے ہنستے آنکھ میں رنگِ ملال بھی آ جاتا تھا۔ اچکزئی صاحب نے ملک میں امن و امان‘ معیشت کی زبوں حالی اور سیاسی بے چینی کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک سیاسی جماعتیں اپنی اپنی اَناؤں کو خیرباد نہیں کہتیں اس وقت تک حالات میں بہتری نہیں آ سکتی۔ قومی مفاہمت اور آئین کی سربلندی کے لیے سب کو مل بیٹھنا ہوگا۔ اچکزئی صاحب کی قومی مفاہمت و یگانگت کے لیے کوششیں رنگ لاتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔
31 اگست ہفتہ کے روز پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف نے اپنی پارٹی میٹنگ کی صدارت کی۔ انہوں نے میٹنگ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مہنگے بجلی بل ناقابلِ برداشت ہیں۔ عوام کو ریلیف دینے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں‘ حکومتوں اور اداروں کو مل کر فیصلے کرنے چاہئیں۔ میاں نواز شریف کے بیان کے فوری بعد احسن اقبال صاحب اور خواجہ آصف کے بیانات آئے جن میں گرم گفتاری غالب اور پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت نمایاں تھی۔ لگتا یوں ہے کہ جناب وزیراعظم اور ان کے مذکورہ بالا دونوں وزرا مذاکرات کے حق میں نہیں جبکہ جناب میاں نواز شریف‘ رانا ثنا اللہ اور خواجہ سعد رفیق سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مذاکرات کو ملکی استحکام کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق رانا ثنا اللہ صاحب کی جناب اچکزئی سے ایک ملاقات تو ہو بھی چکی ہے۔
جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے وہاں بھی یار بزمِ ناز سے الگ الگ خبر لائے ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ جناب عمران خان نے محمود خان اچکزئی کو سیاسی جماعتوں بشمول (ن) لیگ سے مذاکرات کے لیے بڑا واضح سگنل دیا ہے۔ مگر یکم ستمبر کو بزمِ ناز سے آنے والی خبر مختلف تھی۔ اس میں پھر ''طوافِ کوئے ملامت‘‘ کوجانے اور ڈیڈ لاک ختم کرنے کی فریاد تھی اور سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی تقریباً نفی تھی۔ ایسے ہی مواقع کے لیے داغ دہلوی نے کہا تھا:
کس کا یقین کیجئے کس کا یقیں نہ کیجئے
لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ
مسلم لیگ (ن) جیسی تقسیم تحریک انصاف میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر صاحب بھی جناب اچکزئی کے ساتھ دونوں مرتبہ لاہور آئے تھے۔ اسد قیصر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مذاکرات پر کسی ابہام کا شکار نہیں۔ وہ مذاکرات کو ہی جملہ مسائل کا حل سمجھتے ہیں جبکہ بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ پارٹی کی سینئر قیادت نے مذاکرات کے لیے کسی خواہش کا اظہارنہیں کیا ۔ بہرحال دونوں سیاسی جماعتوں کی صفِ دوم کی لیڈر شپ کچھ کہتی رہے مگر ہماری اطلاع کے مطابق دونوں بڑی پارٹیوں کے تیز رفتاری سے نہ سہی مگر آہستہ روی سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ جناب محمود خان اچکزئی کہ جن کا پی ٹی آئی‘ مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں میں ایک بزرگ سیاستدان کی حیثیت سے بہت احترام پایا جاتا ہے‘ 31 اگست کو ہی ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ملک کو آگے لے جانے کے لیے مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ جناب اچکزئی نے دو ستمبر کو قومی اسمبلی میں ببانگِ دہل کہا کہ وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی مذاکرات کریں گے اور مقتدرہ سے بھی بات کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف سمیت تمام سیاستدان تحفظِ آئین کے لیے ایک پیج پر ہیں۔ تین ستمبر کو قومی اسمبلی میں وقفۂ نماز کے دوران اچکزئی صاحب نے فون پر مجھ سے بات کرتے ہوئے نہایت تیقن کے ساتھ کہا کہ ان شاء اللہ سب سے مذاکرات کامیاب ہوں گے اور دستور کی سربلندی اور بالادستی قائم ہو گی۔ قومی مفاہمت کے نقطۂ نظر سے یہ ساری خبریں دل خوش کن ہیں۔ خدا کرے فیض احمد فیض کی بات سچ ثابت ہو:
روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں