"JDC" (space) message & send to 7575

ایماندار قیادت اور احتساب

انگریزی کی ایک کہاوت ہے کہ Power tends to corrupt and absolute power corrupts absolutely۔ یعنی طاقت یا اقتدار انسان کو کرپٹ کرتے ہیں اور اگر مکمل اقتدار اور کھلے اختیارات کسی شخص کے پاس ہوں تو وہ مکمل طور پر کرپٹ ہو جاتا ہے۔ مکمل اقتدار کے ہوتے ہوئے بھی ایماندار رہنا ہر کسی کا کام نہیں۔ یہ کام صرف وہ شخص کر سکتا ہے جسے خوفِ خدا ہو‘ اور اس کی سب سے بڑی مثال خاتم النبیینﷺ ہیں جو اپنی زندگی میں ہی جزیرہ نما عرب کے بیشتر علاقے کے حکمران تھے مگر جب وصال فرمایا تو آپﷺ ایک یہودی کے مقروض تھے۔ اپنی زرہ بکتر اس یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی۔ تو ہماری لیڈر شپ‘ جو مسلمان ہے اور اسلامی ملک کی قیادت کرتی ہے‘ ایماندار کیوں نہیں رہی؟ جواب صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں احتساب کا نظام سیاسی مصلحتوں کا غلام رہا ہے۔ ہمارے احتساب میں بھی ایمانداری کا فقدان رہا ہے۔
قائداعظمؒ اور شہیدِ ملت لیاقت علی خان کی قیادت ایمانداری سے بھرپور تھی۔ لیاقت علی خان چار سال سے زیادہ عرصہ وزارتِ عظمیٰ پر فائز رہے اور یاد رہے کہ ان کا اقتدار مشرقی پاکستان تک وسعت رکھتا تھا۔ انڈیا میں واقعی بہت بڑی اسٹیٹ اور محلات چھوڑ کر آئے تھے۔ جب شہادت ہوئی تو مالی لحاظ سے خاصے کمزور تھے۔ بینک اکائونٹ میں جتنا بیلنس نکلا‘ مقصود چپڑاسی کے پاس اس سے زیادہ ہوگا۔ دہلی میں گلِ رعنا جیسا شاندار بنگلہ چھوڑ کر آئے تھے جو آج بھی پاکستانی ہائی کمشنر کی رہائش کے لیے مختص ہے۔ میں نے یہ عالی شان بنگلہ دیکھا ہے۔ پاکستان میں سیاہ و سفید کے مالک رہے لیکن نہ فرانس میں کوئی جائیداد خریدی اور نہ ہی برطانیہ میں فلیٹ بنائے۔ سوئٹزر لینڈ میں پیسے رکھنا تو دور کی بات‘ پاکستانی بینکوں میں بھی کچھ نہ تھا۔
ایمانداری کی یہ روایت کئی سالوں تک چلی۔ ہماری ابتدائی قیادت جذبۂ حب الوطنی سے سرشار تھی۔ چودھری محمد علی بوگرہ وزیراعظم بنے تو ان کی بیگم کو کچھ ایسا مرض لاحق ہوا جس کا علاج پاکستان میں اُس وقت میسر نہیں تھا۔ چودھری صاحب کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں تھے کہ اپنی بیگم کا بیرونِ ملک علاج کرا سکتے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ چودھری صاحب دوسری عالمی جنگ کے دوران ڈائریکٹر جنرل Supplies رہے تھے اور ان کا حلقہ اختیار پورے انڈیا پر محیط تھا‘ مگر وہ بلا کے ایماندار تھے۔ بیگم کے علاج کے لیے حکومتِ پاکستان سے قرضہ لیا اور بعد میں اسے قسطوں میں واپس کیا۔
ایمانداری کا تصور تمام مذاہب اور ہر معاشرے میں ہے۔ ہمسایہ ملک انڈیا کے وزیراعظم گلزاری لال نندا کا نام آپ کو شاید یاد ہوگا۔ ان کی پیدائش سیالکوٹ میں ہوئی‘ ایف سی کالج لاہور میں تعلیم پائی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کیا۔ کافی عرصہ تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے پھر کانگریس میں شامل ہو گئے اور وزیراعظم کے عہدے تک پہنچے۔ اقتدار سے فارغ ہوئے تو اپنا کوئی ذاتی مکان نہیں تھا‘ کرایہ کے گھر میں رہنے لگے۔ ایک مرتبہ کرایہ دینے میں تاخیر ہوئی تو مالک مکان نے سامان باہر پھینک دیا۔ انڈین حکومت نے سرکاری گھر کی آفر دی مگر قبول نہ کی۔ عظیم لوگ ہر معاشرے اور ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔
ایمانداری اور احتساب لازم و ملزوم ہیں۔ جزا اور سزا کا نظام معاشرے میں توازن لاتا ہے۔ اگر سزا کا خوف نہ ہو تو انسان شتر بے مہاربن جائیں۔ بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ قیامت کے روز تمام اعمال کا حساب ہوگا۔ ریاستِ مدینہ میں بھی رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدین نے احتساب کا نظام مضبوط رکھا۔حضرت عمرو بن العاصؓ جلیل القدر صحابی تھے اور اعلیٰ پائے کے عسکری کمانڈر بھی‘ انہوں نے فلسطین کا بیشتر علاقہ فتح کیا مگر وجۂ شہرت مصر کی فتح ٹھہری۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے آپؓ کو مصر کا پہلا گورنر مقرر کیا۔ حضرت عمرؓ کا تمام گورنروں کو حکم تھا کہ ترکی گھوڑے پر سفر نہ کریں‘ ریشمی لباس نہ پہنیں‘ اپنے دروازے عوام کے لیے کھلے رکھیں اور دور دراز علاقوں کا دورہ ضرور کریں۔ یاد رہے کہ ترکی گھوڑا اُس زمانے کی مرسیڈ کار کی مانند تھا۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ تک مصدقہ خبریں آنے لگیں کہ گورنر مصر بہت شاہانہ طرزِ زندگی اپنائے ہوئے ہیں‘ جو ان کی تنخواہ میں ناممکن ہے۔ چنانچہ حضرت عمرو بن العاصؓ کو کہا گیا کہ فوراً مدینہ منورہ آئیں اور معاملات کی وضاحت کریں۔ آپؓ مدینہ آئے اور خلیفہ کو بتایا کہ میں فالتو وقت میں تجارت بھی کرتا ہوں اس لیے مجھے اضافی آمدنی میسر ہے اور یہی میرے بہتر طرزِ زندگی کا راز ہے۔ خلیفۂ وقت کا جواب تھا کہ اتنے بڑے صوبے کے گورنر کے پاس فالتو وقت کیسے ہو سکتا ہے؟ بعد ازاں حضرت عمرو بن العاصؓ کو تجارت سے منع کردیا گیا۔
لارڈ رابرٹ کلائیو کو بجا طور پر برطانیہ کا ہیرو کہا جا سکتا ہے۔ اس نے 1757ء میں میر جعفر کی وفاداری خرید کو نواب سراج الدولہ کو پلاسی کے میدان میں شکست دی اور برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی۔ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ لارڈ کلائیو نے انڈیا کو برٹش حکومت کے زیرِ تسلط لانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لارڈ کلائیو کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے گورنر بنگال بنایا گیا اور پھر یہ مشہور ہوا کہ لارڈ کلائیو نے انڈیا میں بہت ساری ناجائز دولت کمائی ہے۔ اسی دولت اور اپنی پلاسی کی فتح کی وجہ سے ممبر پارلیمنٹ بھی بنا لیکن الزامات نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ اسے دو سال تک ہائوس آف کامنز کے سامنے مشکل سوالات کا سامنا رہا۔ ہائوس آف کامنز نے اسے قومی ہیرو ہونے کے ناتے رہا تو کر دیا لیکن وہ اس ٹرائل سے اتنا زچ ہو چکا تھا کہ اس نے خود کشی کر لی۔
آیئے اب دنیا کے ایماندار ملکوں پر نظر دوڑاتے ہیں۔ دنیا کا ایماندار ترین ملک ڈنمارک ہے۔ دوسرے نمبر پر فن لینڈ اور تیسرے درجے پر نیوزی لینڈ ہے اور یہ سب ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ یہاں کے لوگ خوش و خرم ہیں‘ معیارِ زندگی بلند ہے۔ میرٹ اور انصاف کابول بالا ہے۔ چلیں مغربی اقوام کو چھوڑیں‘ ایشیا میں آ جائیں۔ چین‘ جاپان اور سنگاپور نے خیرہ کن ترقی کی ہے۔ چین میں کرپشن کی سزا موت ہے اور گولی بھی مجرم کو خود مہیا کرنا پڑتی ہے۔ جاپان میں کرپشن ثابت ہو جانے پر لوگ اتنے شرمندہ ہوتے ہیں کہ خود کشی کر لیتے ہیں۔ سنگاپور کی ترقی کا راز بھی ایمانداری اور میرٹ کی بالادستی ہے۔
حال ہی میں ایک موقر انگریزی روزنامہ نے ایک معروف کالم نگار کا مضمون شائع کیا ہے۔ دوسری اطلاعات کے علاوہ کالم نگار نے اپنے مضمون میں جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپنی کچھ عرصہ پہلے کی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ جنرل باجوہ نے انہیں بتایا کہ میں نے میاں شہباز شریف سے پوچھا( یہ بات ان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے کی ہے) کہ یہ منی لانڈرنگ والا قصہ کیا ہے؟ جواب ملا کہ بچوں سے غلطی ہو گئی۔ برادر ملک سعودی عرب میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جس طرح کرپشن سے نپٹا ہے‘ وہ ہمارے سامنے ہے۔ افغانستان سے صدر اشرف غنی ڈالروں کے بھرے بریف کیس لے کر بھاگے اور ان کے ملک کی حالت ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے احتساب کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ورنہ ہماری یہ حالت نہ ہوتی جو آج ہو چکی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں