میرے سامنے ایک مؤقر روزنامہ کا اولین صفحہ ہے۔ اس پر کابینہ کے تازہ ترین اجلاس کی تصویر ہے۔ یہ سپیشل اجلاس کابینہ ارکان کو حکومت کی ایک سالہ کارکردگی سے آگاہ کرنے کیلئے بلایا گیا تھا اور کابینہ اس قدر ضخیم ہو چکی ہے کہ اجلاس وزیراعظم سیکرٹریٹ میں نہ سما سکا اور کنونشن سنٹر میں کرنا پڑا۔ وزیراعظم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کو اس سال کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ جو ملک مشکل سے دیوالیہ ہونے سے بچا ہے‘ اس کی کابینہ حالیہ اضافے کے بعد تیس وزرا اور گیارہ وزرائے مملکت پر مشتمل ہے۔ سپیشل اسسٹنٹ اور مشیر اس کے علاوہ ہیں۔ یاد رہے کہ 1947ء کے بعد بننے والی پاکستان کی پہلی کابینہ صرف چھ وزرا پر مشتمل تھی اور یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد بہت سارے اختیارات صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں۔ اس کشکول بردار ملک کے ممبرانِ اسمبلی نے حال ہی اپنی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ تو ہے نہ یہ سب کھلا تضاد!
وزیراعظم نے کابینہ کو مطلع کیا کہ آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنے کیلئے ہمیں پانچ ارب ڈالر درکار تھے اس رقم کو حاصل کرنے کیلئے دوست ممالک سے درخواست کرنا ضروری تھا؛ چنانچہ میں اور جنرل عاصم منیر یہ مالی امداد لینے گئے۔ ساتھ ہی وزیراعظم نے کہا کہ معیشت اب سنبھل گئی ہے۔ نجانے کیوں مجھے ایوب خان کا دس سالہ ترقی کا جشن یاد آ گیا۔1968ء میں مَیں بہاولپور میں اکنامکس پڑھا رہا تھا۔ صادق پبلک سکول میں میرے ایک انگریز کو لیگ تھے جو برٹش کونسل کی طرف سے انگلش پڑھانے کیلئے تعینات تھے۔ ہم سکول کے رہائشی حصے میں پاس پاس رہتے تھے۔ ایک روز مسٹر وڈورڈ پریشان حالت میں میرے پاس آئے اور کہا کہ میری بیوی غسل خانے میں پھسل کر گر گئی ہے اور اس کے بازو میں سخت تکلیف ہے۔ ہم نے خاتون کو گاڑی میں بٹھایااور بہاول وکٹوریہ ہسپتال چلے گئے۔ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا اور کہا کہ چند روز بازو پلستر میں رہے گا‘ فریکچر جڑ جائے گا۔ البتہ انہوں نے معذرت کی کہ پلستر کا سامان ہمارے پاس نہیں ہے وہ آپ کسی فارمیسی سے لے آیئے۔ میں نے ڈاکٹروں سے پوچھا کہ پلستر تو ایمرجنسی میں روز مرہ کی چیز ہے آپ کے پاس کیوں نہیں؟جواب ملا کہ ہسپتال کیلئے مختص کافی بجٹ دس سالہ جشن ترقی کی تقریبات میں صرف ہو چکا ہے۔ عشرۂ ترقی کے جشن کے چند ماہ بعد ہی ایوب خان کی حکومت ختم ہو گئی۔ایوب خان نے تو دس سال بعد ترقی کا جشن منایا تھا‘ پنجاب گورنمنٹ نے تو سال بعد ہی بھنگڑے ڈالنے شروع کردیے ہیں۔ دوسری بات جو مجھے کھٹکی وہ یہ تھی کہ دوست ممالک سے امداد کی درخواست کرنا آرمی چیف کا کام نہیں۔ یہ کام تو خالصتاً سویلین لیڈر شپ کے کرنے کا ہے۔ ہماری سکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف بڑی سٹرٹیجک جنگ دو صوبوں میں لڑ رہی ہیں‘ یہ جنگ ہم اسی صورت میں جیت سکتے ہیں جب عسکری قیادت اپنی ساری توجہ اس ملک کے دشمنوں کے خلاف مرکوز کرے۔ 2023ء ایک عجیب سال تھا۔ ہماری اکانومی بڑھنے کے بجائے قدرے سکڑ گئی۔ وجہ صاف ظاہر تھی۔ یہ سب کچھ سیاسی عدم استحکام کا شاخسانہ تھا۔ اگر پی ٹی آئی حکومت کو مدت پوری کرنے دی جاتی تو اس بات کا قدرے امکان تھا کہ وہ الیکشن 2023ء ہار جاتی۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد اکانومی کا جو حال ہوا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔2025ء میں بھی اکانومی کی شرحِ نمو آبادی کی شرحِ نمو کے تقریباً برابر ہو گی یعنی فی کس آمدنی میں اضافہ نہیں ہوگا۔2023-24ء پاکستان میں غربت میں اضافہ ہوا جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں غربت میں کمی آئی ہے۔
وزیراعظم نے دو اور اہم باتیں کی ہیں۔ ایک تو یہ کہ دہشت گردی کا خاتمہ کیے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ میں ان سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری افواج تو بہادری سے لڑ رہی ہیں لیکن سیاسی قیادت یکسو نہیں ہے۔ اسلام آباد میں حکومت اپنے اکلوتے مگر بڑے حریف کو زچ کرنے میں لگی رہتی ہے۔ وزیراعظم کو باقاعدگی سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان جا کر مسائل کے حل ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ وہاں کی بے چینی کو کم کرنا چاہیے لیکن ان کی توجہ بٹی ہوئی ہے۔ سپاہی ایک وقت میں ایک ہی فرنٹ پر لڑے تو جنگ جیت سکتا ہے۔ دوسری بات وزیراعظم نے یہ کی کہ سرکاری ملکیت میں چلنے والے اکنامک یونٹ ہر سال ملک کو 850ارب روپے کا ٹیکہ لگا رہے ہیں۔ جناب آپ کو پرابلم کا تو پتا ہے مگر اس کا حل یعنی نجکاری کیوں سست روی کا شکار ہے؟
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرز پر پنجاب حکومت نگہبان پروگرام لائی ہے۔ ہر مستحق خاندان کو دس ہزار روپے دیے جائیں گے۔ مگر ایسے پروگرام غربت کا علاج نہیں‘ غربت اقتصادی ترقی سے کم ہو گی اور ترقی سرمایہ کاری کی مرہونِ منت ہے جو پاکستان کی طرف راغب نہیں ہو رہی کیونکہ دو صوبوں میں شورش ہے۔ مرکز میں مینڈیٹ کی جنگ بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ آئی ایم ایف بھی جاننا چاہتا ہے کہ ہمارا نظامِ عدل بیرونی سرمایہ کاری کو انصاف فراہم کر سکتا ہے یا نہیں۔ آئی ایم ایف کا ایک اور وفد شہرِ اقتدار میں موجود ہے۔ مجھے سکول کے زمانے میں بار بار آنے والے سکول انسپکٹر یاد آ گئے جو ماسٹر صاحب کی موجودگی میں بچوں سے سبق سُنا کرتے تھے۔ چند روز پہلے آئی ایم ایف وفد نے ایف بی آر کے 'لڑکوں‘ کو بلا کر ان سے کہا کہ ہم نے جو سبق یاد کرنے کو کہا تھا‘ وہ سنائو اور ساتھ ہی تمام بیورو کریٹس کو اثاثے بتانے کیلئے ڈیڈ لائن بھی دے دی۔ دوسرے لفظوں میں جو کام سکول کا ہیڈ ماسٹر یعنی وزیراعظم نہیں کرا سکا‘ وہ اب سکول انسپکٹر کرائے گا۔
جہاں مسائل ہوتے ہیں وہاں ان کا حل بھی ہوتا ہے۔ امریکہ کا صدر کہہ رہا ہے کہ ہم قرض اتارنے کیلئے گرین کارڈ کے بجائے گولڈن کارڈ لائیں گے۔ یہ عقلیت پسندی کی مثال ہے۔ امریکہ مقروض ہے تو اس کا معقول حل بھی ٹرمپ انتظامیہ نے تجویز کر دیا ہے۔ لیکن ہم یا تو بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور یا ہر وقت جیل میں بند ایک قیدی کے بارے میں منصوبہ سازی کرتے رہتے ہیں۔ مقروض ملک کے مسائل کا حل ہم کابینہ میں توسیع کرکے کرتے ہیں۔ ڈیفالٹ سے بچنے کی خبریں ہم 2018ء سے سن رہے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس بار بار جانے کا ریکارڈ بھی پاکستان کا ہے۔ ہم مسائل کا حل نکالنے میں سنجیدہ نہیں‘ ہمیں بس اپنے اقتدار کی طوالت درکار ہے۔
امریکہ میں بھی 2020ء کے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگے تھے۔ کیپٹل ہل یعنی پارلیمنٹ پر ٹرمپ کے ساتھیوں نے باقاعدہ حملہ کیا لیکن 2024ء کے الیکشن بہت بہتر ہوئے اورایک ہم ہیں کہ ہر نیا الیکشن دھاندلی کے اعتبار سے پہلے الیکشن کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ اگر ہمیں من حیث القوم اپنی بقا درکار ہے تو اولین کام کشکول کو توڑنا ہوگا۔ موجودہ صورتحال جاری رہی تو ہمارا حال بھی خدا نخواستہ یوکرین والا ہو سکتا ہے۔ عقلیت پسندی کا تقاضا ہے کہ (1) آبادی کے جن کو قابو کیا جائے اور خاص طور پر غریب طبقات پر فیملی پلاننگ کا فوکس ہو کیونکہ یہ لوگ جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور بچے پیدا کر رہے ہیں۔ (2) ہمارا تعلیمی معیار کم ازکم بھارت کے برابر ہو۔ سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ انجینئرنگ اور ریاضی کے مضامین پر خاص توجہ دی جائے۔ (3) تمام ایسے لوگوں کی لسٹ اخباروں میں شائع کی جائے جنہوں نے بینکوں سے بھاری قرضے لیکر معاف کرائے ہیں۔ ایسے لوگوں پر الیکشن لڑنے کی پابندی ہو۔ (4) ہر سال ایسے سو لوگوں کی لسٹ شائع کی جائے جو سب سے زیادہ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ (5) پانی کا حکیمانہ استعمال ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ جنگلات میں اضافہ کریں تاکہ بارشوں میں اضافہ ہو۔ (6) وزیراعظم تواتر سے کوئٹہ اور پشاور جائیں‘ مقامی سیاسی قیادت سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مشورے لیں۔