اقتدار بڑا بے رحم کھیل ہے اور شہرِ اقتدار یعنی اسلام آباد میں یہ کھیل پورے شد و مد سے جاری ہے۔ حریف کو سزا ہو جائے تو مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں۔ آج بھی منہ میٹھے کرائے جا رہے ہیں۔ یادش بخیر جنرل پرویز نے 1999ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا تھا تو حریف جماعت نے تھوک کے حساب سے شیرینی تقسیم کی تھی۔ آج دونوں پارٹیاں مل کر اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں اور مسرت کے شادیانے اس لیے بجائے جا رہے ہیں کہ ہمیں چور ڈاکو کہنے والے کا اپنا دامن بھی صاف نہیں۔
اب جملہ معترضہ سے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ مرکزی شہرِ اقتدار کی غلام گردشوں میں رقصاں لوگوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ فیڈریشن کے سب سے بڑے یونٹ یعنی بلوچستان میں حالات بدتر ہو رہے ہیں۔ مرکز گریز عناصر توانا ہو رہے ہیں۔ کاش اسلام آباد کے حال مست لوگ کوئٹہ‘ گوادر‘ پسنی اور تربت بھی جا کر دیکھیں کہ وہاں کیا حالات ہیں۔ حال ہی میں چند تجربہ کار اور زیرک لوگ بلوچستان سے ہو کر آئے ہیں‘ ان میں کہنہ مشق صحافی بھی تھے اور سابق فوجی افسر بھی۔ واپسی پر سوشل میڈیا کے ذریعے انہوں نے اپنے مشاہدات شیئر کیے ہیں۔ مختصر تجزیہ قارئین کے پیش خدمت ہے۔
گوادر پورٹ اور پروسیسنگ زون ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے۔ پروسیسنگ زون پر سکیورٹی خدشات کی وجہ کام رُکا ہوا ہے۔ پنجاب اور کراچی سے جو لوگ یہاں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے آتے تھے‘ وہ آج کل گوادر میں نظر نہیں آ رہے۔ بلوچ اشرافیہ سلطنتِ عمان کے مسقط اور دیگر شہروں میں سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ اگر دو لاکھ کے قریب بلوچ عوام کو گوادر میں بسایا جائے اور بلوچ سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو یہاں احساسِ وابستگی پیدا ہو سکتا ہے‘ جو ملک کے لیے مثبت ہوگا۔
گوادر پورٹ نیوی کے کنٹرول میں ہے۔ فری اکنامک زون چونکہ ہائی سکیورٹی زون بن گیا ہے لہٰذا مقامی اور باہر کے سرمایہ کار یہاں کم ہی آ رہے ہیں۔ فری اکنامک زون کو بلوچ سرمایہ کاروں کے لیے دلکش بنایا جائے۔ مکران کوسٹ پر ماہی گیری اور سیاحت کو فروغ دیا جائے۔
تربت میں شدت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی اداروں کی حمایت ایسے لوگوں کو حاصل ہے جو اپنے حلقوں میں بھی نہیں جا سکتے۔ ڈاکٹر عبدالمالک جیسے ترقی پسند نیشنلسٹ فرسٹریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ پچھلے الیکشن کی شفافیت پر متعدد سوالات موجود ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بلوچ عوام صوبائی و قومی اسمبلی میں پہنچنے والوں کو اپنے حقیقی نمائندے نہیں سمجھتے۔ حکومتی بیانیے کی عوامی مقبولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ عام ماحول تلخی اور شکوک سے بھرا پڑا ہے۔ ایسے میں ریاست عوامی غیظ و غضب کا نشانہ ہے۔ نوجوان نسل اور بلوچ دانشور محسوس کرتے ہیں کہ کوئی استعماری قوت ان کے صوبے پر قابض ہے۔ وہاں پاکستان سے لاتعلقی کی سی فضا قائم ہو رہی ہے۔
اس تناظر میں اعتماد سازی کا پہلا قدم یہ ہو سکتا ہے کہ فیڈرل سکیورٹی ادارے بیک گراؤنڈ میں رہیں۔ سکیورٹی کے فرائض زیادہ سے زیادہ لوکل پولیس اور لیویز کے حوالے کیے جائیں۔ حال ہی میں سکیورٹی بیریئر کم کیے گئے ہیں اور اس کا مثبت اثر پڑا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور اس ضمن میں بلوچ یکجہتی کمیٹی قابلِ ذکر ہے۔ ان تنظیموں کے ساتھ مکالمہ ضروری ہے۔ بلوچستان کا رقبہ بہت وسیع ہے اور آبادی کم۔ یہاں گوریلا حملے تو ہو سکتے ہیں مگر اس کے علاوہ کچھ ممکن نہیں۔ دوسری جانب ایسے دشوار اور وسیع علاقے میں حکومت کے لیے یورش کے خلاف جنگ آسان نہیں۔
بلوچستان میں کرپشن کی داستانیں عام ہیں۔ عوام میں ریاست سے عدم وابستگی کا احساس موجود ہے۔ فیڈریشن کے دائرے میں رہ کر کام کرنے والے اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہے ہیں۔ ان کے سپورٹر کم ہو رہے ہیں۔ گمشدہ افراد‘ غربت اور بیروزگاری یہاں کے بڑے مسائل ہیں۔ آبادی کے ایک حصے کا گزارہ سمگلنگ پر ہے یا بیرونِ ملک سے آنے والی ترسیلاتِ زر پر۔ معاملات اللہ کے سہارے چل رہے ہیں لیکن وہ لوگ جنہیں اللہ نے عقل استعمال کرنے اور جدوجہد کی تاکید کی ہے‘ وہ بہت ہی کم ہیں‘ نہ اسلام آباد میں ہیں اور نہ ہی بلوچستان میں نظر آتے ہیں۔
انتظامیہ کی نااہلی اور لاپروائی کا واضح ثبوت پسنی میں دیکھنے کو ملا۔ وہاں بندر گاہ میں جہازوں کے لنگر کی جگہ بھل یعنی مٹی اور گارا جمع ہونے سے مسائل ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے فارن فنڈنگ موجود ہے جو تاحال استعمال نہیں ہو سکی۔ بیڈ گورننس بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مکران کوسٹ پر ترقیاتی منصوبوں سے پسنی‘ اورماڑہ اور دیگر ساحلی علاقوں پر روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں۔
میں بلوچستان میں دو مرتبہ مفصل دوروں پر گیا ہوں۔ پہلی مرتبہ نیشنل ڈیفنس کالج کے ساتھ 1992ء میں گیا۔ تب کراچی سے نیوی کے ہوائی جہاز میں گوادر گئے اور وہاں سے کوئٹہ جانا ہوا۔ گورنر سردار گل محمد جوگیزئی سے پورے وفد کی ملاقات ہوئی۔ وزیر اعلیٰ تاج محمد جمالی کے آفس گئے۔ کوئٹہ کے بازاروں میں بغیر کسی سکیورٹی کے گھومے پھرے۔ کور کمانڈر جنرل وحید کاکڑ نے شاندار عشائیے کا اہتمام کیا۔ گوادر میں لوکل افسران نے ترقیاتی منصوبوں پر بریفنگ دی۔ اس وقت بلوچستان خاصا پُرسکون تھا۔
دوسری مرتبہ 2017ء میں بلوچستان جانا ہوا تھا۔ اس وقت میں پلڈاٹ کے وفد کا حصہ تھا۔ وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی صوبے سے باہر تھے۔ گورنر نواب ذوالفقار مگسی نے وفد کے لیے ڈنر کا اہتمام کیا ۔ اس دفعہ کوئٹہ شہر بھی تناؤ کا شکار تھا۔ پُرامن ہزارہ قبیلہ کسی انجانی قوت کے غیظ و غضب کا شکار تھا۔ گورنر مگسی نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ حالات نارمل نہیں ہیں۔ ہمارے وفد میں احمد بلال محبوب‘ جنرل معین الدین حیدر‘ جاوید جبار اور وزیر احمد جوگیزئی شامل تھے۔ ایک شام جوگیزئی صاحب نے اپنی رہائش گاہ پر شاندار عشائیے کا اہتمام کیا۔ بلوچستان کے پختون اور بلوچ‘ دونوں بہت مہمان نواز ہیں لیکن اِس مرتبہ کوئٹہ کے بازاروں میں آزاد گھومنے والا سین نہیں تھا۔ نواب اکبر بگٹی کی وفات کے بعد والا بلوچستان خاصا مضطرب نظر آیا۔ میرے نزدیک نواب اکبر بگٹی کی موت بہت بڑا قومی المیہ تھا جس کے آثار تاحال نظر آ رہے ہیں۔
تنظیمی توسط سے ہی میر حاصل بزنجو مرحوم سے ملاقات ہوئی تھی۔ ہم لاہور اور کراچی اکٹھے گئے۔ بڑی باغ و بہار شخصیت تھے۔ سیاسی معاملات کا ادراک انہیں ورثے میں ملا تھا۔ بلوچستان کے مستقبل کے بارے میں وہ ہمیشہ کہتے کہ ہم پاکستان کے اندر رہتے ہوئے ہی اپنے حقوق کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ایک مرتبہ میں نے پوچھا کہ آپ دیگر گروہوں کے خلاف کیوں ہیں؟ ان کا جواب تھا کہ علیحدگی پسند تحریکوں کو جانی اور مالی اعتبار سے بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ چند ایک کامیاب ہو جاتی ہیں اور باقی ناکام۔ اس ضمن میں وہ بنگلہ دیش اور کشمیرکی مثال دیتے تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل اب بھی ممکن ہے لیکن وہ حل سیاسی ہو گا اور بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہو گا۔ بلوچستان کا دورہ کرنے والے وفدکی رائے بھی یہی ہے۔ بلوچ بھائیوں کے زخموں پر مرہم رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔ (جاری)