پاکستان بنا تو متحدہ ہندوستان کا دارالحکومت نئی دہلی‘ بھارت کو مل گیا۔ پاکستان میں صرف کراچی ہی ایسا شہر تھا جسے عمارتوں کے اعتبار سے مرکزی شہر اقتدار بنایا جا سکتا تھا لیکن کراچی میں بھی کوئی سول سیکرٹریٹ نہیں تھا۔ فیڈرل حکومت کے دفاتر پورے شہر میں بکھرے ہوئے تھے۔ لہٰذا سرکاری فائلیں پورے کراچی کی سیر کرتی تھیں۔ عام تاثر یہ تھا کہ اس زمانے میں کوئی سرکاری راز محفوظ نہ تھا۔
1958ء میں اقتدار کا ہما جنرل ایوب خان کے شانوں پر اُترا تو انہوں نے دو تاج پہنے ہوئے تھے؛ یعنی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی تھے اور آرمی چیف بھی۔ ان کا خیال تھا کہ راولپنڈی اور مرکزی شہرِ اقتدار میں اتنا زیادہ فاصلہ نہیں ہونا چاہیے اور پھر ایسی جگہ کا انتخاب کیا گیا جو راولپنڈی اور ایوب خان کے آبائی علاقے کے درمیان میں تھی۔ یہ انتخاب ایسا برا بھی نہیں تھا۔ آب وہوا اچھی تھی‘ مارگلہ کی پہاڑیاں بالکل ساتھ تھیں۔ یونان کے عالمی شہرت یافتہ معمار اور ٹائون پلانر ڈوکسیاڈس (Apostolou Doxiadis) کو اسلام آباد کا ماسٹر پلان بنانے کا کام تفویض کیا گیا۔
ڈوکسیاڈس اپنے تاریخی مگر گنجان آباد شہر ایتنھز کے مسائل سے خوب واقف تھا۔ لہٰذا شہر کو ایسے پلان کیا گیا کہ سڑکیں کشادہ ہوں۔ گرین ایریا وسیع ہو۔ پہاڑ کے دامن میں تین بڑے پارک بنائے جائیں۔ ہر سیکٹر بذاتِ خود ایک چھوٹا سا شہر ہو جس کا کمرشل مرکز آبادی سے الگ ہو اورضروریاتِ زندگی خریدنے کے لیے علاقہ مکینوں کو دور نہ جانا پڑے۔ ڈوکسیاڈس کے نقشے کے ساتھ بعد میں متعدد بار کھلواڑ ہوا اور آج کا اسلام آباد وہ نہیں ہے جو ڈوکسیاڈس کے ذہن میں تھا۔
ماسٹر پلان میں شہر میں تین وسیع وعریض پارک تھے‘ جو سارے مارگلہ کے دامن میں تھے آج جہاں ای سیون سیکٹر ہے‘ یہ دراصل ایک بڑا پارک تھا جو بھٹو صاحب نے اپنے وزیروں اور مشیروں میں بانٹ دیا۔ باقی ماندہ پلاٹ جنرل ضیا الحق نے تقسیم کیے۔ دوسرا بڑا پارک آج کے ای 10 اور ڈی 10 کے آدھے آدھے رقبے کو ملا کر بنانا تھا۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں ہی فیصلہ ہوا کہ یہاں ایک عسکری ادارے کا ہیڈ کواٹر بنے گا۔ تیسرا بڑا پارک سی 13 میں بننا تھا مگر یہ فیصلہ بھی تبدیل کر دیا گیا۔ غالباً رفیع رضا اس وقت سی ڈی اے کے متعلقہ وزیر تھے اور یہ فیصلے ان سے بالا بالا ہوئے تھے۔ وہ اس بات پر بہت اَپ سیٹ تھے کہ اسلام آباد کو تینوں پارکوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے سی ڈی اے کا ایمرجنسی اجلاس بلایا اور کہا کہ کسی بھی اچھے شہر کا بڑے پارک کے بغیر تصور ہی ممکن نہیں۔ کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ ہوا کہ ایف نائن کے رہائشی سیکٹر کو پارک میں تبدیل کر دیا جائے۔ ایف نائن پارک کو ڈویلپ کرنے کے لیے جاپانی ادارے جائیکا (Jaica) نے ٹیکنیکل سپورٹ فراہم کی۔ جاپانی ماہر Prof Harada نے خاصاکام کیا۔ پارک مکمل ہو گیا تو 1992ء میں مسلم لیگی حکومت نے اس کا نام کیپٹل پارک رکھا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو نام تبدیل کر کے فاطمہ جناح پارک رکھ دیا گیا اور تادم تحریر یہی نام ہے۔
پوری دنیا میں پبلک پارک کا تصور یہی ہے کہ ایسے مقامات عوام کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص اسلام آباد میں کروڑوں روپے کا پلاٹ خرید کر گھر بناتا ہے تو اس زمین کی قیمت میں پارک‘ سڑکیں اور دیگر سہولتیں شامل ہوتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے فاطمہ جناح پارک میں سی ڈی اے نے گاڑیوں کی پارکنگ فیس مقرر کر دی تھی۔ کسی نے کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی کہ پارک عوام کا ہے لہٰذا انہیں بغیر کسی چارج کے داخلے کا حق ہونا چاہیے۔ اعلیٰ عدلیہ نے سی ڈی اے کے خلاف فیصلہ سنایا اور اسے گاڑیوں پر عائد کردہ پارکنگ فیس کا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ یہ معلوم نہیں کہ کب اور کیسے فیصلہ ہوا کہ پارک میں ایک بائولنگ کلب (Bowling Club) بنا دیا جائے‘ یہ پبلک پارک کی روح کے سراسر خلاف ہے۔ لندن کا ہائیڈ پارک ہو یا نیو یورک کا سینٹرل پارک‘ وہاں آپ کو منافع کی غرض سے بنی ہوئی کوئی کمرشل بلڈنگ نہیں ملے گی۔ اس لیے کہ پارک کا مقصد بزنس کرنا نہیں ہے۔ یہ تو عوام کی سیر وتفریح کے لیے وقف مقامات ہوتے ہیں۔ فاطمہ جناح پارک میں واقع یہ بائولنگ کلب پکی عمارت ہے‘ جو منافع حاصل کرنے کے لیے بنائی گئی تھی اور آج بھی یہاں داخلہ فیس لی جاتی ہے جو سرمایہ کار کی جیب میں جاتی ہے۔
کوئی دوعشرے قبل اسلام آباد کے ایک معروف صحافی زاہد ملک مرحوم نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ نظریہ پاکستان کی ترویج کے لیے پارک میں ایک عمارت تعمیر کی جائے۔ میں نے یہ وسیع وعریض عمارت دیکھی ہے‘ بلکہ یہاں علامہ اقبال کے یوم ولادت پر تقریر بھی کی تھی۔ ملک صاحب فعال شخصیت تھے‘ چند سال پہلے ان کا انتقال ہوا۔ اب اس عمارت میں خاصے کم فنکشن ہوتے ہیں۔ یہ عمارت کسی اور جگہ بھی بن سکتی تھی۔ نظریہ پاکستان کی ترویج پاکستان کے کسی کونے میں بھی ہو سکتی ہے۔
پارک میں دو تین ٹینس کورٹ بھی ہیں۔ میں یہاں ٹینس کھیل چکا ہوں۔ یہاں داخلہ مفت ہے اور یہ پارک اور پبلک مقامات کی روح کے عین مطابق ہے۔ ویسے بھی کھیل اور ورزش مثبت سرگرمیاں ہیں۔ پارک میں ایک خیراتی ادارے کا دفتر بھی ہے۔ یہ ادارہ تھیلیسیمیا کے حوالے سے بڑی قومی خدمت کر رہا ہے لیکن اس کا دفتر بھی کسی اور جگہ ہوتا تو بہتر ہوتا۔ چندہ تو کسی جگہ بھی وصول کیا جا سکتا ہے۔
کلب کی مشرقی سائیڈ پر ایک اور بڑی عمارت ہے۔ یہ عمارت کیوں بنائی گئی‘ کس کے لیے بنائی گئی یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ بہرحال یہ پاکستانی عوام کے لیے نہیں بنی تھی۔ کورونا کے دنوں میں یہاں حفاظتی ٹیکے لگتے تھے۔ سال میں ایک آدھ بار ادبی فیسٹیول ہو جاتا ہے۔ کوئی دوعشرے پہلے کہا گیا کہ اس عمارت کو سٹیزن کلب کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ معاملہ سپریم کورٹ تک گیا اور فیصلہ آیا کہ پبلک پارک میں کلب نہیں بن سکتا۔ چنانچہ گزشتہ دو عشروں سے یہ عمارت تقریباً غیر استعمال شدہ پڑی ہے۔
پچھلے ماہ ایک موقر انگریزی جریدے نے خبر لگائی کہ سٹیزن کلب کو فائیو سٹار ہوٹل بنایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد یہ بھی سنا گیا کہ اس عمارت کے اردگرد بہت سارے درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ اس سے یہ شک مزید تقویت پکڑ گیا کہ پارک کا ایک اچھا خاصا حصہ ہوٹل انڈسٹری ہڑپ کر جائے گی۔ ہوٹل انڈسٹری سو فیصد بزنس ہے‘ جو پبلک پارک میں نہیں ہونی چاہیے۔ لندن کے ہائیڈ پارک میں اگر برطانوی حکومت سوشل یا کوئی اورکمرشل بلڈنگ بنانے کی اجازت دے دے تو اسے اربوں پائونڈ مل سکتے ہیں لیکن وہاں کی حکومت ایسا سوچ بھی نہیں سکتی کیونکہ وہاں قانون کی حکومت ہے‘ میڈیا اور عدلیہ دونوں آزاد ہیں۔ لندن میں شاہی محل کے بالکل سامنے سینٹ جیمز پارک ہے‘ یہ گھومنے پھرنے کے لیے خوبصورت اور وسیع جگہ ہے جہاں انگلش عوام صدیوں سے سیر وتفریح کے لیے آ رہے ہیں۔ اٹھارہویں صدی کی بات ہے کہ ملکہ کیرولین (Queen Caroline) بکنگھم پیلس کے باہر کھڑی پارک کا نظارہ کر رہی تھیں کہ وزیراعظم سر رابرٹ والپول (Robert Walpole) کا وہاں سے گزر ہوا۔ ملکہ نے وزیراعظم سے پوچھا کہ اگر پارک کو شاہی محل میں شامل کر لیا جائے تو کیسا رہے گا؟ وزیراعظم کا جواب تھا کہ اس سے آپ کے خاندان کا اقتدار خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس جرأت مند لیڈر کو معلوم تھا کہ عوام اپنی مشترکہ ملکیت یعنی سینٹ جیمز پارک کے بارے میں کتنے حساس ہیں۔ ادھر اسلام آباد کے اکلوتے بڑے پارک کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا۔ اگر یہ سلسلہ روکا نہ گیا تو اسلام آباد بھی لاہورکی طرح آلودگی میں سرفہرست ہو جائے گا۔