"JDC" (space) message & send to 7575

مڈل ایسٹ کا بدلا ہوا منظر اورپاکستان

ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے مڈل ایسٹ بہت بدل گیا ہے۔ اسرائیل ایک بڑی علاقائی طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ غزہ میں بے شمار مظالم کے بعد امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات میں نئی گرمجوشی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم جنہیں انٹرنیشنل کریمنل کورٹ مجرم قرار دے چکی ہے‘ آج کل امریکہ کے دورے پر ہیں۔
روس کا مڈل ایسٹ میں عسکری وجود ختم ہو سکتا ہے۔ امریکہ نے شام پر لگائی گئی اقتصادی پابندیوں کو اٹھانے کے عمل کو روس کے عسکری وجود کو ختم کرنے سے مشروط کر دیا ہے۔ ایران کی تشکیل کردہ قوسِ مزاحمت‘ جو ایران سے عراق اور شام سے ہوتی ہوئی جنوبی لبنان تک جاتی تھی‘ اب فعال نہیں رہی۔ شام اور ایران کے تعلقات میں شدید سرد مہری دیکھنے میں آ رہی ہے۔ شام کے نئے لیڈر احمد الشرع نے اپنے بیرونِ ملک اولین دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کیا ہے۔ ترکیہ کی علاقائی اہمیت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ شام کی نئی قیادت نے روس سے مطالبہ کیا ہے کہ سابق صدر بشارالاسد کو اس کے حوالے کرے۔ لہٰذا سمجھ لیں کہ روس اور شام کے مراسم اب پہلے جیسے نہیں رہیں گے۔
عرب نیشنلزم تو کبھی کا کافور ہو چکا۔ نظریاتی عصبیت اور دھڑے بندی بھی کمزور پڑ گئی ہے۔1969ء میں مسجد اقصیٰ کو آگ لگائی گئی تو تمام مسلم ممالک اکٹھے ہوئے اور اسلامی تعاون تنظیم یعنی او آئی سی تشکیل پائی۔ اس مرتبہ اسلامی حمیت اور یکجہتی بھی کمزور نظر آئی۔ مسلم عوام سے زیادہ مغربی ممالک میں لوگ فلسطینی رومال (کوفیہ) کندھوں پر سجائے سڑکوں پر نکلے اور بار بار نکلے۔
گزشتہ چند سالوں سے عرب ممالک اور انڈیا کے تعلقات میں خاصی گرمجوشی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو عرب ممالک کی حکومتوں نے پانچ اعلیٰ ترین ایوارڈز دیے ہیں۔ سعودی عرب کی حکومت نے شاہ عبدالعزیز ایوارڈ دیا ہے۔ کویت کی حکومت نے مبارک الکبیر ایوارڈ سے نوازا ہے۔ یو اے ای‘ بحرین اور فلسطین کی حکومتوں نے بھی اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا ہے۔ تو کیا عرب حکمران مودی کی مسلم دشمن پالیسیوں سے ناواقف ہیں؟ قطعاً ایسا نہیں ہے۔ بین الاقوامی تعلقات اب سرا سر قومی مفادات کی بنا پر چلتے ہیں۔ تجارت اور سرمایہ کاری کے اعتبار سے بھارت خلیجی ممالک کے لیے دلکش ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اکتوبر2023ء میں غزہ کی جنگ شروع ہوئی تو بھارت اسرائیل کے حامیوں میں شامل تھا۔
بین الاقوامی سطح پر بھی اخلاقیات روبہ تنزل نظر آ رہی ہیں۔ 1956ء میں برطانیہ‘ فرانس اور اسرائیل نے مل کر مصر پر ہوائی حملے کیے تھے۔ جمال عبدالناصر نے سویز کنال کو قومیانے کا اعلان کیا ہی تھا کہ یہ تینوں ملک مصر پر چڑھ دوڑے تھے مگر اُس وقت امریکہ نے اس جارحیت کی کھل کر مخالفت کی تھی۔آج امریکہ اسرائیل کے غزہ‘ مغربی کنارے اور جنوبی لبنان پر بے پناہ مظالم کو نظرانداز کرکے اُس کے ساتھ کھڑا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے عوام میں فلسطینی عوام کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے ہیں لیکن صدر ٹرمپ کو اس بات کی کوئی پروا نہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اکتوبر 2023ء میں غزہ کی جنگ شروع ہوئی تو صدر بائیڈن فوراً اسرائیل گئے اور بیان دیا:I am a Zionist‘ یعنی میں صہیونی ہوں۔ صدر ٹرمپ دو قدم مزید آگے نکلے۔ صدر بائیڈن نے جنین مہاجر کیمپ پر حملوں کی وجہ سے بعض یہودی تنظیموں پر اقتصادی پابندیاں لگا دی تھیں‘ صدر ٹرمپ نے وہ پابندیاں اٹھا لی ہیں۔ یہ بات بین الاقوامی طور پر مسلمہ ہے کہ مغربی کنارہ متنازع علاقہ ہے اور یو این کی قرارداد242 کے تحت اسرائیل نے یہ علاقہ خالی کرنا ہے‘ لیکن وہاں یہودی بستیاں بنا کر سات لاکھ لوگ بسا دیے گئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی اقوام متحدہ کے لیے نامزد سفیر Elise Stefanik نے بیان دیا ہے کہ عہد نامہ قدیم یعنی Old Testament کی رُو سے مغربی کنارہ یہودیوں کا ہے۔ دوسری جانب یو این سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کہتے ہیں کہ مغربی کنارے پر قبضے کی کوشش بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔
اب جائزہ لیتے ہیں اس بات کا کہ مڈل ایسٹ کے بدلے ہوئے منظرنامے میں پاکستان کے لیے کیا چیلنج آ سکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ 'ابراہیم اکارڈز‘ کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اپنی پہلی ٹرم میں صدر ٹرمپ نے اسرائیل اور دو خلیجی ممالک میں سفارتی تعلقات استوار کرائے تھے اور انہیں اس بات پر خاصا فخر تھا۔ اس مرتبہ چند مزید خلیجی اور مسلم ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان پر بھی پریشر آ سکتا ہے۔ میرے خیال میں پاکستان کا ردعمل یہ ہونا چاہیے کہ ہم اہم مسلم ممالک سے مشورہ کرکے کوئی مشترکہ مؤقف اختیار کرنے کی کوشش کریں اور استفسار کریں کہ اگر چند اہم مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیں تو کیا اسرائیل دو ریاستی حل کے لیے تیار ہو جائے گا۔ فلسطین کے مسئلے کے عادلانہ حل کے بغیر کوئی بھی پاکستانی حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی کیونکہ عوامی ردعمل شدید ہوگا۔ غزہ کی جنگ کے بعد اکثر مسلم ممالک کا یہی مؤقف ہے کہ عادلانہ فیصلہ فلسطینی حقِ خود ارادیت کو تسلیم کرکے ہی ہو سکتا ہے۔
ایران میں حکومت بدلنے کی مہم جوئی بھی ہو سکتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہے کہ ماضی قریب میں متعدد ایرانی شخصیات پاکستان کے دورے پر آئی ہیں۔ اگر مغربی ممالک کو معلومات ملیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے قریب ہے تو ایران پر حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں پاکستان کو ایران کی مکمل سفارتی‘ سیاسی اور اخلاقی مدد کرنی چاہیے۔ میرا اندازہ ہے کہ ایک‘ دو سال میں امریکہ مڈل ایسٹ سے اپنی کچھ افواج نکال لے گا۔ اس کی ایک وجہ تو اسرائیل کی نئی خود اعتمادی ہے اور دوسرا‘ امریکہ کا انحصار اب مڈل ایسٹ کے تیل پر خاصا کم ہے۔ اب امریکہ کا اولین ہدف چین کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے۔ پچھلے دنوں میرے ایک دوست جو مشرقِ وسطیٰ میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں‘ کہنے لگے کہ پاکستان کے لیے اچھا موقع ہے کہ شام کی تباہ شدہ مسلح افواج کی تربیت کرے۔ میں نے ان کے اس آئیڈیا کی مخالفت کی کیونکہ ایسا اقدام اسرائیل دشمنی کے طور پر دیکھا جائے گا۔پھر وہ صاحب کہنے لگے کہ غزہ میں پاکستانی ہسپتال بنانے سے ہمیں بے پناہ خیر سگالی ملے گی۔ میرا جواب تھا: غزہ آنے جانے کے لیے بھی اسرائیلی اجازت ضروری ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو اپنی سکیورٹی کونسل کی ممبر شپ کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے اور فلسطینی حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہنا چاہیے۔ نیزنیویارک میں عرب لیگ کے نمائندے سے ہمارا اپنے سفیر کے ذریعے مسلسل رابطہ رہنا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں