بلوچستان میں کئی کالعدم گروپ اور تنظیمیں ہیں‘ ان میں بلوچ ریپبلکن پارٹی‘ بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی یعنی بی ایل اے شامل ہیں۔ یہ وہ گروہ ہیں جو ہتھیار بردار ہیں‘ اس کے علاوہ ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو پُرامن طریقے سے بلوچستان کے حوالے سے انسانی حقوق کی بات کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کی مالی معاونت کون کرتا ہے‘ انہیں ہتھیار کون فراہم کرتا ہے‘ یہ سمجھنا مشکل نہیں۔ اور جو تنظیمیں پُرامن طریقے سے بلوچ حقوق کی بات کرتی ہیں انہیں کسی صورت بھی دہشت گرد نہیں کہا جا سکتا۔
پچھلے مہینے کوئٹہ میں کالعدم بی ایل اے کے ایک کمانڈر نجیب اللہ عرف درویش نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے ساتھی کے ساتھ مل کر امن کا راستہ اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ نجیب اللہ نے اس پریس کانفرنس میں ایک اہم جملہ بولا کہ ''خارجی ممالک کے ایجنٹ ہماری آزادی میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے جتنی وہ پاکستان کے عدم استحکام میں رکھتے ہیں‘‘ یعنی غیر ملکی ایجنسیوں کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ بلوچستان کی 'آزادی ‘کے بیانیے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہاں بدامنی اور بے یقینی کی فضا قائم رہے‘ تاکہ بیرونی سرمایہ کاری نہ آئے اور پاکستان خوشحال نہ ہو سکے‘ لہٰذا سی پیک کے منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکانا دشمن کی سٹریٹجی کا پہلا اہم قدم ہے۔اس کالم کے پہلے حصے میں مَیں نے میر حاصل بزنجو مرحوم کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے بلوچ حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھنا چاہتے تھے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ علیحدگی کی تحریکوں کو بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور پھر بھی کامیابی یقینی نہیں ہوتی۔ بلوچستان وسیع وعریض رقبے اور دشوار گزار راستوں والا صوبہ ہے‘ یہاں کوئی نتیجہ خیز جنگ لڑنا طرفین کے لیے مشکل ہے۔ بلوچستان کی بیشتر سرحد ایران کے ساتھ ملتی ہے۔ ایران کبھی بھی پاکستانی بلوچستان کی علیحدگی کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گا کیونکہ پھر ایرانی بلوچستان میں بھی علیحدگی کی تحریک زور پکڑے گی اور بات گریٹر بلوچستان تک جائے گی۔
مکران ہائی وے بننے کے بعد بلوچستان کے ساحلی علاقے کی اکانومی کراچی سے منسلک ہو گئی ہے۔ گوادر‘ پسنی اور اورماڑہ میں پکڑی جانے والی مچھلی اب کراچی میں فروخت ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں مقیم بلوچوں کے پچاس فیصد بلوچستان میں رہتے ہیں جبکہ چالیس فیصد سندھ اور دس فیصد پنجاب میں رہائش پذیر ہیں۔ زرداری‘ کھوسہ‘ لغاری اور لاشاری‘ یہ سب بلوچ قبیلے ہیں۔ بلوچستان کی علیحدگی کے اثرات سندھ‘ پنجاب بلکہ خلیجی ریاستوں تک محسوس ہوں گے۔بلوچستان کی نصف آبادی پشتونوں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ کوہِ سلیمان کے علاقے میں رہتے ہیں۔ یہاں بی ایل اے وغیرہ کا وجود نہیں۔ اگر کبھی کبھار دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو وہ ٹی ٹی پی سے منسوب ہوتا ہے۔ بی ایل اے اور اسی طور طریقے والی دیگر تنظیمیں بالعموم سیکولر ہیں جبکہ ٹی ٹی پی ایک انتہا پسند گروہ ہے۔ گو کہ دہشت گردی کے واقعات میں اکثر یہ دونوں ملوث پائے جاتے ہیں لیکن دونوں گروہوں کے مقاصد مختلف ہیں۔
کمزور گورننس اس وقت بلوچستان کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ کمزور گورننس اور کرپشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پاک ایران سرحد پر تمام وفاقی اداروں کے نمائندے تشریف رکھتے ہیں لیکن تیل پھر بھی سمگل ہو رہا ہے۔ اس سے سرکاری خزانے کو نہ صرف اربوں کا نقصان ہو تا ہے بلکہ یہ تیل دھواں بھی زیادہ چھوڑتا ہے اور گاڑیوں کے انجن بھی خراب کرتا ہے۔ یہ سستا مگر مضر قسم کا تیل اسلام آباد میں بھی چھوٹے کھوکھوں سے بیچا جا رہا ہے اور اسلام آباد کی انتظامیہ اس امر سے جان بوجھ کر اغماض برت رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گڈ گورننس سارے ملک سے غائب ہے لیکن بلوچستان میں تو گورننس کا پیندا ہی نکل گیا ہے۔ بلوچستان کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ صوبے کو ملنے والے وسائل اشرافیہ تک محدود رہتے ہیں اور یہ عام آدمی تک کم کم ہی پہنچتے ہیں۔ 1992ء میں گورنر گل محمد جوگیزئی نے ہمارے وفد کو بتایا تھا کہ صوبے کے چند وزیر دیکھتے ہی دیکھتے بہت امیر ہو گئے۔ 2011ء میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کے حصے میں آنے والے وسائل خاصے بڑھ گئے تو 2014ء میں بلوچستان اسمبلی کے ممبران نے اپنی ماہانہ تنخواہ چار لاکھ چالیس ہزار کر لی۔ یاد رہے کہ اُس وقت پنجاب اسمبلی کے ممبران کا مشاہرہ ایک لاکھ 76ہزار روپے تھا اور یہ 2024ء تک چلتا رہا۔
اگر گورننس کا جائزہ لیا جائے تو لاء اینڈ آرڈر یعنی امن وامان خالصتاً صوبائی معاملہ ہے لیکن کیا صوبائی حکومت یا اس کی ضلعی نمائندہ یعنی ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن شہریوں کو تحفظ فراہم کر سکے ہیں؟ جواب نفی میں ہے۔ کیا بلوچستان کے پولیس اور لیویز کے نظام کو اصلاحات کی ضرورت ہے؟ جواب اثبات میں ہے۔ جب تک بلوچستان پولیس اور لیویز کو مضبوط فورس نہیں بنایا جاتا‘ طول و عرض میں حکومت کی رِٹ قائم نہیں ہو گی اور یہ کام منصوبہ بندی اور یکسوئی سے ہونا چاہیے۔ ڈنگ ٹپائو پالیسیوں کے منفی اثرات ہمارے سامنے ہیں۔ اسی طرح سرکاری اور پرائیویٹ کانوں کو تحفظ فراہم کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہرنائی کے ضلع میں کوئلہ کی متعدد کانیں ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اکثر کانوں کے مالک اپنے مزدوروں اور کوئلہ کی آمدورفت کے تحفظ کے لیے انتہاپسند گروہوں سے رجوع کرنے اور اس تحفظ کے عوض انہیں بھاری رقوم ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ اس طرح سے یہ انتہا پسند گروہ مزید مضبوط ہو رہے ہیں‘ جو ان کی بات نہ مانے اس کی جان خطرے میں ہوتی ہے۔ پچھلے سال پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (PMDC) کے منیجر کو قتل کر دیا گیا تھا۔
سلطنتِ عمان میں اپنے قیام کے دوران میں نے دیکھا کہ بلوچ لوگ بہادر اور امن پسند ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں جب جنوبی عمان میں بائیں بازو کی بغاوت پھیلی تو اسے بلوچ فوجیوں کی مدد سے کنٹرول کیا گیا۔ متعدد بلوچ سلطنتِ عمان کی آرمی اور پولیس کا حصہ ہیں۔ مجھے عمان کے آرمی چیف نے خود بتایا کہ بلوچ سولجر مورچے میں بھی کھڑا ہو کر لڑتا ہے۔ مجھے اس بات پر فخر محسوس ہوا۔ بلوچستان کے لوگ بہادر ہونے کے علاوہ غیور اور حساس بھی ہیں۔ میرے ایک بلوچ دوست آیت اللہ درانی مرحوم کہا کرتے تھے کہ آپ بلوچ کو احترام دیں وہ آپ کو دگنا احترام دے گا۔ آپ اس کی ٹھوڑی یا داڑھی کو ہاتھ لگا دیں تو وہ آپ کی ہر بات ماننے کو تیار ہو گا۔ بلوچ نفسیات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
بلوچستان کے تمام ترقیاتی منصوبوں کا فوکس وہاں کے عوام پر ہونا چاہیے۔ ضلع چاغی معدنی دولت سے مالا مال ہے‘ وہاں معدنیات کی تعلیم کے لیے اعلیٰ پائے کا ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ بننا چاہیے۔ وہاں سے فارغ التحصیل ذہین طلبہ وطالبات کو بیرونِ ملک اعلیٰ تربیت کے لیے بھیجا جائے۔ عوام کی حالت بہتر ہو گی تو انتہا پسندی دم توڑنے لگے گی۔ جگہ جگہ بیریئر لگا کر ایف سی کو سکیورٹی ڈیوٹی پر کھڑا نہ کریں۔ فیڈرل سکیورٹی اداروں کو بیک گرائونڈ میں رہنے دیں۔ یہ کام لوکل پولیس اور لیویز کو کرنے دیں۔ ایسا ماحول بنائیں کہ ڈاکٹر عبدالمالک اور اختر مینگل جیسے لیڈروں کے لیے سیاسی سپیس پیدا ہو۔ ان جیسے لیڈروں کی جڑیں عوام میں ہیں۔ آزادانہ الیکشن‘ قانون کی حکمرانی اور عوام دوست پالیسیوں سے بلوچستان کے زخم مندمل ہو سکتے ہیں۔