"JDC" (space) message & send to 7575

بشار الاسد کے بعد کا مڈل ایسٹ

ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں مصر کی رضا مندی کے بغیر جنگ نہیں ہو سکتی اور شام کی مرضی کے بغیر امن نہیں آ سکتا۔ گویا 1978ء تک دونوں ممالک اسرائیل کے خلاف مضبوط قلعے تھے۔ کیمپ ڈیوڈ میں مصر کو اقتصادی امداد کے عوض رام کر لیا گیا اور شام اب اس قابل نہیں رہا کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کر سکے۔ لہٰذا اسرائیل آج مڈل ایسٹ کی بڑی طاقت کے طور پر اُبھرا ہے۔
امریکہ اور اسرائیل ایک زمانے سے یک جان دو قالب ہیں۔ امریکہ کے مڈل ایسٹ میں دو بڑے اہداف ہیں: اولاً تیل کی باقاعدگی سے ترسیل اور دوم اسرائیل کی سلامتی۔ تیل کی آسان ترسیل کے لیے ضروری ہے کہ آبنائے ہرمز‘ خلیج عدن اور سوئزکینال کے آس پاس کشیدگی نہ ہو اور بحری جہاز کسی خطرے کے بغیر رواں دواں رہیں۔ تیل کی تجارت کے اس رُوٹ کو غزہ کی جنگ کے بعد خطرات لاحق ہو گئے تھے۔ یمن سے حوثی باغی باب المندب میں آئل ٹینکرز پر حملے کرتے رہے۔ نتیجتاً آئل ٹینکرز جنوبی افریقہ کے پرانے روٹ سے آنے جانے لگے۔ جہازوں کے کرائے بھی بڑھ گئے اور انشورنس کا پریمیم بھی‘ اور تیل کے نرخ اوپر چلے گئے۔
شام میں بشار الاسد کی حکومت کا یکا یک تحلیل ہو جانا کسی جیو پولیٹکل زلزلے سے کم نہیں۔ خطے میں طاقت کا توازن بگڑ گیا ہے۔ آج کا شام اسرائیل کے سامنے بے حد کمزور ہے۔ اس عدم توازن کو اگر کوئی ٹھیک کر سکتا ہے تو وہ ہے ترکیہ‘ جس کے علاقائی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔ اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شام کے بعد ایران کی باری ہے اور اس کے بعد پاکستان کی۔ مجھے اس تجزیے سے اتفاق نہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایران اب پہلے سے کمزور ہے اور ضرورت سے زیادہ کمزور ایران مغرب کو سوٹ نہیں کرتا۔ اگر ایران بہت کمزور ہو جائے تو مغربی ممالک کے ہتھیاروں کی خلیجی ممالک میں مانگ کم ہو جائے گی۔ دوسرا‘ ایران کے ساتھ کسی لمبی جنگ کے نتیجے میں تیل کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گی۔ ایران پر حملہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے اگر وہ اپنی ایٹمی صلاحیت بڑھانے پر مُصر رہے۔
دمشق میں نئی حکومت کے خلاف دو مقامات پر کچھ مزاحمت ہوئی ہے لیکن عمومی طور پر اس کی قبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ کچھ مزاحمت طرطوس کے علاقے میں ہوئی‘ جو نُصیری علوی آبادی کا گڑھ ہے۔ نئی حکومت نے وہاں بشار الاسد حکومت کے ایک سینئر افسر کو گرفتار کرنا چاہا تھا‘ جو اپنے مظالم کی وجہ سے بے حد بدنام تھا۔ علوی آبادی کی اکثریت اسد فیملی حکومت کی حامی تھی۔ نصف صدی سے زائد ان لوگوں نے اقتدار کے خوب مزے لوٹے۔ شامی اسٹیبلشمنٹ اور حساس اداروں میں یہ لوگ بڑی تعداد میں موجود تھے‘ گو کہ بشار الاسد کی حکومت ایران کے بہت قریب تھی لیکن علوی اثنا عشری شیعہ سے مختلف شناخت رکھتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ دمشق کی نئی قیادت نے ابھی تک ایران کو اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کی اجازت نہیں دی۔
اب بات ہو جائے نئے شامی لیڈر کے بارے میں‘ جس کا اصل نام احمد الشرع ہے۔ اس کا تحریکی نام ابو محمد الجولانی ہے۔ یہ ہیئۃ تحریر الشام کا لیڈر رہا ہے۔ ایک زمانے میں یہ القاعدہ اور پھر داعش کا ممبر بھی رہا۔ امریکہ نے ماضی میں احمد الشرع کو دہشت گرد ڈکلیئر کیا تھا اور اس کے سر کی قیمت بھی مقرر کی تھی۔ اس بات پر بھی اب غور کیا جائے کہ یہ شخص اب امریکہ کے لیے قابلِ قبول ہے۔ اسی وجہ سے بعض مبصر یہ کہہ رہے ہیں کہ القاعدہ اور داعش‘ دراصل دونوں مغربی ممالک کی تخلیق تھیں۔ ہدف دمشق اور بغداد میں اسرائیل مخالف حکومتوں کو کمزور کرنا تھا۔ یہ نظریہ کتنا درست ہے یا کتنا غلط‘ اس کا کھوج لگانے میں وقت لگے گا۔ لیکن داعش کے پُراسرار لیڈر ابو بکر بغدادی کے مقابلے میں موجودہ شامی لیڈر شپ روشن خیال ہے اور موقع شناس بھی۔ انہوں نے آتے ہی بیان دیا کہ ہم تمام مسالک کو ساتھ لے کر چلیں گے اور یہ کہ شام کی سرزمین سے اسرائیل پر حملہ نہیں ہوگا۔ اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے علاقے کے تمام اہم ممالک کے وفود کی ایک ایک کرکے پذیرائی کی۔
نئی حکومت کے اکثر لوگ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے پروفیشنل لوگ ہیں۔ نئے وزیراعظم محمد البشیر پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں۔ شامی اپوزیشن کی شمالی شہر ادلب والی حکومت کامیابی سے چلا چکے ہیں۔ شمال میں واقع ادلب شہر اور اس کے ارد گرد کا علاقہ کئی سال تک اپوزیشن کے کنٹرول میں رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری حکومت عارضی ہے‘ ہم آئین بنائیں گے‘ الیکشن کرائیں گے اور چلے جائیں گے۔ اس وعدے میں کتنی صداقت ہے‘ یہ وقت ہی بتائے گا۔
میں نے ایک سابقہ کالم میں لکھا تھا کہ شام میں کوئی بھی آنے والی حکومت اسرائیل مخالف ہو گی‘ اور میں اب بھی اس مؤقف پر قائم ہوں۔ اس وقت جدید شامی حکومت بہت کمزور ہے اور اس کا خزانہ خالی ہے۔ فوج نئے سرے سے بنانی ہے۔ انفراسٹرکچر اور بڑی تعداد میں عمارتیں تباہ حال ہیں۔ ایسی صورت حال میں دانش مندی یہی ہے کہ اسرائیل مخالف بیانات نہ دیے جائیں۔
طرطوس کے علاوہ شمال میں خواتین نے اپنے حقوق کے لیے جلوس نکالا ہے۔ شمالی علاقے میں کرد بڑی تعداد میں ہیں۔ یہاں تقریباً ایک ہزار امریکی فوجی اور کئی ہزار ترک سپاہی موجود ہیں۔ کردوں کو خوف ہے کہ شام میں طالبان کی طرز کی ملائیت نہ آ جائے۔ شام میں لبرل سوچ بڑی واضح نظر آتی ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ نئی حکومت کتنے وعدے پورے کرے گی‘ لیکن آج کے شام میں ایک لمبے عرصے کے بعد امید کی کرن روشن ہوئی ہے۔ اشیائے صرف کی قیمتیں نیچے آئی ہیں اور کرنسی مستحکم ہوئی ہے۔ تباہ شدہ شام کی تعمیرِ نو میں پانچ سے دس سال لگ سکتے ہیں۔ یہاں خلیجی ممالک کی مالی امداد بڑا اہم کردار ادا کرے گی۔ سعودی عرب کا رول بہت اہم ہوگا لیکن ترکیہ کے بعد۔ ترکیہ عسکری طور پر بھی مضبوط ہے اور اس کی تعمیراتی کمپنیاں شام کی تعمیرِ نو میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ شام کے ایک حصے پر اسرائیل قابض ہے اور یہ علاقہ صرف امریکہ کے پریشر سے آزاد ہو سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں بھی ترکیہ اور سعودی عرب کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دمشق حکومت کو انقرہ کو باور کرانا ہوگا کہ کرد ترکیہ کے خلاف کوئی کارروائی شمالی شام سے نہیں کر سکیں گے اور شامی حکومت مہاجرین کو واپس بلانے میں مدد گار ثابت ہو گی۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی خلیجی ملک ایران کے کمزور ہونے پر خوش ہو لیکن عمومی طور پر اکثر علاقائی ممالک بشمول پاکستان‘ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ایران مزید کمزور نہ ہو کیونکہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن مزید بگڑ جائے گا اور اسرائیل مزید بے لگام ہو گا۔ اسرائیل کی بربریت ہم غزہ میں دیکھ چکے ہیں‘ لیکن ظالم نیتن یاہو نے شام پر تب بھی بم برسائے جب بشار الاسد کی حکومت گر چکی تھی اور شام جوابی کارروائی کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اسرائیل مزید توسیع کے خواب دیکھ رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد کے بعد اسرائیل فلسطینیوں پر مزید سختی کرے گا۔ مجھے تو اگلے چار‘ پانچ سال دو ریاستی حل نظر نہیں آ رہا لیکن تمام مسلم ممالک کو اپنی اصولی اپوزیشن پر قائم رہنا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں