دریائے راوی ہمارے کالج کے زمانے تک لاہور کی روز مرہ زندگی کا حصہ تھا۔ دریا کے بیچ کامران کی بارہ دری تھی۔ کشتی رانی شہریوں کے لیے سیرو تفریح اور ورزش کا ذریعہ تھی۔ یہاں سے لاہور کے باسیوں کو دریا کی تازہ مچھلی بھی ملتی تھی۔ ہمارے کالج میں باقاعدہ ایک Rowing club تھا۔ کالجوں کے درمیان کشتی رانی کا سالانہ مقابلہ ہوتا تھا جو اکثر گورنمنٹ کالج لاہور کی ٹیم جیتا کرتی تھی۔ ہمارے کالج کے میگزین کا نام بھی راوی تھا اور ہم آج بھی اپنے آپ کو فخر سے اولڈ راوین کہتے ہیں۔ یہ وہ کالج ہے جس نے علامہ اقبال‘ فیض احمد فیض اور ڈاکٹر عبدالسلام جسے نابغے پیدا کیے۔
لاہور تب بھی چٹخاروں کا شہر تھا اور آج بھی اپنے انواع و اقسام کے کھانوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ پہلے لاہوری دستر خوان میں کشمیری کھانوں کا اضافہ ہوا اور آج اس میں خیبر پختونخوا کا کوزین (Cusine) شنواری بھی شامل ہو چکا ہے۔ ایک زمانے میں بانو بازار کی چاٹ پورے لاہور میں خاصی مشہور تھی۔ اب لوگ باقاعدگی سے انارکلی کم ہی جاتے ہیں۔ لاہور کا سنٹر یعنی ڈاؤن ٹاؤن اب گلبرگ اور لبرٹی کی طرف شفٹ ہو گیا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں لاہور میں چینی ریسٹورنٹس نئے نئے کھلنے شروع ہوئے تھے۔ آج آپ کو لاہور میں لبنانی کھانا بھی ملتا ہے۔ کیفے اور فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس تو بے شمار کھل چکے ہیں۔
اُس زمانے میں موسم سرما کی دھوپ کا اپنا ہی مزہ تھا۔ درختوں کی کثرت کی وجہ سے مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہا جاتا تھا۔ گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ کا خوب دبدبہ تھا۔ لہٰذا امن و امان کی صورتحال بہت اچھی تھی۔ سردیوں کو لوگ دن کو بھی مال روڈ پر مٹر گشت کرتے اور موسم گرما میں تو رات گئے تک یہاں شوقیہ پیدل چلنے والوں کے چھوٹے چھوٹے گروپ نظر آتے تھے‘ جو تازہ ترین سیاسی صورتحال پر بحث کر رہے ہوتے تھے۔ چند بزعم خود انقلابی سرخ سویرے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ بائیں بازو کے خیالات ترویج پانے لگے تو ردعمل کے طور پر شوکتِ اسلام کا بڑا جلوس بھی نکلا۔ دراصل انقلابی ہونا یا اپنے آپ کو انقلابی ظاہر کرنا اس وقت نوجوانوں میں فیشن کے طور پر رائج تھا۔ ہمارے کالج کے ایک معروف لیڈر طارق علی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ گھر سے بھنگیوں کی توپ تک مرسیڈیز کار میں عام سے کپڑوں میں آتا تھا اور وہاں اتر کر پیدل کالج پہنچتا تھا۔ مقصود صرف اپنے آپ کو عوامی اور سُرخا ظاہر کرنا تھا۔
علم و دانش کی تلاش لاہور کی زندگی کا حصہ تھی۔ لائبریریاں آباد رہتی تھیں۔ گورنمنٹ کالج میں اعلیٰ پائے کے مباحثے ہوتے تھے۔ ہمارے کالج کی مجلسِ اقبال بھی خاصی فعال تھی۔ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد ویسے تو سائنس دان تھے لیکن انہیں ادب اور موسیقی سے خاص دلچسپی تھی۔ حفیظ جالندھری اور دیگر شاعر اور دانشور ان کے حلقۂ احباب میں شامل تھے۔ ناصر کاظمی‘ حبیب جالب‘ احمد ندیم قاسمی اور منیر نیازی اس زمانے کے لاہور کی ادبی پہچان تھے۔
ذہنی نشوونما کے علاوہ جسمانی ورزش کا بھی اہتمام تھا۔ فضل محمود‘ بھولو پہلوان‘ منیر ڈار‘ شفقت رانا کھیلوں کے میدان کے بڑے نام تھے۔ ہر سال فورٹریس سٹیڈیم میں میلۂ مویشیاں لگتا تھا‘ جسے ہارس اینڈ کیٹل شو بھی کہا جاتا تھا۔ یہاں سب سے مقبول آئٹم 'ٹیٹو شو‘ ہوتا ہے۔ اس میلے میں انٹرنیشنل مہمان بھی آتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ملکہ الزبتھ اور امریکی خاتونِ اول جیکولین کینیڈی بھی بطور مہمانِ خصوصی لاہور آئی تھیں۔ نومبر 1964ء میں پی ٹی وی کا آغاز ہوا تو یار لوگ سڑکوں پر مٹر گشت کرنے یا سینما جانے کے بجائے گھروں میں محصور ہونے لگ گئے۔ ٹی وی‘ جسے امریکہ میں Idiot box کہا جاتا‘ ہماری طرزِ زندگی پر خاصا اثر انداز ہوا ہے۔
اور اب آتے ہیں موجودہ لاہور کی جانب۔ گزشتہ 63سال میں لاہور کی آبادی نو گنا بڑھ چکی ہے۔ یعنی اگر 1961ء میں لاہور ایک شہر تھا تو آج یہ نو شہروں کے برابر ہے۔ 1961ء کے لاہور میں چند سو گاڑیاں تھیں‘ آج لاہور میں لاکھوں کاریں رواں دواں ہیں۔ زندگی کی رفتار تیز تر ہو گئی ہے۔ اب شوقیہ پیدل چلنے والوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ دو ہفتے میری رہائش ڈیفنس میں رہی اور میں ہر روز شام کو سیر کیلئے جاتا تھا۔ فیز فور کا پارک بہت خوبصورت ہے لیکن اسے بہت کم لوگ استعمال کرتے ہیں۔ امیر لوگوں میں فربہی بہت بڑھ گئی ہے اور یہ خطرے کا الارم ہے۔ یورپ میں لوگ جسمانی طور پر فٹ رہنے کیلئے اور آلودگی کم کرنے کیلئے سائیکل چلانے لگے ہیں اور ہم اب بھی کاروں اور موٹر سائیکلوں کے اسیر ہیں۔
1960ء کی دہائی کے لاہور میں صرف دو یونیورسٹیاں تھیں‘ یعنی پنجاب یونیورسٹی اور انجینئرنگ یونیورسٹی۔ اب یہاں سرکاری اور غیرسرکاری بیسیوں یونیورسٹیاں ہیں۔ گزشتہ پچاس سالوں میں ہزاروں پی ایچ ڈی سکالر بنے ہیں لیکن کیا ہم آج فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کے پائے کے شاعر پیدا کر رہے ہیں؟ کیا ہم کوئی دوسرا ڈاکٹر عبد السلام پیدا کرنے میں ناکام نہیں ہوئے؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج لاہور ریسرچ کا مرکز ہوتا‘ دنیا کے تعلیمی نقشے پر درخشاں ستارہ ہوتا لیکن حقیقت میں صورتحال ایسی نہیں ہے کیونکہ آج تعلیم تجارت بن چکی ہے۔
لاہور کی اشرافیہ نے بڑے بڑے فارم ہاؤس بنا لیے ہیں۔ یہ سبزی اور گوشت لینے مارکیٹ تک نہیں جاتے بلکہ آن لائن آرڈر کرتے ہیں‘ کھاتے خوب ہیں لیکن ورزش نہ ہونے کے برابر ہے۔ توندیں نکل رہی ہیں‘ اور ڈاکٹروں کے وارے نیارے ہیں۔ دوسری جانب غریبوں کے لیے دو وقت کا کھانا محال ہو گیا ہے۔ 1960ء کی دہائی کا کوچوان خوش باش اور قناعت پسند تھا۔ آج کا رکشہ ڈرائیور ٹینشن والی زندگی گزار رہا ہے۔
اگر آج لاہور نو شہروں کے برابر ہے تو آئندہ کا لاہور شہر دنیا کے بڑے شہروں میں شامل ہو گا۔ یہاں چودہ‘ پندرہ شہر آباد ہوں گے۔ قصور‘ گوجرانوالہ اور شیخوپورہ‘ لاہور شہر کے مضافات بن جائیں گے۔ ہر طرف بھیڑ ہی بھیڑ ہو گی۔ ماحول مزید آلودہ ہو گا۔ سموگ پر قابو پانا مزید مشکل ہو جائے گا۔ آلودہ ماحول کا لوگوں کی صحت پر منفی اثر پڑے گا۔ جرائم کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ لہٰذا ہمیں لاہور کے حسن اور صحت مند ماحول کو بچانے کے لیے ابھی سے سوچنا ہو گا۔ دو‘ تین کام کر لیں تو لاہور کا ماحول بہتر ہونا شروع ہو جائے گا۔ شہر کے اندر کم سے کم کاریں آنی چاہئیں۔ ہر بڑی سڑک‘ جو شہر کے اندر جا رہی ہے‘ وہاں ٹول ٹیکس لگا دیں۔ شہر کے اندر ہر جگہ پارکنگ فیس ہونی چاہیے۔ ہر بڑی سڑک پر سائیکل سواروں کا راستہ مختص ہونا چاہیے۔ یورپ تمام بڑے شہروں میں سائیکلنگ ٹریک بنا چکا ہے۔
والدین کے لیے لازمی ہونا چاہیے کہ بچوں کو اپنے رہائشی علاقے میں موجود سکولوں میں ہی داخل کرائیں۔ امریکہ میں اگر آپ بچے کو کاؤنٹی کے باہر کسی سکول میں داخل کرائیں تو فیس زیادہ ہو جاتی ہے۔ لاہور میں نئی ہاؤسنگ کالونیاں بنانے پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ انڈسٹری کو شہر سے باہر منتقل کریں‘ تعلیم اور صحت کے نئے ادارے چھوٹے شہروں میں بنائیں۔ نئی انڈسٹری بھی چھوٹے شہروں میں لگائیں تاکہ باہر کے لوگ لاہور کا رخ کم سے کم کریں۔ اس تاریخی اور خوبصورت شہر کو محفوظ رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔