ورلڈ بینک‘ ڈبل پنشن اور اڑان پاکستان

معاشی میدان سے مثبت خبریں آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ورلڈ بینک نے پاکستان کو دس سالوں میں بیس ارب ڈالر قرض دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان پہلا ملک ہے جس کے ساتھ اس نوعیت کا معاہدہ کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ یہ پلان 14 جنوری کو منظور ہو گا۔ اس رقم کا بڑا حصہ عوامی فلاح کے منصبوں پر خرچ کیا جائے گا۔ جب کسی ملک میں سرمایہ کاری آئے تو اسے اچھی خبر سمجھا جاتا ہے مگر پاکستان میں فی الحال قرضوں اور امداد کا حصول ہی اچھی خبر بن چکا ہے۔ عوامی سطح پر کنفیوژن ہے کہ یہ خبر عوام کے لیے اچھی ہے یا حکمرانوں کے لیے‘ کیونکہ ماضی میں ورلڈ بینک سمیت کئی اداروں سے اربوں ڈالرز عوامی فلاح کے نام پر لیے گئے لیکن عوام کا کم اور سیاستدانوں کا زیادہ بھلا ہوا۔ البتہ ایک خبر ایسی ہے جس میں عوام کا زیادہ بھلا ہونے کی امید ہے۔ پنجاب میں چین کی آئی ٹی اور ای کامرس کمپنی 70 کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے جا رہی ہے۔ اس سے اے آئی‘ ٹریڈنگ اور ای کامرس میں نوکریاں پیدا ہوں گی اور نوجوانوں کو بین الاقوامی سطح کی تربیت کے مواقع میسر آ سکتے ہیں۔
ڈبل پنشن کے خاتمے کے حوالے سے بھی ایک مثبت خبر آئی ہے۔ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرتے ہوئے پنشن نظام میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں۔ سب سے بڑا اعتراض ڈبل پنشن پر کیا جا رہا تھا‘ جسے اب ختم کر دیا گیا ہے۔ حکومت کا پنشن بل ایک ہزار ارب سے زائد ہے جو ملک کے بڑے اخراجات میں چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ قرض‘ دفاع اور ترقیاتی پروگرام کے بعد پنشن کا بجٹ سب سے زیادہ ہے۔ یہ خاتمہ خوش آئند ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس فیصلے سے بجٹ پر فرق پڑے گا اور کیا اخراجات کم ہوں گے؟ پنشن اصلاحات یکم جنوری سے نئے ریٹائر ہونے والے ملازمین پر لاگو ہوں گی جبکہ ڈبل پنشن کا اصول تمام نئے‘ پرانے ملازمین پر لاگو ہو گا۔ اس سے بجٹ پر فوری فرق تو نہیں پڑے گا تاہم اگر یہ اصلاحات جاری رہیں تو اگلے پانچ برس میں اس کے اثرات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو پنشن بجٹ تو نظر آ گیا لیکن پنجاب اسمبلی میں 800 فیصد تک جو تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا گیااس پر آئی ایم ایف کو اعتراض نہیں۔
اس وقت حکومت اُڑان پاکستان پروگرام کا بھی خوب چرچا کر رہی ہے۔نئے سال کے آغاز پر وزیراعظم نے یہ منصوبہ لانچ کیا جس کے مطابق پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے اہداف طے کر لیے گئے ہیں۔ یہ اہداف ایک سال‘ پانچ سال اور دس سال کے لیے طے کیے گئے ہیں۔ یہ پروگرام ''پانچ ایز‘‘ پر مشتمل ہے۔ ایکسپورٹ‘ ای پاکستان‘ انوائرمنٹ‘ انرجی اور ایکویٹی۔ جو اہداف طے کیے گئے ہیں‘ وہ سننے میں تو بہت اچھے ہیں لیکن یہ کس طرح حاصل کیے جائیں گے‘ اس بارے کوئی مربوط پالیسی سامنے نہیں آ سکی۔ خواہشات یا و،ش لسٹ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر بنائی جائے تو ہی بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ ایکسپورٹس کیلئے جو ہدف طے کیا گیا ہے وہ پانچ برس میں 60 ارب ڈالر ہے۔ اس وقت پاکستان کی ایکسپورٹس 30 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہیں‘ یعنی ہر سال 6 ارب ڈالرز کی برآمدات بڑھائی جائیں گی۔ پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ ٹیکسٹائل ہے لہٰذا سب سے پہلے اس شعبے کی ایکسپورٹس بڑھانے کے ضرورت ہے جس کیلئے نئے ٹیکسٹائل یونٹس لگانے اور پرانے یونٹس فعال کرنے کی ضرورت ہے‘ مگر زمینی صورتحال یہ ہے کہ چند ماہ میں تقریباً 40 فیصد سپننگ یونٹس بند ہو چکے ہیں۔ پچھلے دو برس میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹس تین ارب ڈالر کم ہوئی ہیں۔ پچاس فیصد سے زیادہ کپاس درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کو گیس کی فراہمی بند کی جا رہی ہے۔ اگر حالات یہی رہے تو ٹیکسٹائل انڈسٹری مزید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں ایکسپورٹس 30 سے 60 ارب ڈالرز تک کیسے پہنچیں گی؟ ای پاکستان کے تحت فری لانسنگ اور آئی ٹی کی برآمدات پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف ہے۔ پچھلے مالی سال آئی ٹی برآمدات تقریباً تین ارب ڈالرز رہیں۔ ملک میں انٹرنیٹ کی بندش اس وقت بڑا مسئلہ بن چکی ہے جس کی وجہ سے آئی ٹی کمپنیاں ویتنام اور دبئی منتقل ہو رہی ہیں۔ گزشتہ سال انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بندش سے نقصان اٹھانے والے ممالک میں پاکستان پہلے نمبر پر رہا۔ اس سے ایک ارب 62 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا جو سوڈان اور میانمار جیسے خانہ جنگی کے شکار ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ اسی طرح انوائرمنٹ میں ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کا ایک ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ گرین ہاؤس گیسز میں 50 فیصد کمی کی جائے گی جبکہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور کئی سالوں سے پہلے نمبر پر برقرار ہے۔ انرجی کے شعبے میں بھی بہتری لانے کے دعوے کیے گئے ہیں لیکن یہ اُسی وقت ممکن ہو گا جب آئی پی پیز جیسے مہنگے منصوبوں سے جان چھڑائی جائے گی اور ملک کو ہنگامی بنیادوں پر سستی اور ری نیو ایبل انرجی پر منتقل کیا جائے گا۔ سولر پر ایک یونٹ تقریباً 12 روپے کا پڑتا ہے اور آئی پی پیز سے ایک یونٹ کا خرچ تقریباً 80 روپے ہے۔ اس کے لیے سیاستدانوں خصوصاً حکمرانوں کو قربانی دینا ہو گی کیونکہ آئی پی پیز میں سب سے بڑا شیئر انہی کا ہے۔
اڑان پاکستان پروگرام کے تحت غربت میں 13 فیصد کمی لانے کا ہدف طے کیا گیا ہے جبکہ ورلڈ بینک کے مطابق اس وقت ملک میں 40 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے ہے اور 2026ء میں اس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ اس وقت کوئی بھی ملکی یا غیر ملکی ادارہ ایسا نہیں جو ملکی معیشت میں ڈرامائی بہتری کا اشارہ دے رہا ہو۔ اڑان پروگرام جیسے اہداف حاصل کرنے کیلئے سیاسی ومعاشی استحکام اور پائیدار امن کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں سیاسی استحکام نہیں‘ کب حکومت بدل جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ پاکستان میں آج تک کسی بھی وزیراعظم نے مدت پوری نہیں کی۔ دوسری جانب دہشت گردی کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں اتنے بڑے دعوؤں کو پورا کرنا آسان بات نہیں۔ اس طرح کے پروگرام اسی وقت لانچ کیے جاتے ہیں جب معیشت مستحکم ہو‘ شرح نمو میں اضافہ ہو رہا ہو اور آئی ایم ایف کی محتاجی نہ ہو۔ جب تک پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہے‘ اڑان پاکستان کے اہداف حاصل کرنا مشکل ہے۔ اس وقت آئی ایم ایف کے طے کردہ کم مدت والے ٹیکس اہداف حاصل نہیں کیے جا رہے تو نئے لانگ ٹرم اہداف کیسے حاصل ہوں گے؟ 2021ء میں پاکستان کی شرح نمو چھ فیصد تھی لیکن تجارتی خسارہ تاریخی سطح پر بڑھ چکا تھا جس سے ملک کو نقصان ہورہا تھا۔ اب وہ مصنوعی گروتھ بھی حاصل نہیں کی جا سکتی کیونکہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں ہے۔ پانچ سالوں میں شرح نمو چھ فیصد رکھنے کا ہدف ہے جبکہ موجودہ حالات یہ ہیں کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں شرح نمو 0.92 فیصد یعنی ایک فیصد سے بھی کم رہی۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اڑان پاکستان پروگرام ایک ہوائی دعویٰ ہے یا صرف اچھی پریذنٹیشن ہے۔ کن بنیادوں پر یہ اہداف طے کیے جائیں گئے‘ کیاآئی ایم ایف کا اس پر اِن پٹ لیا گیا‘ کون سی مارکیٹ ریسرچ کی گئی‘ اس بارے سرکار بالکل خاموش ہے۔ اس وقت پاکستان کا جی ڈی پی تقریباً 375 ارب ڈالر ہے جسے دس سال میں ایک ہزار ارب ڈالرز تک لے جانے کا ہدف ہے۔ ایک ہزار ارب ڈالر جی ڈی پی کے لیے نصف ٹریلین یعنی پانچ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری چاہیے‘ وہ کہاں سے اور کیسے آئے گی؟ جو حالات چل رہے ہیں ان میں جی ڈی پی سکڑ رہی ہے‘ اس کو بڑھانا اس وقت بہت مشکل ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں