کون لٹیرا ہے اور کون نہیں

محمود غزنوی لٹیرا تھا یا نہیں‘ احمد شاہ ابدالی یقینا لٹیرا تھا۔ تاریخ کا معتبر ترین حوالہ عوام کی زبان ہوتی ہے۔ اہلِ پنجاب کے ساتھ جو کچھ ابدالی کے سپاہی کرتے رہے‘ اس کی گونج آج تک سنائی دے رہی ہے۔ ''کھادا پیتا لاہے دا تے باقی احمد شاہے دا‘‘ وہ کہاوت ہے جو لوگوں کی زبان پر تھی۔ جو کچھ کھانے پینے سے بچ جاتا تھا‘ احمد شاہ کے لٹیرے چھین کر لے جاتے تھے۔
احمد شاہ ابدالی نے اُس وقت کے ہندوستان پر آٹھ حملے کیے۔ جنوری 1748ء میں وہ لاہور میں داخل ہوا اور قتلِ عام کا حکم دیا۔ معززینِ شہر نے 30لاکھ روپیہ جمع کرکے ابدالی کو پیش کیا اور درخواست کی کہ قتل و غارت اور لوٹ مار بند کرنے کا حکم دے۔ چوتھا حملہ اس نے 1756-57ء میں کیا۔ دہلی میں اتنی لوٹ مار کی کہ شہر کھنڈر بن گیا۔ ابدالی نے اپنی اور بیٹے کی شادیاں بے بس مغل خانوادے میں کیں۔ واپسی پر امرتسر میں غارت گری کی۔ تاریخ میں کوئی ایسی شہادت نہیں ملتی کہ ابدالی نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا ہو کہ قتل و غارت کرتے وقت مسلمانوں کو چھوڑ دیا جائے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ جس طرح سکھ اور مرہٹے لوٹ مار کرتے تھے‘ قتلِ عام کرتے تھے‘ فصلوں کو تہس نہس کرتے تھے‘ گھروں کو برباد کرتے تھے اور چادر اور چار دیواری کے پرخچے اُڑاتے تھے‘ ابدالی کی افغان فوجیں بھی اسی طرح کرتی تھیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ جہاد تھا اور تبلیغ تھی تو اسے تاریخ کا مطالعہ غیرجانبدار ہو کر کرنا چاہیے۔
اصل بات سمجھنے کی یہ ہے کہ افغانستان کبھی بھی ضروریاتِ زندگی میں خود کفیل نہیں رہا۔ صرف پھلوں اور افیون سے اور تلوار اور غلیل سے تو پیٹ نہیں بھرتا۔ موجودہ خیبرپختونخوا‘ پنجاب اور وسطی ہند کے علاقے افغانوں کے لیے ہمیشہ سونے کی مرغی رہے۔ جب بھی افغان حملہ آور آتے‘ واپسی پر ہزاروں اونٹ‘ اجناس اور اموال سے لدے‘ ساتھ لے جاتے۔ بے شمار لوگوں کو قیدی بنا کر لے جاتے۔ لوٹی ہوئی گندم‘ آٹا‘ دالیں اور دیگر اجناس ختم ہوتیں تو پھر ہندوستان کا رُخ کرتے۔ یہ عمل صدیوں جاری رہا تا آنکہ ہر سال حملہ کر کے سال بھر کی خوراک لوٹ لے جانا ممکن نہ رہا۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ لوٹ مار اور ''مالِ غنیمت‘‘ کی جگہ سمگلنگ نے لے لی۔ کسی بھی ملک میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جن کی اولین ترجیح حب الوطنی نہیں بلکہ دولت ہوتی ہے۔ ایسے افراد پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ جب سے پاکستان بنا ہے‘ افغانستان کی ضروریاتِ زندگی سمگلنگ کے ذریعے پاکستان سے جا رہی ہیں۔ آٹا‘ گندم‘ چینی‘ دالیں‘ سیمنٹ‘ مویشی غرض ہر شے یہیں سے جاتی ہے۔ عرصہ ہوا میرے والد گرامی مرحوم کے ایک افغان شاگرد نے مجھے افغانستان سے خط بھیجا کہ وہ مکان تعمیر کر رہا ہے‘ کسی نہ کسی طرح اسے سریا اور دیگر سامان بھیجا جائے۔ ظاہر ہے میرے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ اب کا تو معلوم نہیں‘ مگر ماضی قریب میں پکی ہوئی روٹیاں تک پشاور سے جلال آباد جاتی رہی ہیں! آج کی صورتحال یہ ہے کہ پشاور سے لے کر لاہور تک کے ہسپتالوں میں بیمار افغانوں کا علاج ہو رہا ہے۔
افغانستان کے حوالے سے پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان جنرل ضیا الحق کی پالیسیوں نے پہنچایا۔ اندرون ملک بھی سب سے زیادہ نقصان اسی عہد میں پہنچا۔ صرف ایک مثال ریلوے ہی کی دیکھ لیجیے۔ پوری دنیا میں ریلوے کے منافع کا کثیر حصہ مسافروں سے نہیں‘ کارگو سے آتا ہے۔ جنرل ضیا الحق سے پہلے کا اور بعد کا ریلوے ریونیو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑا ظلم اُس دور میں یہ ہوا کہ جو این ایل سی کا وزیر تھا‘ اسی کو ریلوے کا وزیر بنایا گیا۔ یعنی بلی کو دودھ کی رکھوالی دی گئی۔ آج ریلوے سسک سسک کر جی رہی ہے۔ مرتی ہے نہ زندہ ہے! ضیا الحق کے زمانے میں عملاً پاکستان‘ افغانستان کا حصہ بن گیا۔ سرحدیں مٹ گئیں۔ اندر آنے کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت رہی نہ ویزے کی۔ مہاجر تو ایران میں بھی گئے مگر ایران نے انہیں کیمپوں سے باہر نہ نکلنے دیا۔ ضیا الحق نے پورا پاکستان ان غیرملکیوں کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیا۔ ٹرانسپورٹ کے بزنس پر ان کا قبضہ ہو گیا‘ خیبرپختونخوا میں مقامی مزدور بے روزگار ہو گئے۔ مکانوں کے کرائے ان غیر ملکیوں کی وجہ سے اتنے بڑھ گئے کہ مقامی ضرورت مندوں کی استطاعت سے باہر ہو گئے۔ ان تمام وطن دشمن پالیسیوں میں سیاستدانوں کا کوئی کردار نہ تھا۔ نام نہاد شوریٰ جنرل صاحب کی جیب میں تھی۔ جنرل صاحب کا ساتھ ان بہت سے سیاستدانوں نے دیا جو خود یا ان کی ذریّت‘ آج بھی پیشِ منظر پر چھائی ہوئی ہے۔ صرف خواجہ آصف نے یہ اخلاقی جرأت دکھائی کہ اپنے والد مرحوم کی طرف سے آمریت کا ساتھ دینے پر قوم سے معافی مانگی! جنرل ضیا الحق نے افغانوں کے علاوہ دنیا بھر کے جنگجو خود اپنے ہاتھوں سے پاکستان میں آباد کر لیے جو علاقوں کے علاقوں پر عملاً حکمران بن گئے۔ کچھ طالع آزما بھی اس کارگزاری میں جنرل صاحب کے ساتھ تھے۔ ان اہلِ نفاق کے اپنے لخت ہائے جگر امریکہ میں پڑھتے رہے اور بزنس کرتے رہے مگر دوسروں کے بچوں کو یہ حاطب اللیل ''جہاد‘‘ پر بھیجتے رہے! عسکری نقطہ نظر سے مدد کرنی بھی تھی تو سرحدوں کا تقدس تو پامال نہ کیا جاتا۔ جو شخص غیر ملکیوں کے لیے‘ جن میں مسلح لوگ بھی ہوں‘ ملک کے دروازے کھول دے‘ اسے محب وطن کیسے کہا جا سکتا ہے؟ پھر بات یہاں تک بڑھی کہ نادرا جیسے حساس ادارے میں یہ غیرملکی ملازمت کرتے پائے گئے۔ لاکھوں نے پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنوا لیے۔ اس وطن دشمنی میں یقینا ہمارے اپنے گندے انڈے بھی شامل تھے۔ اُس زمانے کی ایک خبر کبھی نہیں بھولتی جو اخبار میں پڑھی تھی۔ خوست کے کچھ باشندوں نے‘ جو پاکستان کبھی نہیں آئے تھے‘ پاکستانی پاسپورٹوں پر حج کیا۔ ایسے سب کاموں میں ہمارے اپنے لوگ ملوث تھے۔ آج ملک جس خطرناک صورتحال میں گھرا ہوا ہے‘ اسی عہد کی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ نامحمود میں یہ پالیسیاں اور بھی مہلک ہو گئیں۔ ہم امریکہ کے مخلص رہے نہ طالبان کے! آج اچھے طالبان اور برے طالبان کا نام نہاد فرق مٹ چکا ہے: جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے! افغانستان سے پاکستان پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ جن کے خاندان عشروں تک پاکستان میں پلتے رہے‘ آج پاکستان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ جن کے بچے یہیں پیدا ہوئے‘ یہیں پلے بڑھے‘ یہیں کی چاندنی‘ دھوپ‘ ہوا اور اناج کھایا‘ ہمارے بچوں کو یتیم اور خواتین کو بیوہ کر رہے ہیں! بقول سعدی:
یا وفا خود نبود در عالم
یا مگر کس درین زمانہ نہ کرد
افغان نفسیات کو جاننا ہو تو ولیم ڈالرمپل کی تصنیف ''ریٹرن آف اے کنگ‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ سفاکی کے بدترین نمونے پائے جاتے ہیں۔ کان‘ ناک‘ ہاتھ کاٹنا عام تھا۔ فرنگی جسے Treachery کہتے ہیں‘ بہتات سے پائی جاتی ہے۔ ایک حکمران نے تو اپنے تمام اعزہ و اقربا کی دعوت کی۔ خود باہر نکل گیا۔ کمرے کے نیچے بارود بھرا تھا۔ سارے کے سارے ہلاک ہو گئے۔ تازہ ترین منظر نامہ دیکھ لیجیے۔ پاکستان نے طالبان کے لیے کیا نہیں کیا۔ بھٹو سے لے کر عمران خان تک سب نے بھلائی کے سوا ان کے ساتھ کچھ نہیں کیا۔ پاکستان بار بار کہہ رہا ہے کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے مگر وہ سُن کر ہی نہیں دے رہے۔ یہ ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے جس کا انحصار پاکستان پر ہے۔ پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کی جو سہولت دے رہا ہے‘ صرف اسی کو دیکھیں تو کوئی نعم البدل نہیں! عملاً آج بھی وہی صورتحال ہے۔ کھادا پیتا لاہے دا تے باقی احمد شاہے دا!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں