"SSC" (space) message & send to 7575

تعلیم کیلئے پیسے کیوں نہیں؟

ایک طرف ہمارا تعلیمی نظام رسائی‘ معیار اور مطابقت کے سنگین چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے‘ دوسری طرف اسے انتہائی کم بجٹ کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کی رپورٹ (2022-23ء) میں بتایا گیا ہے کہ 2023ء میں تعلیم کیلئے جی ڈی پی کا صرف 1.5 فیصد مختص کیا گیا۔ بظاہر یہ جنوبی ایشیا میں کسی بھی ملک کی جانب سے تعلیم کیلئے سب سے کم بجٹ ہے جو واضح طور پر یونیسکو انسٹیٹیوٹ فار سٹیٹسٹکس اور دیگر عالمی تنظیموں کی جانب سے تجویز کردہ جی ڈی پی کے 4.6 فیصد سے کم ہے۔ یہ بجٹ دو کروڑ 60 لاکھ سکول سے باہر بچوں اور گریڈ آٹھ تک 38 فیصد ڈراپ آئوٹ ریٹ کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے یقینی طور پر ناکافی ہے۔
پاکستان کی تعلیمی تاریخ پر نظر ڈالیں تو تاحدِ نظر خوش نما وعدوں اور خوابوں کے سراب نظر آتے ہیں‘ جنہیں کبھی تعبیر نہیں ملتی۔ اور ہر بار نئی حکومت ایک نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کرتی ہے جس میں نئے خوابوں کی لہلہاتی فصلیں نظر آتی ہیں‘ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ خیالی فصلیں بنجر منظروں میں بدلتی جاتی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ عمل طویل عرصے سے بغیر کسی تبدیلی کے جاری ہے۔ اب تعلیمی بجٹ کا معاملہ ہی لیجئے۔ 2009ء کی تعلیمی پالیسی میں کہا گیا تھا کہ تعلیم کیلئے جی ڈی پی کا کم از کم چار فیصد مختص کیا جانا چاہیے اور اس بجٹ کو بڑھانے کی کوششیں کی جائیں گی۔ اس کے برعکس‘ تعلیم کیلئے مختص بجٹ میں مزیدکمی آئی ۔ 2018-19ء میں تعلیم کیلئے مختص بجٹ جی ڈی پی کا 2.0 فیصد تھا‘ 2019-20ء میں یہ 1.9فیصد تک گر گیا۔ 2020-21ء میں یہ بجٹ مزید کم ہو کر جی ڈی پی کے 1.4 فیصد تک رہ گیا۔ 2021-22ء میں‘ یہ بجٹ جی ڈی پی کا 1.7فیصد تھا اور 2022-23ء میں یہ بجٹ جی ڈی پی کا 1.5 فیصد رہ گیا۔ تعلیم کیلئے مختص بجٹ میں بتدریج کمی کافی پریشان کن ہے۔ تعلیمی بجٹ میں یہ کمی اس لیے بھی تشویشناک ہے کہ پاکستان کی آبادی اور طلبہ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ان کی بڑھتی ہوئی ضروریات کیلئے مزید فنڈز کی ضرورت ہے۔
ایک اور تشویشناک امر بجٹ میں تعلیم کا کم ہوتا ہوا حصہ ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن کی جاری کردہ رپورٹ ''پبلک فنانسنگ اِن ایجوکیشن سیکٹر‘‘ (2022-23ء) کے مطابق یہ بجٹ 2019-20ء میں 13 فیصد تھا جو 2022-23ء میں کم ہو کر 11فیصد رہ گیا۔ بجٹ میں یہ کمی دیگر شعبوں کے مقابلے میں تعلیم کے شعبے میں قومی ترجیح میں کمی کی عکاسی کرتی ہے۔ مختلف علاقوں اور صوبوں میں تعلیمی بجٹ کی تقسیم بھی غیر مساوی ہے‘ جو عزم کی مختلف سطحوں کو ظاہر کرتی ہے۔ صوبوں میں بھی تعلیم کیلئے مختص بجٹ میں کمی آئی ہے : پنجاب میں 20 فیصد سے 13 فیصد‘ سندھ میں 18 فیصد سے 14 فیصد‘ خیبر پختونخوا میں 27 فیصد سے 25 فیصد اور بلوچستان میں 18 فیصد سے 16 فیصد۔ ایک طرف تو یہ کمی تعلیم میں عدم دلچسپی کی نشاندہی کرتی ہے تو دوسری طرف یہ صوبائی اور ضلعی سطح پر ناکافی وسائل کی ذمہ دار ہے۔
تعلیم کیلئے کم بجٹ مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے۔ ایک متعلقہ مسئلہ بجٹ کا استعمال ہے۔ اگرچہ قومی استعمال کا اوسط تقریباً 94 فیصد ہے‘ لیکن صوبوں میں بجٹ کے استعمال میں فرق مینجمنٹ میں عدم مساوات کو ظاہر کرتا ہے‘ مثال کے طور پر 2022-23ء میں پنجاب میں بجٹ کا استعمال 99 فیصد‘ بلوچستان میں 96 فیصد‘ سندھ میں 93 فیصد اور خیبر پختونخوا میں 82 فیصد رہا۔ کچھ علاقوں میں کم بجٹ کے استعمال کی وجہ انتظامی تاخیر‘ منصوبہ بندی کی کمی اور غیر مؤثر نگرانی کے طریقہ کار جیسے عوامل ہیں۔
مسئلے کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی تعلیمی مالیاتی حکمت عملی بار بار پیش آنے والے (Recurring) اخراجات پر غیر متناسب توجہ کے ساتھ دائمی حد بندی کے ساتھ چلتی ہے‘ جیسے تنخواہیں اور آپریشنل اخراجات۔ قومی سطح پر 88 فیصد تعلیمی بجٹ Recurring اخراجات پر خرچ ہوتا ہے اور صرف 12 فیصد ترقیاتی منصوبوں کیلئے مختص کیا جاتا ہے۔ صوبے بھی اسی طرح کے نمونے دکھاتے ہیں۔ پنجاب کے پاس 91فیصد Recurringبجٹ اور نو فیصد ترقیاتی بجٹ ہے‘ سندھ میں یہ تناسب 93 فیصد اور سات فیصد ہے‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں Recurring بجٹ 89 فیصد اور ترقیاتی بجٹ 11 فیصد ہے۔ Recurring اخراجات کی یہ بالادستی اہم سرمایہ کاری جیسے انفراسٹرکچر‘ سکولوں کی سہولتیں‘ نصاب اور اساتذہ کی تربیت کو نظر انداز کرتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی سیمینارز اور کانفرنسوں میں تعلیم کیلئے کم بجٹ کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے تو حکومتی نمائندے مزید فنڈز کے مطالبے کو صلاحیت (Capacity) کی کمی کے بہانے مسترد کر دیتے ہیں۔ اگرچہ صلاحیت کی تعمیر ایک حقیقی ضرورت ہے مگر صلاحیت کی تعمیر کے عمل کیلئے بھی فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریاست کو دونوں محاذوں پر کام کرنا ہوگا‘ یعنی مناسب فنڈنگ فراہم کرنا اور تعلیمی اداروں کی صلاحیت کو بڑھانا۔ تعلیم کیلئے کم بجٹ کے مضمرات براہِ راست تعلیمی نظام پر ہوتے ہیں‘ مثال کے طور پر یہ پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کو مشکل بنا دیتے ہیں۔ خاص طور پر Sustainable Development Goal 4‘ جو معیاری تعلیم پر مرکوز ہے۔ کم بجٹ ملک کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے کہ وہ خراب انفراسٹرکچر‘ ناکافی تدریسی وسائل اور پسماندہ کمیونٹیز کیلئے محدود رسائی جیسے مسائل کو حل کرے۔
مختلف خطوں میں تعلیمی مالیات اور تعلیمی سطحوں میں نمایاں تفاوت پایا جاتا ہے۔ وفاقی حکومت زیادہ وسائل مختص کرتی ہے‘ جو اپنے بجٹ کا 80 فیصد حصہ وصول کرتی ہے۔ ثانوی تعلیم خیبر پختونخوا اور سندھ میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز ہے۔ اس سے ابتدائی تعلیم کو فنڈنگ نہیں ملتی‘ حالانکہ وہ طلبہ کے تعلیمی کیریئر کے ابتدائی مراحل کی نمائندگی کرتی ہے۔ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں بھی عدم مساوات واضح ہے‘ جہاں بجٹ اکثر مختص قومی اوسط سے کم ہوتا ہے۔ سکول سے باہر بچوں کیلئے غیر رسمی تعلیم پر توجہ کی کمی تعلیمی عدم مساوات کو مزید بڑھاتی ہے اور خاص طور پر دیہی اور کم وسائل والے علاقوں میں ترکِ تعلیم کی شرح کو بڑھاتی ہے۔
تعلیم میں کم سرمایہ کاری پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی صلاحیت میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پائیدار ترقی اہداف اور تعلیم کے نتائج کو بہتر بنانے کے عزم کے باوجود‘ اہداف کے حصول کیلئے فنڈنگ ناکافی ہے۔ تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم‘ جسے معاشی اور افرادی قوت کی ترقی کیلئے اہم سمجھا جاتا ہے‘ اکثر نظر انداز کی جاتی ہے۔ اس سے نوجوانوں کیلئے عملی مہارتیں حاصل کرنے کے مواقع میں کمی ہوتی ہے جبکہ یہ لیبر مارکیٹ کی ضروریات کیلئے بھی بہت اہم ہے۔
یہ صورتحال کچھ فوری اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے‘ جس میں سب سے پہلے تعلیم کیلئے کم از کم بجٹ‘ جی ڈی پی کا 4.6 فیصد ہونا چاہیے۔ بجٹ کے استعمال کو بہتر بنانے کیلئے صوبائی حکومتوں کو فنڈز کے بروقت اجرا اور ان کے مناسب استعمال کو یقینی بنانے کیلئے مضبوط نگرانی اور احتساب کے نظام کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ بجٹ کے مؤثر استعمال کیلئے مقامی منتظمین کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد کے عمل کو بہتر بنانے کیلئے صلاحیت سازی کے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک باقاعدہ نگرانی کا نظام اور مؤثر احتسابی طریقہ کار فنڈز کے انتظام کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں