قاضی حسین احمد‘ کچھ یادیں‘ کچھ باتیں

چھ جنوری 2013ء کے روز جناب قاضی حسین احمد سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے تھے۔ میں اُن دنوں یونیورسٹی آف سرگودھا میں تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا۔ یہ اتوار کا روز تھا۔ علی الصبح ٹی وی سکرین پر نظر پڑی تو قاضی صاحب کی دارِ فانی سے کوچ کرنے کی بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔ خبر دیکھتے ہی شدتِ غم سے میری آنکھیں چھلک پڑی تھیں۔
قاضی صاحب کے ساتھ اڑھائی‘ تین دہائیوں سے گہرا قلبی تعلق تھا۔ وہ میرے لیے ایک بزرگِ مہرباں تھے۔ پشاور میں اُن کی نماز جنازہ میں پانچ چھ گھنٹے ہی باقی تھے۔ سرگودھا سے اکیلے گاڑی ڈرائیو کر کے بروقت پشاور پہنچنا خاصا دشوار محسوس ہو رہا تھا۔ معاً مجھے برادرِ محترم جناب مجیب الرحمن شامی کا خیال آیا۔ انہیں فون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ لاہور سے پشاور کے لیے روانہ ہونے والے ہیں۔ لہٰذا بھاگ دوڑ کرمیں نے انہیں بھلوال میں جوائن کیا۔ اُن کے ہمراہ صدیقِ مکرم جناب سجاد میر بھی تھے۔ اس لحاظ سے یہ ایک یادگار سفر بن گیا۔ شامی صاحب کی شگفتہ بیانی ہر چھوٹی بڑی محفلِ دوستاں کو کشتِ زعفران بنائے رکھتی ہے مگر اُس روز وہ بھی تصویرِ غم بنے ہوئے تھے۔ سارا راستہ ہم جناب قاضی حسین احمد کی شخصیت‘ ان کی جماعت اسلامی کے لیے خدمات‘ سیاسی میدان میں اُن کی کامیابیاں‘ ملتِ اسلامیہ کے لیے ان کا جذب و سوز‘ عالمِ اسلام کے بعض حکمرانوں اور وہاں کے علمائے کرام سے ان کے گہرے دلی مراسم اور مختلف مسلم ملکوں میں کام کرنے والی دینی و جمہوری تحریکوں کے ساتھ ان کے روابط کا تذکرہ کرتے رہے۔
مجھے اب تک یاد ہے کہ پشاور کے موٹروے چوک کے وسیع و عریض میدان میں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں انسانوں کا جم غفیر نہایت محبت و عقیدت اور آہوں سسکیوں کے ساتھ امام صاحب کی قاضی صاحب کے لیے پُرسوز دعاؤں پر آمین کہہ رہا تھا۔ جماعت اسلامی کے بانی مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے 20ویں صدی کے وسط میں مسلمانانِ عالم اسلام کے لیے بالعموم اور ملت اسلامیہ ہند کے لیے بالخصوص اسلامی تعلیمات کی تعبیر قدیم کو اسلوبِ جدید میں پیش کیا جس سے یہ واضح ہو گیا کہ اسلام محض چند جامد عبادات و رسومات کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے۔ مولانا نے نہ صرف اسلامی نظام کا ایک نظری ماڈل پیش کیا بلکہ جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی اور ایک زبردست جمہوری تحریک کا آغاز کیا۔ مولانا کے فیضان اور ان کے دیے ہوئے نظامِ تربیت سے روشن ہونے والے چراغوں میں سے ایک چراغ بلکہ بہت بڑا چراغِ راہ جناب قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور بھی تھے۔ ان چراغوں کا گاہے گاہے تذکرہ ہوتے رہنا چاہیے تاکہ اہلِ پاکستان کو یاد رہے کہ وطنِ عزیز میں ایک سیاسی جماعت ایسی بھی ہے جس کے قائدین ہر دنیاوی لالچ و منفعت سے ماورا اور کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لانے والے ہیں۔
قاضی صاحب اپنے دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ انہوں نے اپنے ممتاز عالم دین والد سے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی تھی۔ پھر انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے بی اے کے بعد جغرافیہ میں ایم ایس سی کی ڈگری لی۔ کچھ عرصہ وہ شعبۂ تدریس سے وابستہ رہے اور سوات کے ایک کالج میں انہوں نے تین برس تک ایک ہر دلعزیز استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں قاضی صاحب نے تحریکی مصروفیات کی بنا پر کالج کو خیرباد کہا اور پشاور میں اپنا کاروبار شروع کر دیا۔
قاضی صاحب 1970ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے اور پھر وہ تیزی سے دہائیوں کا سفر سالوں میں طے کرتے ہوئے 1978ء میں جماعت کے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ وہ جماعت اسلامی کے مولانا مودودی کے بعد دوسرے امیر میاں طفیل محمد کے معتمدِ خاص تھے۔ 1987ء میں قاضی صاحب پہلی مرتبہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے اور 20برس تک وہ اس منصب پر جماعت کے شفاف انتخابی نظام کے ذریعے فائز رہے۔ 1985ء سے وہ چھ برس تک سینیٹر بھی رہے۔ قاضی صاحب نے سیاسی میدان میں کئی نئے نئے تجربات کیے مگر متحدہ مجلسِ عمل کا قیام ان کی بہت بڑی دینی و سیاسی کامیابی شمار ہوتا ہے۔
متحدہ مجلس عمل کے پہلے صدر مولانا شاہ احمد نورانی تھے اور اُن کی وفات کے بعد تمام دینی جماعتوں نے قاضی حسین احمد کو دوسرا صدر منتخب کر لیا تھا۔ 2002ء میں دینی جماعتوں کی محیر العقول شاندار انتخابی کامیابی سے ساری مغربی دنیا کو یہ پیغام گیا کہ پاکستانی ووٹروں نے دینی جماعتوں کو اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے ووٹ دے کر انہیں منتخب کیا ہے۔
محترم قاضی حسین احمد میرے والدِ گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری کی دینی و تحریکی خدمات اور اُن کی خطابت کے دل و جان سے قدر دان تھے۔ وہ اسی بنا پر بطورِ خاص ہم بھائیوں کے ساتھ نہایت شفقت سے پیش آتے تھے۔ قاضی صاحب سے بارہا ملاقاتیں ہوئیں وہ اختلافِ رائے کو غور سے سنتے اور پھر اپنے مؤقف کو وضاحت و صراحت کے ساتھ بیان فرماتے تھے۔ یہ طالب علم والد ِمحترم کی اتحادِ علما کے لیے برسوں جاری رہنے والی جہدِ مسلسل کے زیر اثر ہمیشہ دینی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا خواہاں رہا ہے۔ لہٰذا اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ایم ایم اے کے جاری رہنے کو جماعت اسلامی اور دیگر بڑی دینی جماعتوں کے لیے نہایت سود مند و مفید سمجھتا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔
میں اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق یہ نہیں چاہتا تھا کہ اتنی شاندار انتخابی کامیابی کے بعد دینی اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو۔ جب 2008ء کے انتخابات آئے تو قاضی صاحب محترم کی رائے یہ تھی کہ اس انتخاب کا بائیکاٹ کیا جائے۔ قاضی صاحب کے بے حد احترام کے باوجود میرا طالب علمانہ نقطۂ نظر مختلف تھا۔ میں نے اس زمانے میں دو کالم ''No بائیکاٹ‘‘ کے عنوان سے لکھے تھے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ شاید قاضی صاحب نے میرے اوپن اختلافِ رائے کو قدرے محسوس فرمایا ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ ہمیشہ ایسی کسی اخباری بحث میں بالآخر اُن کی شفقت ہی غالب آتی ہے۔ تاہم کچھ دنوں تک میرے دل و دماغ میں مرشد اقبال کا یہ شعر گونجتا رہا:
اب وہ الطاف نہیں‘ ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں
اُنہی دنوں قاضی صاحب ہمارے خاندان میں شادی کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ جب وہ تقریب سے واپس روانہ ہوئے تو میں نے آگے بڑھ کر ان کی گاڑی کا دروازہ کھولا۔ وہ رک گئے اور بڑے پُرجوش طریقے سے انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور پھر مسکراتے ہوئے فرمایا: ''حسین احمد! تم ہمارے نمائندے ہو‘ کسی اور کے نہیں‘‘۔ یوں محبت و شفقت اور تعلقِ خاطر کی دیرینہ فضا پوری بہار کے ساتھ لوٹ آئی۔ میری بیٹی اسما کی تقریبِ رخصتی پر وہ لاہور تشریف لائے تھے اور انہوں نے مختصر مگر نہایت جامع خطبۂ نکاح ارشاد کیا تھا اور نو بیاہتا جوڑے کو باہمی محبت و مودت کے لیے نصیحتوں اور دعاؤں کا گلدستہ بھی پیش کیا تھا اور بیٹی کو اپنی طرف سے ہدیہ بھی دیا تھا۔
قاضی صاحب اس لحاظ سے جماعت اسلامی کے ایک منفرد امیرِ جماعت تھے جو بیک وقت اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ اُردو‘ انگریزی‘ عربی اور فارسی پر عبور رکھتے تھے۔ لہٰذا کسی بھی مسلم ملک میں اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے میں انہیں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔ قاضی صاحب کی ذاتی و جماعتی صفات اَن گنت ہیں تاہم ان کی خوئے دلنوازی ایک ایسا وصف تھا کہ جس کی بنا پر ان سے نظریاتی و سیاسی اختلاف رکھنے والے دانشور اور سیاستدان بھی ان کے گرویدہ ہو جاتے تھے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں