ساری قوم دیکھ رہی ہے کہ ہر روز یہ حکومت اپنے اور قوم کیلئے کوئی نہ کوئی نیا مسئلہ کھڑا کر لیتی ہے۔ مدارس بل بھی ترمیم شدہ 26ویں آئینی ترمیم کا حصہ ہے یہ نہایت سلیس‘ واضح اور قابلِ فہم قانونی دستاویز ہے جسے آفٹر شاکس کی طرح کچھ ''آفٹر تھاٹس‘‘ نے معمہ بنانے کی کوشش کی۔ مگر اس کوشش میں حکومت کو کامیابی نہیں‘ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔حکومت نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کئی نشستوں میں بیٹھ کر تفصیل سے اس بل کی شق وار خواندگی کی۔ اس بل کو وزارتِ قانون نے مرتب کیا۔ پہلے اسے سینیٹ سے منظور کرایا گیا اور پھر متفقہ طور پر قومی اسمبلی سے اسکی منظوری لی گئی تھی۔ سینیٹ سے یہ بل 20 اکتوبر کو پاس ہوا تھا اور جب یہ قومی اسمبلی پہنچا تو تاریخ بدل چکی تھی۔ 21 اکتوبر کو غالباً طلوعِ سحر کے قریب قومی اسمبلی نے بھی اس متبرک بل کو منظور کرلیا۔
مدارس بل کیا ہے؟ مختلف حکومتوں کیساتھ مولانا فضل الرحمن کے مذاکرات ہوتے رہے۔ اُن کا مؤقف یہ تھا کہ جس طرح سوسائٹیز ایکٹ کے تحت ملک کے سینکڑوں جدید تعلیمی و رفاہی ادارے رجسٹرڈ ہیں اسی طرح دینی مدارس کو بھی اس ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کا حق دیا جائے۔ موجودہ حکومت نے اس بنیادی قانونی حق کو تسلیم کر لیا‘تاہم 28 اکتوبر کو صدر نے 26ویں آئینی ترمیم کے ہر حصے پر اپنے دستخط ثبت کر دیے مگر مدارس بل پر کوئی اعتراض لگا کر اسے واپس قومی اسمبلی بھیج دیا۔ سپیکر قومی اسمبلی جناب ایاز صادق نے معمولی نوعیت کی کوئی قلمی سی غلطی درست کر کے اسے دوبارہ ایوانِ صدر بھیج دیااور ساتھ یہ نوٹ لکھا کہ آئین کی دفعہ 75کے تحت کسی جوائنٹ سیشن کی ضرورت نہیں۔مولانا فضل الرحمن کا مؤقف یہ ہے کہ صدر کو کسی بل پر ایک بار اعتراض لگا کر بھیجنے کا استحقاق حاصل ہے۔ دوسری بار وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ جب پارلیمنٹ سے دوبارہ کوئی بل صدر کو بھیجا جاتا ہے تو وہ چاہے اس پر دستخط کرے یا نہ کرے‘ وہ ایکٹ بن جاتا ہے۔ مولانا نے حکومت سے پُرزور مطالبہ کیا ہے کہ مدارس بل ایکٹ بن چکا ہے‘ لہٰذا اب حکومت اسکا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرے۔ قارئین کی معلومات کیلئے یہ عرض کر دوں کہ پاکستان میں دینی مدارس کے پانچ مرکزی بورڈز ہیں۔ ایک بریلوی مسلک کا‘ دوسرا دیوبندی‘ تیسرا شیعہ‘ چوتھا اہلِ حدیث اور پانچواں جماعت اسلامی کے زیر انتظام کام کر رہا ہے۔ چند سال قبل کچھ مزید مدارس بورڈز کی منظوری بھی دی گئی تھی مگر مرکزی مدارس بورڈز یہی ہیں۔ہمارا اندازہ تھا کہ حکومت اپنے روایتی حلیف اور مصیبت میں کام آنیوالے دوست مولانا فضل الرحمن کی ناراضی کا رسک نہیں لے گی۔ حکومت نے خود ساختہ مسئلے کو حل کرنے کے بجائے کچھ غیر معروف علمائے کرام کے ذریعے مولانا کے مؤقف کی نفی کرنے کی کوشش کی مگر 17 دسمبر کو دینی مدارس کے پانچوں مرکزی تعلیمی بورڈوں کے اتحادِ تنظیمات مدارس کے سرکردہ ذمہ داران نے اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن سے اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ انہوں نے مولانا کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ اب سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹریشن بل کو پاکستان کے تمام دینی مسالک کی بھی مکمل حمایت حاصل ہو چکی ہے۔
اس ملاقات کے بعد مفتی تقی عثمانی کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ 2019ء میں ہم نے حکومتی دباؤ کے تحت وفاقی وزارتِ تعلیم کا ''ہلکا پھلکا‘‘ کنٹرول تسلیم کر لیا تھا مگر اسکے بعد حکومتی یقین دہانی کے باوجود مدارس میں براہِ راست مداخلت کی گئی۔ اس حوالے سے دینی اداروں کو کئی تلخ تجربات سے گزرنا پڑا۔ مفتی صاحب نے حکومت کو انتباہ کیا کہ دینی ادارے خود مختار رہیں گے اور ہم کسی اور ڈیپارٹمنٹ کی کوئی مداخلت قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستانی دینی مدارس سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور مصر کی طرح حکومت کی ماتحتی قبول نہیں کریں گے۔مولانا فضل الرحمن منظور شدہ مدارس بل سے حکومت کی روگردانی اور وعدہ خلافی سے بہت نالاں ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے چند روز پہلے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک پریس کانفرنس میں مولانا کا جاہ و جلال دیکھا تھا اور تین چار روز قبل قومی اسمبلی میں مولانا کا جمال و استدلال بھی دیکھا ہے۔ مولانا نے اس پریس کانفرنس میں ایوانِ صدر پر سخت تنقید کی اور کہا کہ عملاً کوئی حکومت نہیں۔ بقول مولانا‘ آئین کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ اس دوران بدھ کے روز ایم کیو ایم کے وفد نے وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں اسلام آباد میں مولانا کی رہائش گاہ پر اُن سے ملاقات کی اور مدارس بل کے بارے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی۔مولانا نے ایم کیو ایم وفد سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ مدارس ایکٹ کی عبارت کو آگے پیچھے کیا گیا تو پھر فیصلہ ایوان میں نہیں میدان میں ہوگا۔تین چار روز قبل مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں پارلیمانی تاریخ کی ایک یادگار تقریر کی۔ انہوں نے 2004ء سے لے کر 2024ء تک کی مدارس رجسٹریشن کی تاریخ وضاحت و صراحت کیساتھ بیان کی اور کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن‘ اُن کے اکاؤنٹس کھولنے اور بیرونی طلبہ کو 9سالہ ویزا دینے کے وعدے پورے نہیں کیے گئے تھے۔
سوسائٹیز ایکٹ کے تحت مدارس کسی حکومتی ڈیپارٹمنٹ کے تحت نہیں ضلعی انتظامیہ کے زیر انتظام کام کرتے ہیں۔ مولانا نے ایوان کے اندر نہایت شرح و بسط کے ساتھ ارکانِ پارلیمنٹ کو خبردار کیا کہ اگر آج مدارس بل کے خلاف تاخیری کارروائی کیلئے پارلیمنٹ نے ایوانِ صدر کی غیر آئینی مداخلت قبول کرلی تو پھر آئندہ کیلئے یہ نظیر بن جائے گی جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایوان کی خود مختاری صدارتی کنٹرول میں دے دی گئی ہے۔حکومت کو تو دینی اداروں کا شکر گزار اور ممنون ہونا چاہیے کہ وہ اپنے وسائل اور اہلِ خیر کے تعاون سے کروڑوں نہیں تو لاکھوں طلبہ و طالبات کو دینی و دنیاوی تعلیمات دے رہے ہیں اور ان کی اخلاقی تربیت بھی کرر ہے ہیں۔ایک سرکاری ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 35 ہزار دینی مدارس ہیں‘ ان میں سے 17738 مدارس رجسٹرڈ ہیں‘ اور دیگر رجسٹریشن کے مراحل میں ہیں۔ مجموعی طور پر میں ان مدارس میں 30 سے35 لاکھ طلبہ و طالبات کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔
ہم نے کچھ مدت پہلے بی بی سی کی ایک رپورٹ دیکھی تھی کہ جس میں کہا گیا تھا کہ صدر پرویز مشرف کی جدت پسندی اور میاں نواز شریف کی روشن خیالی کے باوجود پاکستان میں رجعت پسندی بڑھ رہی ہے۔ اس مشہور نشریاتی ادارے نے نہایت سطحی معلومات سے کام لیتے ہوئے رجعت پسندی کی دلیل یہ دی کہ پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد بڑھ رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ پاکستان کے سرکاری بورڈوں اور یونیورسٹیوں میں امتحانات دے کر اعلیٰ پوزیشنز حاصل کرتے ہیں۔ ان کا علم ٹھوس جبکہ سرکاری اداروں کے طلبہ کا مبلغ علم سطحی ہوتا ہے۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ آئی ایم ایف وغیرہ جن اداروں کا دباؤ محسوس کرتے ہیں‘ انہیں حقیقت حال سے آگاہ کریں۔مولانا فضل الرحمن بار بار حکومت کو باور کرا رہے ہیں کہ وہ مدارس بل کے بارے میں ہرگز کوئی تصادم نہیں چاہتے کیونکہ ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت مولانا کی یہ بات تسلیم کرے کہ آئینی طورپر مدارس بل ایکٹ بن چکا ہے اور اس کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔ کل جمعۃالمبارک کے روز وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر مولانا فضل الرحمن کی ان سے اور دیگر حکومتی زعما سے مدارس بل کے حوالے سے خوشگوار ملاقات ہوئی۔ اللہ کرے کہ یہ مسئلہ اب بخیر و خوبی طے ہو جائے۔ قوم توقع رکھتی ہے کہ حکومت حکمت و دانش سے کام لیتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے گی اور معاملہ ایوان سے میدان میں نہیں جانے دے گی۔