جب میں نے بدھ کے روز حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کی بریکنگ نیوز سنی تو میں نے اپنے اندر خوشی اور اطمینان کی ایک لہر دوڑتی ہوئی محسوس کی۔ ارتجالاً میرے منہ سے نکلا: بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔ بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق مذاکرات بلاتاخیر شروع ہو جانے چاہئیں۔ ہم ان کالموں میں ہمیشہ پی ٹی آئی کے زعما سے یہ گزارش کرتے چلے آ رہے ہیں کہ آپ سڑکوں کے بجائے اسمبلیوں میں آئیں۔ ڈی چوک کے بجائے اس سے متصل پارلیمنٹ میں اپنے زورِ بیان کا جادو جگائیں اور دلیل کی طاقت سے اپنا نقطۂ نظر منوائیں۔ یہ بہت اچھی پیش رفت ہے کہ پی ٹی آئی اپنے جارحانہ اندازِ احتجاج کو وقتی طور پر ہی سہی‘ خیر باد کہہ کر پارلیمنٹ میں واپس آگئی ہے۔
مذاکرات کے لیے بنتی ہوئی سازگار فضا کا یہ پہلو بہت مثبت ہے کہ سابق سپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر اور موجودہ سپیکر جناب سردار ایاز صادق دونوں نہایت دھیمے مزاج کے سنجیدہ حضرات ہیں۔ گزشتہ دنوں اسد قیصر صاحب لاہور تشریف لاتے رہے تو ان سے دو تین بار تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔ وہ معاملات کو مذاکرات کی میز پر ہی حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہم ایاز صادق صاحب کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ دونوں صاحبان بات بنانے والے ہیں‘ بگاڑنے والے نہیں۔
اس وقت ہر سطح پر مذاکرات کی ضرورت ہے۔ خود حکومتی اتحاد میں شامل دونوں بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) بھی اعتماد کے بحران کا شکار ہیں۔ ان میں مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔ اول الذکر جماعت کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے مذاکرات ابھی تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئے۔ نہ جانے اس حکومت کو نئے نئے محاذ کھولنے کا شوقِ فراواں کیوں ہے۔ اب انہوں نے اپنے پرانے ہمدرد اور ساتھی مولانا فضل الرحمن کو بھی ناراض کر لیا ہے۔ مولانا مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور صدر آصف علی زرداری کے رویے سے بہت نالاں ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر جو بل حکومت نے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور کرایا تھا اسے صدر نے اعتراضات لگا کر حکومت کو بھیج دیا تھا۔ مولانا نے رات مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ دس روز کے بعد یہ بل خود بخود ایکٹ بن جاتا ہے۔
مولانا نے جمعرات کے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایوانِ صدر پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ عملاً کوئی حکومت نہیں۔ بقول مولانا‘ آئین کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جا رہا ہے‘ پارلیمنٹ کو مذاق بنا دیا گیا ہے‘ اپنی ہی قانون سازی کا تماشا بنا دیا گیا ہے اور ہمارا بھی مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ مولانا نے حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ آئین کے مطابق صدر کی نامنظوری کے باوجود از خود ایکٹ بن جانے والے مدارس بل کا فوری نوٹیفیکیشن جاری کرے۔ حکومت کو اندازہ ہونا چاہیے کہ مولانا معاہدے سے روگردانی کی بنا پر نہایت آزردہ خاطر ہیں۔ بقول غالب ؎
بارہا دیکھی ہیں اُن کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے
اس وقت ملک کو ایک نہیں کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کا عفریت بار بار سر اٹھا رہا ہے۔ دہشت گردوں کی اموات کے ساتھ ساتھ ہمارے جوانوں کی شہادتیں بھی ہو رہی ہیں۔ اگر ملک میں سیاسی طور پر بے چینی نہیں ہو گی اور کاروبارِ مملکت تمام سیاسی جماعتوں کی شمولیت سے بخیر و خوبی چل رہا ہوگا اور ملکی معاملات کے بارے میں قومی سطح پر یکجہتی اور یکسوئی ہو گی تو پھر دہشت گردی کے ایشو سے نبٹنا آسان ہو گا۔ اس مسئلے سے مستقل نجات کے لیے آپریشن کے ساتھ ساتھ کوئی اور بھی متفقہ و متحدہ طریق کار اختیار کیا جائے تو اس کی کامیابی کے امکانات بھی روشن ہو سکتے ہیں۔
دہشت گردی کے بعد ہمارا دوسرا اہم مسئلہ معیشت کا ہے۔ معاشی استحکام سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم ادھر سے قرض لے کر اُدھر ادا کر دیتے ہیں۔ سٹاک ایکسچینج کا وقتی طور پر اوپر جانا معاشی ترقی ناپنے کا کوئی پیمانہ نہیں۔ بجلی اور گیس کے روز افزوں نرخ ملک کی 80 فیصد آبادی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ معاشی صورتحال کا درست پیمانہ کسی ملک کی جی ڈی پی یعنی مجموعی سالانہ آمدنی ہے۔ جب یہ آمدنی ملکی آبادی پر تقسیم کر دی جاتی ہے تو پھر فی کس سالانہ آمدنی معلوم ہو جاتی ہے۔ اپنے خطے کے ممالک میں ہماری فی کس آمدنی سب سے کم ہے۔ جنوبی کوریا کی آمدنی 36 ہزار ڈالر فی کس سالانہ اور ہماری صرف 1587 ڈالر فی کس سالانہ ہے۔ حکومت پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا ناقابلِ برداشت بوجھ ہے۔ حکومت پر 87 ارب ڈالر سے زیادہ اپنے بینکوں کا قرضہ ہے۔ ستمبر 2024ء کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان پر بیرونی قرضہ 133.5 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ اس قرضے میں تقریباً 69 ارب ڈالر چین کے ہیں‘ 39 ارب ڈالر متفرق عالمی اداروں کے‘ تقریباً ساڑھے سات ارب ڈالر پیرس کلب کے اور تقریباً اتنے ہی آئی ایم ایف کے ہیں۔
ہماری معیشت کی بہتری کے لیے قرضوں کی نہیں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ہمیں نئی نئی صنعتوں کی بے حد ضرورت ہے جبکہ ایک تازہ ترین جائزے کے مطابق اس وقت فیصل آباد کی ٹیکسٹائل ملوں میں سے صرف ایک چل رہی ہے اور باقی سب بند ہیں۔ جب تک آئی ٹی کے شعبے کو تیز رفتار انٹرنیٹ اور دیگر سہولتیں نہیں دی جائیں گی اس وقت تک کوئی اقتصادی بہتری نہیں آ سکتی۔ اگر ہم فی کس آمدن 30 ہزار ڈالر سالانہ کا ہدف مقرر کریں اور یہ بھی تصور کر لیں کہ آبادی یہی رہے گی تو اس ٹارگٹ کو 10 فیصد سالانہ شرح نمو کے ساتھ حاصل کرنے کے لیے ہمیں 31 برس لگیں گے۔
معیشت کے علاوہ دوطرفہ تلخ ترین سیاسی چپقلش سے ہماری تہذیب و معاشرت کا بھی بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ فیک نیوز کو کوئی برائی سمجھا ہی نہیں جاتا جبکہ قرآنی حکم یہ ہے کہ اے ایمان والو! تمہارے پاس کوئی خبر آئے تو آگے پھیلانے سے پہلے اس کی تصدیق کر لیا کرو۔ ہماری ساری گزارشات کا لب لباب یہ ہے کہ امن و امان‘ سیاست و معیشت اور باہمی ادب و احترام کے لیے مذاکرات ازبسکہ ضروری ہیں۔ مذاکرات کی کامیابی کے لیے سازگار فضا ایک بنیادی تقاضا ہے۔ دونوں بڑی پارٹیوں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کو اپنے اپنے سوشل میڈیا کو فوری طور پر بریک لگانا ہوگی۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے جناب عطا تارڑ اور طلال چودھری‘ کی دورانِ مذاکرات زباں بندی کی جائے تو سیاسی ماحول خوشگوار ہو سکتا ہے۔ ایک بہت اچھی پیش رفت یہ بھی ہوئی ہے کہ میرے برادرِ مکرم سینیٹر جناب عرفان صدیقی‘ جو گزشتہ کئی ماہ سے پی ٹی آئی کے طرزِ سیاست کے خلاف اپنے کاٹ دار ادیبانہ قلم سے خاصے تندو تیز کالم تحریر کر رہے تھے‘ انہوں نے بھی نہایت فراخدلی سے مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ مسائل و معاملات کا حل مذاکرات ہی ہیں۔ اگرچہ پسِ دیوارِ زنداں ہماری رسائی نہیں مگر ہم عمران خان سے بھی گزارش کریں گے کہ وہ اپنی مذاکراتی ٹیم پر مکمل اعتماد کا اظہار فرمائیں‘ زمینی حقائق کو جیل میں بیٹھ کر سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔
پی ٹی آئی کی سنجیدہ اور سمجھدار ٹیم‘ جو کہ اب پانچ سے سات رکنی ہو گئی ہے‘ اس میں پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر اور اسد قیصر جیسے لوگ شامل ہیں۔ حکومت بھی سپیکر قومی اسمبلی جناب سردار ایاز صادق کی قیادت میں سنجیدہ لوگوں کی مذاکراتی ٹیم تشکیل دے کر فراخدلی سے گفت و شنید کرے تاکہ مذاکرات کی نیّا کنارے لگے‘ بیچ منجھدار نہ پھنس جائے۔