گزشتہ نو ماہ سے بلوچستان پر کبھی قیامتِ صغریٰ اور کبھی قیامتِ کبریٰ کا ٹوٹنا ایک معمول بن چکا ہے۔ دہشت گردی کی اس لہر کے دوران سارے صوبے کو لہو میں نہلا دیا گیا۔ ان حملوں میں رواں برس اب تک صوبے میں کم از کم 270 افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔
26 اگست کو ایک انتہائی ہولناک واقعہ پیش آیا تھا جب دہشت گردوں نے بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں ٹرکوں اور مسافر بسوں سے مسافروں کو اُتار کر ‘ اُن کے شناختی کارڈ چیک کرکے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 23 افراد کو بے دردی سے قتل کر ڈالا۔ بلوچستان کو پنجاب اور سندھ سے ملانے والے واحد ریلوے پل کو بولان کے مقام پر بم سے اُڑا دیا گیا۔ جیسا کہ ہماری روایت ہے‘ اس سانحہ کے اگلے روز وزیراعظم کوئٹہ پہنچے۔ کئی اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوئے۔ خیال یہ تھا کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے اس واقعے کو خطرے کی بہت بڑی گھنٹی سمجھتے ہوئے سرجوڑ کر بیٹھیں گی اور صوبے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب کریں گی۔ مگر وائے افسوس! وقتی و رسمی بھاگ دوڑ کے بعد اللہ اللہ خیر سلا۔ نہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکا اور نہ ہی اس آفت سے نجات اور مکمل امن کے قیام کے لیے کوئی پالیسی وضع کی جا سکی۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران کئی دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں جن میں معصوم شہری اور سکیورٹی کے جانباز جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ اس ''آنکھ بند‘‘ پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ نو نومبر صبح تقریباً آٹھ بجے کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر خودکش دھماکا ہوا جس میں 27 افراد شہید اور 62 زخمی ہوئے۔ سات سے آٹھ کلو بارودی مواد جسم سے باندھے بمبار نے مسافروں کے درمیان آ کر خود کو اڑا لیا۔ زخمیوں کی چیخ و پکار سے ماتم کا سماں تھا۔
وزیراعظم تو اُس وقت ملک سے باہر ہیں‘ البتہ وزیر داخلہ جناب محسن نقوی رسمِ دنیا نبھانے اور بعد از مرگ واویلا پالیسی کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے کوئٹہ پہنچے اور انہوں نے اُسی طرح کی کارروائی کرتے ہوئے اجلاس منعقد کیے اور ویسی ہی بیانات دیے جیسے 26 اگست کی ہولناک دہشت گردی کے بعد وزیراعظم نے کوئٹہ پہنچ کر دیے تھے۔ انگریزی زبان میں ایسی کارروائی کو ''Eye Wash‘‘ کہتے ہیں۔ سانحۂ کوئٹہ ریلوے سٹیشن کے حوالے سے بلوچستان میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا۔ محسن نقوی کے ساتھ وزیراعلیٰ بلوچستان اور دیگر اداروں کے سربراہان بھی اس اجلاس میں موجود تھے جن کی طرف سے دہشت گردوں کا سر کچلنے کے لیے پوری طاقت سے فیصلہ کن اقدامات کا عزم کیا گیا۔
اللہ کرے اس بار یہ ارادے اور منصوبے زبانی کلامی نہیں‘ حقیقی ثابت ہوں۔ دہشت گردوں کا سر کچلا جائے اور بلوچستان میں امن وامان قائم ہو۔ تاہم ہمارے صوبائی حکمران ہوں یا مرکزی‘ اُنہیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ اس طرح کے خوفناک سانحات کے اثرات صرف شہدا یا مجروحین تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ آئندہ نسلوں تک منتقل ہوتے ہیں۔ کتنے بچے یکایک یتیم ہو جاتے ہیں۔ کتنی سہاگنیں بیوہ ہو جاتی ہیں۔ کتنی مائیں اپنے نورِ نظر سے محروم ہو جاتی ہیں۔ کتنے والد عصائے پیری کھو دیتے ہیں۔
ان اچانک اموات سے خاندانوں کو جو جذباتی صدمہ ہوتا ہے‘ اس کی تو ہمارے حکمرانوں کو کوئی خبر نہیں۔ جو بچے باپ کی شفقت اور اس کے کندھوں پر سواری کے لطف سے محروم ہوتے ہیں اُن کے اندر دوسرے بچوں جیسا اعتماد کبھی نہیں آ سکتا۔ میں نے کبھی نہیں سنا کہ ہمارے حکمرانوں نے واضح طور پر کہا ہو کہ اب ہم ان بچوں کے والدین ہیں۔ ہم انہیں ملک کے اعلیٰ ترین بورڈنگ ہاؤسز‘ سویٹ ہومز اور الخدمت اور اخوت کے یتیم بچوں کے لیے اعلیٰ پائے کے سکولوں میں داخل کرائیں گے اور بے سہارا خاندانوں کی مکمل کفالت اپنے ذمے لیں گے۔
حکمرانوں کو یاد دلانے کے لیے میں ایک بار پھر اپنے اگست 2024ء والے کالم سے چند سطور نذرِ قارئین کر رہا ہوں۔ اس بات پر سب تاریخ نویسوں اور اخبار نویسوں کا اتفاق ہے کہ جنرل ضیا الحق کے زمانۂ اقتدار میں بلوچستان خوشحالی اور امن و سلامتی کا گہوارہ بن گیا تھا۔ جنرل صاحب کے مقرر کردہ جنرل رحیم الدین 1978ء سے 1984ء تک چھ برس بلوچستان کے گورنر رہے۔ اُن کے زمانے کو اس صوبے کا ایک سنہری دور سمجھا جاتا ہے۔ گورنر رحیم الدین نے بیک وقت سہ نکاتی پروگرام پر عملدرآمد کیا۔ پہلے قدم کے طور پر انہوں نے دہشت گردانہ کارروائیوں کی روک تھام کر کے لاء اینڈ آرڈر کو فول پروف بناکر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا۔ جنرل صاحب نے کوئی ملٹری آپریشن کیا اور نہ ہی کوئی ٹینک اور گن مین بلائے‘ بس سارے قانونی تقاضے پورے کرکے ایک قاتل کو بیچ چوراہے پھانسی پر لٹکا دیا۔ دوسرا قدم گڈگورننس اور حقیقی عدل و انصاف کا قیام تھا۔ ان کا تیسرا کام یہ تھا کہ ایک طرف سرداروں کا احترام ملحوظِ خاطر رکھا تو دوسری طرف مظلوموں کی داد رسی کی۔
مولانا ہدایت الرحمن کو میں گزشتہ چند برس سے جانتا ہوں۔ وہ دلِ دردمند رکھتے ہیں‘ نہایت مخلص اور دیانت دار ہیں‘ ذاتی منفعت سے ماورا ہیں۔ اگرچہ اُن کے دل میں سارے پاکستانیوں کے لیے محبت کے جذبات ہیں مگر اپنے علاقے گوادر اور بلوچستان کے مظلوم لوگوں کے دکھ درد کو وہ شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ انہیں ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے پُرامن احتجاجی تحریک بھی چلاتے رہے ہیں۔ ان دنوں وہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے ممبر اور امیر جماعت اسلامی بلوچستان ہیں۔ 11 نومبر کو اُن سے بات ہوئی تو وہ اپنے صوبے میں بدامنی اور دہشت گردانہ کارروائیوں پر بہت دل گرفتہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ بارہا حکمرانوں کے ساتھ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس اور مختلف میٹنگز میں تبادلۂ خیال ہوا۔ میں نے انہیں دہشت گردانہ کارروائیوں میں بیرونی ہاتھ اور فنڈنگ روکنے نیز نوجوانوں کے تنگ آمد بجنگ آمد والے رویے کے حقیقی اسباب کا کھوج لگانے اور اُن کا تدارک کرنے کے مشورے دیے۔ اور صوبے میں حقیقی عدل و انصاف کے قیام کے لیے گہرے غور و فکر سے کام لینے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکمرانوں نے کبھی سنجیدگی کے ساتھ اس طرف توجہ نہیں دی۔ میں نے مولانا ہدایت الرحمن سے سوال کیا کہ نوجوان بیرونی مداخلت کرنے والوں کی طرف کیوں راغب ہو جاتے ہیں؟ امیر جماعت اسلامی بلوچستان کا جواب تھا کہ ہم یہی تو حکمرانوں سے کہتے ہیں کہ آپ ان نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کریں مگر عملی صورتحال یہ ہے کہ بیرونی مداخلت کاروں کو آہنی ہاتھوں سے روکنے کے بجائے محض سکیورٹی چیک پوسٹوں کی تعداد کو بڑھا دیا جاتا ہے۔ ان چوکیوں پر عوام کو قدم قدم پر روکا جاتا ہے‘ اُن سے اہانت آمیز سلوک ہوتا ہے۔ بزرگوں کا احترام نہیں کیا جاتا۔ خواتین کو گاڑیوں سے اتارا جاتا ہے۔ میں نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جب ان کے والد غائب اور بعد ازاں قتل کر دیے گئے تو وہ ایک بچی تھی۔ وہ سو فیصد پُرامن تحریک پر ایمان رکھتی ہے۔
ہم نہایت درد مندی کے ساتھ حکمرانوں کو توجہ دلائیں گے کہ وہ سنجیدگی سے معاملات کاجائزہ لیں۔ مظلوموں کی بات غور سے سنیں اور ان کی داد رسی کریں۔ ہماری یہ بھی تجویز ہو گی کہ حکمران مولانا ہدایت الرحمن‘ اختر مینگل‘ محمود خان اچکزئی‘ مولانا فضل الرحمن‘ مولانا عبدالغفور حیدری اور اس طرح کے دیگر اہلِ درد سیاستدانوں سے مشورہ کر کے ایسی پالیسی وضع کریں کہ جس سے صوبے میں امن و امان اور ایک ایسی فضا قائم ہو کہ کسی کے ساتھ ظلم نہ کیا جائے۔