پاکستان سے باہر جائیں تو پاکستان سے متعلق سوالات سے مفر کسی طور ممکن نہیں۔ لاکھ جان بچائیں مگر فکرمند دوست لاکھ منع کرنے کے باوجود پاکستان کے بارے میں سوالات کرنے سے نہیں رکتے۔ سچ پوچھیں تو سنجیدہ اور غیرسیاسی دوست پاکستان کی سیاست سے کہیں زیادہ پاکستان کی معیشت کے بارے میں فکر مند ہیں۔ سیاسی عدم استحکام ملک کیلئے اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا خوفناک معاشی عدم استحکام ہوتا ہے۔ معیشت مضبوط ہو تو سیاسی عدم استحکام ملک کی سلامتی کو رتی برابر بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ جاپان وغیرہ کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ حکومتیں چھ چھ ماہ بعد ٹوٹتی رہی ہیں اور سال میں تین تین وزرائے اعظم آتے رہے ہیں مگر جاپان کی سلامتی کو اس سے کبھی کوئی نقصان نہیں ہوا۔ حکومت بدلنے سے ان کے صنعتی‘ معاشی اور اقتصادی ڈھانچے پر خراش تک نہیں آتی۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر معاشی معاملات دگرگوں ہوں تو پھر سیاسی عدم استحکام ہر چیز پر اثر انداز ہوتا ہے۔ سیاسی بے چینی سے معیشت کی چولیں مزید ہل جاتی ہیں اور ملک کی سلامتی تک داؤ پر لگ جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ قرض پر چلنے والی معیشتیں سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو جائیں تو معاملات کو تشویشناک حد تک خرابی کی طرف لے جاتی ہیں۔ ہم اس وقت بالکل اسی نہج پر پہنچ چکے ہیں۔
ہمارے ہاں سیاسی بحث بلاشبہ اب لاحاصل اور بے فائدہ بدمزگی کے علاوہ اور کچھ نہیں رہ گئی مگر معاشی معاملات پر بہرحال گفتگو ہونی چاہیے لیکن اس میں بھی خرابی یہ ہے کہ گفتگو کا آغاز معاشی صورتحال سے بھی کیا جائے تو چند منٹ کے بعد یہ سنجیدہ گفتگو گھوم پھر کر سیاست پر آ جاتی ہے اور اس خرابی کا ملبہ ہر شخص اپنی مرضی سے اپنے ناپسندیدہ فریق پر ڈال دیتا ہے اور پھر بات سیاسی ہو جاتی ہے۔ بحث اس بات پر شروع ہو جاتی ہے کہ کس لیڈر نے اور کس پارٹی کی حکومت نے زیادہ قرض لیا۔ آمدن اور خرچ میں عدم توازن ہو اور اس کے درمیانی فریق کو قرض لے کر پورا کیا جاتا ہو تو ہر آنے والا دن پہلے دن سے زیادہ بدتر اور خراب ہوتا ہے۔ اگر اس ماہ دس روپے کم پڑے ہیں تو اگلے ماہ پچھلے ماہ کے دس روپے کی ادائیگی کے ساتھ ادھار کی رقم بیس روپے ہو جائے گی اور ہر ماہ یہ فرق بڑھتا جائے گا۔ جیسے جیسے فرق بڑھتا جائے گا ویسے ویسے ادھار بڑھتا جائے گا اور اس فرق کو پورا کرنے کے لیے قرض کی رقم کی ضرورت بڑھتی جائے گی۔ اب اس بات سے کیا بحث کہ کس نے زیادہ قرض لیا اور کس نے کم۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی حکومت نے بھی آمدن اور خرچ کے عدم توازن کو ختم کرنے کیلئے نہ کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی اور نہ اس کا کوئی طویل المدتی حل تلاش کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کیا۔ سستی شہرت اور شارٹ ٹرم حل نکال کر سیاسی پوائنٹ سکور کرنے اور عوامی مقبولیت حاصل کرنے کیلئے کیے جانے والے اقدامات نے پہلے سے خراب معاشی صورتحال کو مزید خراب کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کیا۔
لندن میں ایک سنجیدہ دوست سے گفتگو ہوئی تو وہ کہنے لگا: خالد صاحب! اب اس بات پر بحث کرنا کارِ لاحاصل ہے کہ بیرونِ ملک رہائش پذیر پاکستانی پاکستان پیسے کیوں بھجواتے ہیں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اربوں ڈالر کی صورت میں آنے والا یہ زرِ مبادلہ بہرحال پاکستان کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو اسی طرح مزید چند سانسیں ضرور فراہم کرتا ہے جیسے کسی جان بلب مریض کو گلو کوز کی بوتل لگا دی جائے۔ اس سے اس کی بیماری بھلے ختم نہ بھی ہو مگر اس کے ناتواں وجود میں وقتی طور پر ہی سہی‘ زندگی کی رمق ضرور آ جاتی ہے۔ لیکن میں آپ کو یہ تلخ حقیقت بھی بتا رہا ہوں کہ بیرونِ ملک سے بھیجی جانے والی اس خطیر رقم سے نہ تو ملک کی دیرپا معاشی ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں اور نہ ہی اس کا ملکی معیشت پر کوئی مثبت اثر پڑ سکتا ہے۔
میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ اس کی اس بات کا کیا مطلب ہے؟ وہ کہنے لگا: بیرونِ ملک سے بھیجی جانے والی رقوم سے بہت سے گھروں کا خرچہ چل رہا ہے‘ گھر کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں‘ روزمرہ زندگی میں سہولت پیدا ہو رہی ہے مگر ایمانداری کی بات ہے کہ اس رقم کا بیشتر حصہ گھر والے ویسے ہی برابر کر دیتے ہیں جس طرح مستحق لوگ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ملنے والا وظیفہ ہر ماہ کھا کر برابر کر دیتے ہیں اور اگلے ماہ خواتین پھر بینک کے باہر قطار بنا کر کھڑی ہوتی ہیں۔ میرے پاس برطانوی پاسپورٹ ہے اور میں اس پاسپورٹ کی بنیاد پر خلیج میں ایک اچھی نوکری کرتا رہا ہوں۔ اس دوران مجھے وہاں بیشمار پاکستانیوں کے حالات دیکھنے کا موقع ملا۔ درجنوں نہیں‘ سینکڑوں محنت کشوں کو روتے دیکھا کہ وہ گزشتہ دس پندرہ سال سے گھر پیسے بھجوا رہے ہیں لیکن سال بعد گھر جاتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ گھر والوں نے بھیجی جانے والی رقم سے خوب اللّے تللے اڑائے ہیں۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کیا ہے۔ بلا ضرورت چیزیں خریدی ہیں۔ الٹے سیدھے کاروباروں میں لاکھوں روپے برباد کیے ہیں اور عالم یہ ہے کہ اگلے دو ماہ کیلئے بھی پیسے موجود نہیں ہیں۔ مجبوراً چھٹی ختم ہونے سے بھی پہلے واپس آ جاتے ہیں کہ گھر کا خرچہ چل سکے۔
اس میں اس بات کی بھی کوئی تخصیص نہیں کہ پیسہ اڑانے والوں میں اس کے بیوی بچے شامل ہیں یا بہن بھائی یا ماں باپ اس کے ذمہ دار ہیں۔ کردار مختلف ہو سکتے ہیں مگر سب کی کہانی تقریباً ایک جیسی ہے۔ کوئی کاروبار کیلئے پیسے جمع کرکے واپس گیا تو کسی کو اس کے دوستوں نے، کسی کو بھائیوں نے لوٹ لیا تو کسی کو اس کے سالے نے چونا لگا دیا۔ کسی کے گھر والوں نے بہت تیر مارا تو اچھے بھلے آبائی مکان کو اونے پونے بیچ کر کسی جدید رہائشی سکیم میں گھر بنا کر سارا جمع جتھا وہاں لگا دیا۔ محفوظ انویسٹمنٹ کا خیال آیا تو پلاٹ خریدنے کے علاوہ اور کوئی دوسرا کام نہیں کیا۔ بیرونِ ملک سے آنے والے تیس ارب ڈالر کے لگ بھگ سالانہ زر مبادلہ سے اگر کوئی صنعت لگتی‘ پیداواری یونٹ لگتے تو دیرپا معاشی بنیادیں قائم ہوتیں۔ تقریباً ہر سال ہم بیرونِ ملک رہنے والے آدھے سے زیادہ زر مبادلہ یعنی چودہ پندرہ ارب ڈالر صرف پلاٹ خریدنے میں لگا دیتے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ پلاٹ پڑے پڑے مہنگے ہوتے جا رہے ہیں اور ہمارا سرمایہ بظاہر بڑھ رہا ہے لیکن یہ سب فرضی منافع ہے۔ اس پوری سرمایہ کاری میں پراپرٹی مافیا کی دولت میں اضافے کے علاوہ اور کچھ حاصل وصول نہیں ہو رہا۔ سارا ملک صرف اور صرف پلاٹ بنانے اور خریدنے میں لگا ہوا ہے۔ کل کلاں خدانخواستہ ملک کا بھٹہ بیٹھ گیا تو یہ پلاٹ ٹکے کے بھی نہیں رہیں گے۔ پلاٹ اور زمینیں ملکی سلامتی سے جڑی ہوئی ہیں۔
جس شہر میں چلے جائیں اس کے ارد گرد میلوں تک نئی ہاؤسنگ سکیمیں بن رہی ہیں اور بنتی جا رہی ہیں۔ پندرہ ارب ڈالر کو روپوں میں تبدیل کریں تو آپ کی آنکھیں پھٹ جائیں کہ کس قدر پیسہ ان پلاٹوں میں گم ہو رہا ہے۔ پلاٹ بیچنے والوں کی ہوس اس لیے بڑھتی جا رہی ہے کہ خریداروں کی محفوظ انویسٹمنٹ کی ٹھرک ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ ہاؤسنگ اتھارٹیوں کے نت نئے فیز بن رہے ہیں اور اس کی کوئی آخری حد دکھائی نہیں دے رہی۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اگلے دس یا پانچ سال کیلئے کسی بھی نئی ہاؤسنگ سکیم پر پابندی عائد کر دی جائے۔ جتنے پلاٹ اب تک معرض وجود میں آ چکے ہیں‘ یہ اس ملک کی آئندہ دس سال میں بڑھنے والی آبادی کی ضرورت سے بھی کافی زیادہ ہیں۔ انویسٹرز کے چالیس‘ چالیس پلاٹ ہیں اور مزید کی ہوس ہے۔ یہ ہوس کبھی ختم نہیں ہوگی‘ اس کا واحد حل سخت ریگولیشن ہی ہے۔ مگر اس کام میں ملوث افراد سے لے کر اداروں تک‘ سبھی اتنے طاقتور ہیں کہ میری یہ خواہش صرف خواہش ہی رہے گی۔ لیکن آخر خواہش کرنے میں حرج ہی کیا ہے؟