پاکستان میں طب کی تعلیم حاصل کرنے والی کتنی لڑکیاں‘ عملاً طب کا شعبہ اختیار کرتی ہیں؟
ایم اے‘ بی اے طرز کی عمومی تعلیم کا ایک نوجوان کو کیا فائدہ ہے؟
تعلیم کا موجودہ نظام‘ کیا انسان سازی کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے؟
یہ سوالات‘ اگر میں کہوں کہ غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں تو اس میں کچھ مبالغہ نہیں ہوگا۔ ہر سال جب ایم بی بی ایس کے داخلے ہوتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ وہ لڑکوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی اور یوں داخلے کے لیے اپنا استحقاق ثابت کرتی ہیں۔ یہاں تک بات قابلِ فہم ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ ڈاکٹر بننے کے بعد‘ عملاً اس پیشے کو اختیار کرتی ہیں؟ میرے پاس اعداد وشمار تو نہیں مگر میرا مشاہدہ ہے کہ ساٹھ فیصد سے زیادہ لڑکیاں‘ شادی کے بعد گھر کی ہو کر رہ جا تی ہیں۔
طب کا ذکر میں نے بطور مثال کیا ہے۔ اس کو آپ 'پیشہ ورانہ تعلیم‘ سے بدل دیں۔ ہمارے ہاں لڑکیاں کسی خاص شعبے میں تعلیم حاصل کرتی ہیں تو اس کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی مرضی سے‘ آزادانہ طور پر اس شعبۂ تعلیم کا انتخاب کر رہی ہیں۔ والدین یا ماحول انہیں اس طرف دھکیلتا ہے اور اس کا مقصد محض اتنا ہوتا ہے کہ انہیں اچھا رشتہ مل جائے۔ 'اچھا رشتہ‘ بھی ڈاکٹر کو ترجیح دیتا ہے۔ شادی کے بعد جلد ہی دونوں اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ لڑکی کے لیے پیشہ ورانہ زندگی گزارنا ممکن نہیں۔ اس کا سبب ہمارا سماجی ماحول ہے۔ ہم لڑکی سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بیک وقت اچھی بیوی‘ اچھی ماں‘ اچھی بہو اور اچھی بھاوج ہو۔ ایک پیشہ ورانہ زندگی کے ساتھ‘ اس معیار پر پورا اترنا ممکن نہیں۔ اس لیے لڑکی کو کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اور عام طور پر اس کا انتخاب گھر ہوتا ہے۔ یوں وہ سال‘ دو سال بعد گھر بیٹھ جاتی ہے۔ ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ سماج کو مختلف شعبوں میں خواتین ماہرین کا وجود لازم ہے۔ اس لیے لڑکیوں کی پیشہ ورانہ تعلیم کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔
مختلف شعبوں کے ماہرین ایک معاشرے کی ضرورت ہوتے ہیں۔ ایک ریاست ان کی تیاری پر بے پناہ وسائل خرچ کرتی ہے۔ جب کوئی تعلیم یافتہ فرد اپنی تعلیم سے سماج کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا تو دراصل وہ قومی وسائل کے ضیاع کا باعث بنتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ اس فردکی حق تلفی کا مرتکب بھی ہوتا ہے جو اس کی وجہ سے میڈیکل کالج یا پیشہ ورانہ تعلیم کے کسی ادارے تک نہیں پہنچ سکا‘ جسے کل ڈاکٹر یا انجینئر بن کر سماج کے ارتقا میں اپنا کردار ادا کرنا تھا۔ اس لیے یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس کا کوئی حل ہمیں تلاش کرنا ہو گا۔ میرے نزدیک اس حل کا آغاز والدین سے ہونا چاہیے۔ وہ جب بیٹی کو میڈیکل کالج یا پیشہ ورانہ تعلیم کے ادارے میں بھیج رہے ہیں تو انہیں یکسو ہونا چاہیے کہ ان کی بیٹی کو کل ایک پیشہ ورانہ کردار ادا کرنا ہے۔ وہ شادی کو اس میں حائل نہیں ہونے دیں گے۔ اسی طرح کے عزم کا اظہار لڑکی کی طرف سے بھی ہونا چاہیے۔ اس کے لیے قانون سازی بھی کی جا سکتی ہے۔
ہمارے ہاں ایک قانون موجود ہے‘ جس کے تحت جب کوئی طالب علم سرکاری وسائل سے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرتا ہے تو اسے پانچ سال کے لیے پابند کیا جاتا ہے کہ تکمیلِ تعلیم کے بعد‘ وہ لازماً ملک ہی میں خدمات سرانجام دے گا۔ بصورت دیگر اسے وہ رقم قومی خزانے کو لوٹانا ہو گی جو اس کی تعلیم پر خرچ ہوئی۔ یہی قانون پیشہ ورانہ تعلیم کے باب میں بھی ہونا چاہیے۔ اگر کوئی‘ لڑکی یا لڑکا‘ ڈاکٹر بننے کے بعد طب کے شعبے میں نہیں جاتے تو وہ تمام اخراجات حکومت کو ادا کریں جو ان کی تعلیم پر اُٹھے۔ جو اپنے خرچ پر پڑھتے ہیں‘ وہ اگر اپنا مال لٹانے پر آمادہ ہیں تو انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔
میری بیٹی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے۔ اس کی زبانی میں یہ کہانیاں سن چکا ہوں کہ اس کی کئی ہم جماعت مختلف مراحل پر 'اچھا رشتہ‘ ملنے پر تعلیم ادھوری چھوڑ کر چلی گئیں یا تعلیم مکمل کر نے کے بعد مکمل گھریلو زندگی گزار رہی ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ والدین کا مقصد ایک 'اچھے رشتے‘ کی تلاش تھی۔ بیٹی کو تعلیم بھی اسی لیے دلائی جا رہی تھی۔ جیسے ہی 'اچھا رشتہ‘ آیا تعلیم بے معنی ہو گئی۔ اگر مقصد اچھا رشتہ اور گھریلو زندگی ہے تو پھر صحیح طریقہ یہ ہے کہ بارہ برس کی بنیادی تعلیم کے بعد رسمی تعلیم کو منقطع کر دیا جائے۔ یا پھر پیشہ ورانہ تعلیم کی طرح چار سال کا 'سماجی زندگی‘ کا کوئی کورس کرایا جائے۔ اس وقت ایسا کوئی کورس موجود نہیں۔ میری تجویز ہو گی کہ حکومت بی ایس کی سطح پر‘ اس طرز کی کی ایک ڈگری شروع کرے۔ لڑکے کے والدین‘ جنہیں ایک اچھی گھریلو بہو اور بیوی کی تلاش ہے‘ وہ ایسی ڈگری یافتہ لڑکی کو ترجیح دیں۔ یہ ڈگری کچھ کم اہم نہیں۔ ایک اچھی بیوی اور بہو کا ہونا ایک خاندان کو بہت سے مسائل سے محفوظ رکھ سکتا اور ہمارے خاندانی نظام کو نئی زندگی دے سکتا ہے۔
لڑکوں کا معاملہ بھی یہ ہے کہ بلا سوچے سمجھے انہیں بی ایس اور ایم ایس کی تعلیم دلائی جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ ڈگریاں لے کر معمولی ملازمتوں کے لیے دھکے کھاتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم صرف ان نوجوانوں کو حاصل کرنی چاہیے جو اس کا طبعی میلان رکھتے ہیں اور کسی شعبۂ علم میں دادِ تحقیق دینا چاہتے ہیں۔ زبردستی ان پر ڈگریاں لادنا عقل مندی نہیں۔ ایسے نوجوانوں کے لیے صحیح لائحہ عمل یہ ہے کہ اگر وہ اعلیٰ تعلیم کا ذوق نہیں رکھتے اور تعلیم سے وابستہ ان کا واحد مقصد پیسے کمانا ہے تو انہیں بارہ سال کی بنیادی تعلیم کے بعد کوئی ہنر سکھا دیا جائے۔ اس طرح وہ وسائل اور قیمتی ماہ وسال ضائع کیے بغیر پیسہ کمانے کی اہلیت حاصل کر سکتے ہیں۔ معاشرے کو ہمیشہ مختلف اہلِ ہنر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ہنر مندوں کے لیے روزگار کے مواقع ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ ایم اے‘ بی اے طرز کی عمومی تعلیم کا سماج میں کوئی استعمال نہیں۔
تعلیم کے باب میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ انسان سازی کی بنیادی ذمہ داری پوری کر رہی ہے؟ پیشہ ورانہ مہارت تعلیم کا ضمنی فائدہ ہے۔ اس کا اصل کام ایک مہذب انسان بنانا ہے۔ ایسا انسان جو سماج میں خیر کے فروغ کا باعث بنے۔ جو اخلاقی طور پر حساس ہو۔ جو برائی سے فطرتاً دور رہتا ہو۔ ہم ریاستی اور سماجی سطح پر تعلیم کے ضمنی پہلو کو پہلی ترجیح بنائے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں‘ اسی وجہ سے یہ نظریہ پیش کیا جاتا رہا ہے کہ اصل تعلیم تو طبیعی علوم کی ہے‘ سائنس کی ہے۔ سماجی علوم یا دینی تعلیم تو وقت کا ضیاع ہیں۔ یہ ایک گمراہ کن تصور ہے۔ تعلیم کا اصل وظیفہ انسان کی اخلاقی‘ ذہنی اور جمالیاتی تربیت ہے۔ یہ مقصد مذہب‘ فلسفے اور فنونِ لطیفہ کی تعلیم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ بارہ برس کی بنیادی تعلیم کو انہی تین دائروں میں مقید ہونا چاہیے۔ شخصیت سازی پہلے بارہ برس میں ہو جاتی ہے۔ اس طرح جو انسان بنتا ہے‘ وہ کسی شعبے میں چلا جائے‘ اس کا جوہرِ انسانیت باقی رہتا ہے۔
سماج کی ا صلاح کا آغاز تعلیم کو درست خطوط پر استوار کرنے سے ہو گا۔ بھیڑ چال میں صرف بھیڑ ہی جمع کی جا سکتی ہے‘ سماج نہیں بن سکتا۔ تعلیمی ایمرجنسی کا اصل میدان یہ ہے۔