"KNC" (space) message & send to 7575

ناصح کیا کرے؟

ریاست میں ناصح کا اب کوئی کردار نہیں رہا۔ جب تصادم ناگزیر ہو جائے تو پھر ناصح کے لیے خیر اسی میں ہے کہ سیاست کو اس کے حال پر چھوڑ کر کسی اور طرف کا رُخ کرے۔
جب گلی بازار میں دو افراد لڑ پڑیں تو رہ گزر چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ فریقین اگر کسی کی سننے پر آمادہ نہ ہوں تو پھر وہ پیچھے ہٹ جاتے اور انہیں لڑنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ دونوں ادھ موا ہو کر الگ ہو جاتے ہیں یا پھر طاقتور کمزورکو زیر کر لیتا ہے۔ اس طرح انصاف شاید نہ ہو‘ فیصلہ ضرور ہو جاتا ہے۔ ریاست ہو یا سماج‘ فیصلوں ہی سے آگے بڑھتے ہیں۔ زندگی کو روکا نہیں جا سکتا۔ اگر فریقین عقل کی بات سننے پر آمادہ نہ ہوں تو پھر وقت اپنا فیصلہ سناتا ہے اور وہ بالجبر نافذ ہو جاتا ہے۔
صحافت کی مجبوری ہے کہ یہ مچھلی سیاست کے پانی ہی میں زندہ رہ سکتی ہے۔ صحافت اس صورت میں واقعات نگاری اور لاحاصل تجزیوں تک محدود ہو جاتی ہے۔ اہلِ سیاست پر اثر انداز ہونے کے قابل نہیں رہتی۔ ہمارے ہاں صحافت اس وقت یہی کام کر رہی ہے۔ کچھ اہلِ درد واویلا کر رہے ہیں مگر کوئی ان کو سننے پر آمادہ نہیں۔ نہ کچھ کہنے کا فائدہ نہ کچھ لکھنے کا۔ کہے اور لکھے سے بے نیاز معرکہ جاری ہے۔ سیاست کی وادیوں سے اب دانش کا گزر نہیں۔ اب کوئی کسی کو بڑا نہیں مانتا۔
سیاست کا معاملہ یہ ہے کہ اسے مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کوئی پروجیکٹ نہیں ہے جسے 'کیپ‘ کر دیا جائے۔ اس میں 'سٹیٹس کو‘ کو بھی برقرار نہیں رکھا جا سکتا‘ بالخصوص ان حالات میں جب گھمسان کا رن پڑا ہو۔ اس سے لاتعلق ہوا جا سکتا ہے‘ اسے روکا نہیں جا سکتا۔ اس لیے آج نہیں تو کل‘ اسے کسی انجام سے دوچار ہونا ہے کہ تصادم ایک غیر فطری حالت ہے جو تادیر بر قرار نہیں رکھی جا سکتی۔ ہم اسی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ناصحین اب خاموشی سے فیصلے کا انتظار کریں۔ وہ اگر چاہیں تو اپنے لیے کسی دوسرے میدان کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ جیسے تعلیم‘ جیسے ماحولیات۔ کم ازکم انہیں یہ احساس تو ہو گا کہ وہ کچھ کر رہے ہیں۔ اگر وہ دو افراد کی سوچ کو بدل سکے تو یہ بڑی کامیابی ہے۔ دو باتیں البتہ ایسی ہیں جن کا ادراک ضروری ہے۔ ایک یہ کہ زندگی کا پہیہ نہیں رکتا۔ وہ چلتا رہے گا۔ جیسے شام وعراق میں چل رہا ہے۔ جیسے غزہ میں چل رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ ارتقا بہرصورت جاری رہتا ہے۔ اس کو قبول کرنا ہے۔
اقتدار کی کشمکش نے معاشروں کو برباد کیا ہے‘ اگر اس کے طلبگار کسی حل پر متفق نہ ہوں۔ یہ حل ہمیشہ عملی ہوتا ہے۔ میں حق پر ہوں‘ لہٰذا میرا ہی مؤقف مانا جائے‘ سیاست میں قابلِ قبول نہیں۔ یہ مقدمہ سو فیصد درست ہو تو بھی غیر عملی ہے۔ سیاست میں ایسا ہوتا بھی نہیں کہ کوئی فریق سو فیصد درست ہو۔ جب ہم فریقین کو حق وباطل کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں تو صلح کے عمل کو مشکل بنا دیتے ہیں۔ ہمارا دین بھی ہمیں عملیت پسندی سکھاتا ہے۔ ایک رسول کی موجودگی میں حق وباطل اس طرح نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں کہ کسی اشتباہ کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ اس معاملے میں اتنے حساس ہیں کہ اگر منافق رسول کی صفوں میں آ جائیں تو انہیں بھی نمایاں کر دیتے ہیں تاکہ حق وباطل میں فرق کسی طور متاثر نہ ہو۔ اس کے باوصف‘ معاہدے کیے گئے اور کبھی کبھی دوسروں کی غیر منصفانہ بات بھی مان لی گئی۔ قرآن مجید نے یہ بھی کہا کہ دوسرا فریق صلح پر آمادہ ہو تو اس کو ترجیح دی جائے۔ یہ عملی تدبیر ہے۔ اس سے حق وباطل کا فیصلہ نہیں ہوتا‘ سماج ایک بڑے نقصان سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
اگر کوئی عقلِ عام کا یہ مطالبہ قبول کر نے پر آمادہ نہیں تو اس کا فیصلہ پھر وقت کرتا ہے۔ اسی لیے ناصحین ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ بعض روایات میں فتنے کے دور میں لوگوں کو جنگل کی طرف نکل جانے کا جو مشورہ دیا گیا ہے‘ اس کا پس منظر بھی یہی ہے۔ فتنہ یہی ہے کہ کوئی صلح کی بات نہ کرے اور تصادم کی طرف مائل رہے‘ اس زعم کے ساتھ کہ وہ حق پر ہے۔ فتنے کی بدترین صورت یہ ہے کہ معاملات کو عقل کے بجائے عصبیت‘ انتقام اور رومان کے حوالے کر دیا جائے۔ خوارج کا فتنہ بھی اسی نوعیت کا تھا۔ صالحیت اور حق پرستی کا زعم۔ خوارج کی بات لوگوں کو سمجھ میں آتی ہے کہ تاریخ کا واقعہ ہے۔ عصرِ حاضر کی خارجی سوچ کو سمجھنا مشکل ہو رہا ہے۔
حیرت اس وقت سوا ہو جا تی ہے جب اس رویے کے لیے پیغمبروں کی سیرت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ موسیٰ وفرعون کی مثال دی جاتی ہے۔ ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو بھی یہی حکم دے رہے ہیں کہ فرعون کے ساتھ نرمی سے بات کرنا۔ تصادم سے بچنے کے لیے اپنی قوم کو لے کر شہر سے نکل جاتے ہیں۔ وہ تو فرعون ہے جو پیچھا کرتا ہوا آیا اور اللہ کے عذاب سے دوچار ہوا۔ سیدنا مسیح علیہ السلام نے اپنی زندگی میں کہاں تصادم کو دعوت دی؟ ان کے دشمنوں نے انہیں اپنے تئیں مصلوب کیا مگر اللہ نے انہیں محفوظ رکھا۔ یہ سب باتیں مگر عقل کی ہیں۔ عقل کی وادی سے ہم پہلے ہی نکل آئے ہیں۔ اس لیے ایسی ہر دلیل بے اثر ہے جو عقل کو مخاطب بناتی ہے۔
سیاسی جدوجہد امکانات کو زندہ رکھتی ہے۔ تصادم ان کو ختم کر دیتا ہے۔ اس کا لازماً فیصلہ ہوتا ہے اور وہ اسی کے حق میں ہوتا جس کے پاس طاقت ہوتی ہے۔ طاقت کی مختلف صورتیں ہیں۔ اس کا تعلق سکہ رائج الوقت سے ہے۔ اگر طاقت بندوق میں ہے تو وہ فتح پائے گی۔ ہجوم میں ہے تو وہ فاتح ہو گا۔ ایران میں جب تصادم ہوا تو پھر کسی ایک ہی نے باقی رہنا تھا۔ بندوق پر ہجوم غالب آ گیا۔ اگر فریقین حکیم ہوں تو طاقت کا توازن بدل سکتا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ اس بات کو کم لوگ ہی سنتے ہیں۔ ان کو یہ سکھایا گیا ہے کہ عقل کی بات پر کان نہیں دھرنا‘ صرف دھرنے کی بات کو سننا ہے۔ اس میں افسوس کا پہلو یہ ہے کہ اس تصادم کو وہ لوگ ہوا دے رہے ہیں جو ملک میں نہیں ہیں۔ پُرسکون گھروں میں بیٹھ کر اُس آدمی کو تصادم پر ابھار رہے ہیں جس کا خون اگر سڑکوں پر بہہ جائے تو کسی کو پروا نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسا ظالمانہ رویہ ہے جس کی صرف مذمت ہی کی جا سکتی ہے۔ نصیحت کا باب تو بند ہو چکا۔
اس صورتِ حال میں پھر ناصح کیا کرے؟ وہ تذکیر کا حق ادا کرے تاکہ کل خدا کے حضور میں اپنی معذرت پیش کر سکے۔ حالات کا مشاہدہ کرتا رہے کہ وہ کس کر وٹ بیٹھتے ہیں۔ اس کے ساتھ اپنے لیے دوسرا میدان ڈھونڈ لے۔ جیسے سماجی تعلیم۔ سماج کو تو بہرحال باقی رہنا ہے۔ ناصح کو اپنی توجہ اس نسل پر مرتکز کر دینی چاہیے جسے ابھی پروان چڑھنا ہے۔ طائف والوں نے جب ظلم کی حد کر دی تو اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے ان کے حق میں بددعا نہیں کی کہ شاید ان کی نسلوں سے کوئی ایمان لے آئے۔ ناصح کوبھی اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے‘ کسی ایسے میدان کا انتخاب کر کے اپنی توانائیاں اس میں کھپا دینی چاہئیں۔ آج تو نہیں‘ کل اس کا نتیجہ نکلے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں