اقتدار کا کھیل آج بھی اتنا ہی بے رحم ہے جتنا صدیوں پہلے تھا۔ مجھے حیرت ہے لوگ اس کے کھلاڑیوں سے بھی محبت پال لیتے ہیں۔
اس کھیل میں دو طرح کے لوگ شریک رہے ہیں۔ ایک وہ جو فطری طور پر اس کا حصہ بنے‘ جیسے خاندانی سیاستدان۔ قدرت ہر کسی کو کوئی نہ کوئی ہنر اور صلاحیت دے کر دنیا میں بھیجتی ہے۔ کچھ لوگ سیاست کا میلان لیے دنیا میں آتے ہیں۔ یہ میلان اکثر نسل در نسل چلتا ہے۔ سب نہ سہی‘ اولاد میں کوئی ایک ایسا ہوتا ہے جو خاندانی سیاست کو آگے بڑھاتا ہے۔ بھٹو خاندان میں ایک سے زیادہ تھے۔ شریف خاندان میں بھی یہی ہوا۔ تاہم کچھ اس سے غیرمتعلق بھی رہے جیسے صنم بھٹو‘ جیسے عباس شریف۔ سیاسی خاندانوں میں جب غیر سیاسی افراد کو سیاسی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس سے سیاست اور خاندان‘ دونوں کو نقصان ہوتا ہے۔
دوسرے لوگ وہ ہیں جو اصلاح کی خواہش کے ساتھ سیاست میں آتے ہیں۔ تاریخ میں ایسے لوگ رہے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ سماجی ومعاشرتی اصلاح کا اصل میدان سماج نہیں‘ ریاست ہے۔ ریاست کی باگ اگر صالحین کے ہاتھ آ جائے تو اس کے نتیجے میں سماج بدل جاتا ہے۔ یہ فطرتاً اچھے لوگ ہوتے ہیں مگر ایک فکری مغالطے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ بالعموم اقتدار تک نہیں پہنچ سکتے۔ ان کی سعی وجہد کا حاصل نیک نامی ہوتی ہے۔ سماج کو اس کا بس اتنا فائدہ پہنچتا ہے کہ سیاست میں اچھی روایات زندہ رہتی ہیں۔ رہی تبدیلی تو وہ ان کے مقدر میں نہیں ہوتی۔
ان دنوں شام میں اقتدار کا یہ کھیل جاری ہے۔ عالمی طاقتیں ہوں یا مقامی گروہ‘ سب اس کھیل کا حصہ ہیں۔ یہ کھیل اسی طرح ویتنام اور افغانستان میں کھیلا گیا۔ عراق میں کھیلا گیا۔ فلسطین میں کھیلا جا رہا ہے۔ قدیم تاریخ میں بھی یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ اس کھیل میں عوام کو اپنا ہم نوا بنانے کے لیے رومان کا عنصر شامل کیا گیا۔ یہ رومان وطن اور مذہب جیسے فطری جذبات سے جوڑ دیا گیا۔ اقتدار کے فطری کھلاڑیوں نے اسے استعمال کیا اور مصلحین نے بھی‘ جذبہ محرکہ کے اختلاف کے ساتھ۔
مسلم اور غیر مسلم دنیا میں‘ یہ کھیل ایک جبلی تقاضے کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ غیر مسلم دنیا نے بڑی حد تک اس کھیل کو‘ کم ازکم داخلی سطح پر‘ ایک ضابطے کا پابند بنا لیا ہے۔ اقتدار کا کھیل ترقی یافتہ دنیا میں اسی طرح کھیلا جاتا ہے لیکن سماج کو کسی اضطراب میں مبتلا کیے بغیر۔ لوگوں کے جذبات بھی اس کھیل میں شامل ہوتے ہیں مگر اتنے ہی جتنے فٹ بال کے میچ میں ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا بھی کچھ عرصہ انقلاب کے مغالطے میں مبتلا رہی مگر اب اس نے جمہوریت کو اپنا کر اقتدار کے کھیل کو پُرامن بنا دیا ہے۔
مسلمان اس کھیل کو ابھی تک نہیں سمجھے۔ عوام الناس اسے ایمان کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی توانائیاں اقتدار کے کھیل میں‘ اسے ایمان کا حصہ سمجھ کر ضائع کر رہے ہیں۔ یہ ایران‘ سعودی عرب کی کشمکش ہو یا ایران‘ عراق کی لڑائی۔ افغانستان کی خانہ جنگی ہو یا شام کی موجودہ صورتحال۔ ہم ان واقعات کو مذہبی جذبات کی عینک لگا کر دیکھ رہے ہیں۔ ان کے لیے جان دے رہے ہیں اور مال بھی۔ اگر ہم ان معاملات کی حقیقت جان جا ئیں تو بڑے خسارے سے بچ سکتے ہیں۔
ہم اہلِ پاکستان کے لیے دنیا میں آنے والی ان تبدیلیوں میں عبرت کا بہت سامان ہے۔ یہاں حالات اچھے نہیں مگر ان میں اصلاح کا امکان موجود ہے۔ ہمارا مسئلہ حالات نہیں زاویۂ نظر ہے۔ ہم ایک ایسی سوچ کی گرفت میں ہیں جو تخریبی ہے۔ ہم اقتدار کے کھیل کو خیر وشر کا معرکہ بنا دیتے ہیں۔ ہم انسانوں میں دیوتا ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ہم بندوق سے دانش اور سیاست سے اصلاح برآمد کرتے ہیں۔ ایسی کوششوں کے مقدر میں ناکامی لکھی ہے۔
پاکستان میں اقتدار کے تمام کھلاڑی ابھی تک پرانی سوچ کی گرفت میں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اس کھیل میں طاقت کا استعمال فیصلہ کن ہے۔ کسی کا خیال ہے بندوق میں زیادہ طاقت ہے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ انسانی جذبات میں زیادہ طاقت ہے۔ کوئی نظریے کو طاقت سمجھتا ہے۔ بندوق تو ہمیشہ سے ہتھیار تھی‘ اب جذبات کو بھی ہتھیار بنا لیا گیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اب سب میں طاقت ہے۔ تہذیب نے مگر انسان کو یہ سکھایا ہے کہ یہ طاقت کا استعمال ہے جو انسان کو افضل بناتا ہے۔ اُسترا بندر کے ہاتھ میں ہو تو اس کا انجام سب پر واضح ہے۔ اگر انسان کے ہاتھ میں استرا وہی کام کرے جو بندر کے ہاتھ میں کرتا ہے تو پھر اسے سوچنا ہو گا کہ اس کی فضیلت کہاں گئی؟
اقتدار کا یہ کھیل بتاتا ہے کہ انسان اپنی جبلتوں کی گرفت میں ہے۔ 'تہذیبی‘ ارتقا صرف اس کے طریقہ واردات میں تبدیلی لا سکا ہے۔ آج بھی وہ اقتدار کے لیے لوگوں کے قتلِ عام کو روا سمجھتا ہے۔ دھوکا دہی اور جھوٹ کو جائز قرار دیتا ہے۔ پیغمبروں کے ماننے والے بھی خود کو کم ہی جبلتوں سے آزاد کر سکے ہیں۔ جنہوں نے خدا کے قانونِ آزمائش کو جانا ہے‘ وہ بھی دنیا داری میں کسی ایسے آدمی سے مختلف نہیں ہیں جو الہامی ہدایت کو نہیں مانتا۔ یہ مسلمانوں کی تاریخ ہو یا غیر مسلموں کی‘ اقتدار کی غلام گردشوں میں ایک جیسی کہانی لکھی جا تی رہی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ پاکستان میں بھی لوگ انسانی زندگی پر اقتدار کی بازی لگاتے ہیں۔ یہ بازی کوئی ایک فریق جیت جاتا ہے مگر انسان بہرصورت جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
مغرب اور ہم میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ وہاں انسان کی ان جبلتوں کا ظہور ہر میدان میں ہوا ہے۔ اس سے فنونِ لطیفہ اور دیگر میدانوں میں بھی انسان کے کمالات سامنے آئے ہیں۔ اس کی جمالیاتی حس نے بھی اپنا کمال دکھایا ہے۔ اگر ایک طرف طاقت کا کھیل جاری ہے جس میں انسانی لہو بے دردی سے بہایا جا رہا ہے تو دوسری طرف انسان دوسرے علوم میں بھی نئے افق دریافت کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں طاقت کی جبلت روبہ عمل ہے یا جنس کی۔ ہر طرف انہی کی کارفرمائیاں ہیں۔ یہ جبلتیں شترِ بے مہار ہیں اور ان سے صرف سماجی وسیاسی بحران ہی جنم لے سکتے ہیں اور وہ لے رہے ہیں۔ ہم اس قابل نہیں رہے کہ دنیا کو کچھ دے سکیں۔ ہمارے پاس الہامی دین کا سب سے مستند ماخذ موجود ہے جو انسانی اخلاقیات کی صورت گری کرتا ہے۔ ہم دنیا کے سامنے اخلاق کا کوئی اعلیٰ معیار پیش نہیں کر سکے۔
اسی لیے میں ہمیشہ عرض گزار رہا ہوں کہ ہم میں کچھ ایسے ہونے چاہئیں جنہیں اقتدار کے کھیل سے دلچسپی نہ ہو۔ وہ سماجی تعمیر میں اپنی صلاحیتیں صرف کریں۔ دیگر جبلتوں کو بروئے کار لائیں۔ ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ ایک آدھ آدمی جو مزاح لکھ سکتا تھا‘ اس نے خود کو پست سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ پہلے مزاحیہ شاعروں کے پاس میاں بیوی کے تعلقات کے علاوہ کوئی موضوع نہیں تھا۔ اب سیاست کے علاوہ کوئی موضوع نہیں ہے۔ معلوم نہیں عنایت علی خان جیسے لوگ کہاں گئے؟ اقتدار کے کھیل کو تو ہم بدلنے سے رہے۔ اس کے کھلاڑی اپنے رویے میں کسی تبدیلی پر آمادہ نہیں۔ اس نے ایک فطری انجام سے دوچار ہونا ہے۔ کوئی تو ہو جو سماج کو اس کی تباہ کاریوں سے محفوظ بنانے کی کوشش کرے۔ اگر سماج کی اقدار زندہ رہیں تو وہ سیاسی صدمے سہہ لے گا۔ بصورتِ دیگر سیاست کے یہ انداز سب کو لے ڈوبیں گے۔