نُصَیری یا عَلوی فرقے سے تعلق رکھنے والے اسد خاندان نے نصف صدی سے زائد تک شام پر حکومت کی‘ اُن کی حکومت آمرانہ اور جابرانہ تھی‘ وہ ایک اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتے تھے‘ اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ''اُلوہیتِ علی‘‘ کے قائل ہیں اور فقہِ جعفریہ میں بھی انہیں اسلام سے خارج مانا جاتا ہے۔ اس خاندان نے شام میں بہت ظلم ڈھائے ہیں اور قتلِ عام بھی کیا ہے۔ ایران‘ روس اور لبنان کی جماعت حزب اللہ نے ان کے خلاف برپا ہونے والی ہر تحریک کو کچلنے میں ان کی مدد کی۔ مگر آخرِ کار بشار الاسد مزاحمتی تحریک کی تاب نہ لا سکے اور دمشق سے فرار ہوکر روس میں پناہ لے لی۔ اُن کے انجام کو دیکھ کر قرآنِ کریم کی یہ آیت یاد آتی ہے: (ترجمہ:) ''(وہ) کتنے ہی (پُررونق) باغات‘ (شیریں) چشمے‘ (لہلہاتی) کھیتیاں‘ عالی شان محلات اور ناز ونِعَم کا سامان جس میں وہ دادِ عیش دے رہے تھے‘ اپنے پیچھے چھوڑ گئے‘ ایسا ہی ہوا اور ہم نے ان سب چیزوں کا دوسروں کو وارث بنا دیا‘ پس اُن کی بربادی پر نہ چشمِ فلک نے آنسو بہائے اور نہ زمین گریاں ہوئی اور نہ انہیں مہلت دی گئی‘‘ (الدخان: 25 تا 29)۔ یعنی خدائی فیصلے کا مقررہ وقت آنے کے بعد انہیں مہلت نہ ملی‘ اگرچہ قرآنِ کریم کی رو سے نافرمانوں کیلئے مہلت بھی زیادتیِ عذاب کا باعث بنتی ہے۔
آج واقعی پورے شام میں اس شاہی خاندان کو رونے والا کوئی نہیں ہے‘ اس خاندان کے افراد کو صرف اپنی جانیں بچا کر ہوائی جہاز کے ذریعے فرار ہونے کا موقع ملا‘ اُن کے عالی شان محلات‘ ناز ونعم‘ سامانِ عشرت‘ کرّوفر‘ داد ودہش سب قصۂ ماضی بن گئے۔ شاہ ایران کو 1979ء میں ایسے ہی حالات میں انقلاب کے موقع پر فرار ہونا پڑا تھا۔ شام میں مزاحمتی تحریکیں تو پہلے بھی چلتی رہیں‘ لیکن اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق امریکہ‘ روس‘ ایران اور حزب اللہ بشار کی مدد کو آتے رہے اور وہ تحریکیں ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ البتہ ان تحریکوں کے نتیجے میں شام کی وحدت پارہ پارہ ہو گئی اور کئی گروہوں نے بعض علاقوں کو اپنے زیرِ اثر رکھ لیا۔ ان میں جِبْھَۃُ النُّصْرَۃ‘ ترکی اورکُرد بھی شامل ہیں۔لیکن اچانک یہ تازہ ترین تحریک برپا ہوئی اورچند دنوں میں بشار الاسد کا تختہ الٹ گیا۔ یہ پیش رفت ناقابلِ تصور تھی‘ بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مقابل تحریکِ طالبانِ افغانستان سے بھی زیادہ سرعت کے ساتھ اس تحریک نے اپنی منزل کو پا لیا۔
یہ تحریک ''ھَیئَۃُ تَحْرِیْرِ الشَّام‘‘ کے نام سے منظم ہوئی‘ مغربی میڈیا نے ''ھیئۃ‘‘ کے صحیح تلفظ سے ناواقفی کی بنا پر اسے ''Hayat‘‘ رپورٹ کرنا شروع کیا۔ ''تحریر‘‘ کے معنی ہیں: آزاد کرنا اور ''ھیئۃ‘‘ کے معنی ہیں: '' نظمِ اجتماعی کی شکل‘‘۔ الغرض ہم اس کا ترجمہ ''تنظیمِ آزادیٔ شام‘‘ لکھ سکتے ہیں۔ اس کے رہنما بیالیس سالہ احمد حسین الشرع ہیں‘ ان کا عرفی نام ''ابومحمد الجولانی‘‘ ہے۔ عام طور پر فتح کے نشے میں سرشار لوگ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں‘ جشنِ فتح مناتے ہوئے خود سری کے عالَم میں قتل وغارت‘ لوٹ مار اور فساد کرتے ہیں‘ انسانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ابومحمد الجولانی نے کافی عزیمت کی زندگی گزاری ہے‘ 2006ء میں امریکی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد پانچ سال جیل میں بھی رہے ہیں‘ ان کا آبائی علاقہ جولان کا پہاڑی علاقہ ہی ہے‘ پھر ان کا خاندان وہاں سے ہجرت پر مجبور ہوا اور زندگی کی آزمائشوں‘ اذیتوں اور مشقتوں نے انہیں جنگجو بنا دیا۔ کہا جاتا ہے: کچھ عرصہ القاعدہ میں بھی رہے اور پھر اچانک ''ھیئۃ تحریر الشام‘‘ کے سربراہ کی حیثیت سے نمودار ہوئے اور ناقابلِ یقین حد تک انتہائی تیز رفتار فتوحات کے ذریعے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ یہ وقتی طور پر روس‘ ایران اور حزب اللہ کی بھی پسپائی ہے‘ دراصل اسرائیل نے پے درپے حملے کر کے اور حزب اللہ کی قیادت کو نشانہ بناکر اُن کی کمر توڑ دی‘ کیونکہ ایران کے زیرِ اثر لبنان کی حزب اللہ ہی بشار الاسد حکومت کی پشتیبان تھی۔
دمشق پر فتح پانے اور بشار الاسد کے فرار ہونے کے بعد ابومحمد الجولانی کی جو ابتدائی حکمتِ عملی سامنے آئی ہے‘ وہ کافی حد تک مثبت‘ تعمیری اورحوصلہ افزا ہے۔ انہوں نے کہا ہے: ''اب واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ شام ہمارا ہے‘ ہم انتقامی کارروائی نہیں کریں گے‘ جو سپاہ ہتھیار ڈال دیں گے‘ انہیں عام معافی دے دی جائے گی‘ فتح کی خوشی میں ہوائی فائرنگ کی بھی ممانعت کی گئی ہے‘‘۔ انہوں نے اس فتح کو تمام امت مسلمہ کی فتح قرار دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا: ''سارے سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ بشار حکومت کے وزیراعظم غازی الجلالی نے اقتدار باقاعدہ ''ھیئۃ تحریر الشام‘‘ کے نامزد رہنما محمد البشیر کو منتقل کر دیا ہے۔ الغرض اُن کی طبیعت میں بظاہر ٹھہرائو نظر آیا‘ فتح کے نشے میں سرشار ہوکر بے قابو نہیں ہوئے‘ جذبات پوری طرح قابو میں رہے‘ اُن کے منصِب اور حالات کی نزاکت کا تقاضا بھی یہی ہے۔
شام تفریق وتشتُت سے دوچار ہے‘ اُس کے حصے بخرے ہو چکے ہیں‘ کچھ حصہ ترکیہ نے بفر زون کے طور پر اپنے زیرِ اثر رکھا ہوا ہے‘ کچھ کردوں کے پاس ہے‘ کچھ جہادی گروہوں کے پاس ہے‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ شیرازہ بندی کی جائے‘ پورے شام کو ایک نظامِ اقتدار کے تحت متحد کیا جائے‘ سب کے حقوق کی پاسداری ہو اور ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑا جائے۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے بھی بشار حکومت کے زوال کا خیر مقدم کیا ہے‘ اُن کا ابتدائی تاثر مثبت ہے۔ لیکن شام کی سرزمین پر امریکہ اور روس کے فوجی اڈے بھی موجود ہیں‘ کامل آزادی تو تب ہو گی جب بیرونی افواج کا مکمل انخلا ہو جائے۔ اسرائیل نے جولان کی مقبوضہ پہاڑیوں کو اپنی ریاست میں ضم کر دیا ہے اور آگے بڑھ کر شام کی حدود میں اپنے لیے نیا بفر زون قائم کیا ہے‘ پس شام کے پورے علاقوں کو آزاد کرانا ایک بہت بڑا ہدف ہے۔ ابومحمد نے ایک بیان میں ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ''میرا خیال ہے کہ جیسے ہی موجودہ حکومت گرے گی تو شام میں غیر ملکی افواج کی ضرورت نہیں رہے گی‘‘۔ لیکن بشار حکومت گرنے کے بعد بھی غیر ملکی افواج کا انخلا ایک مشکل امر ہے‘ کیونکہ شام میں ہر ملک کے اپنے اپنے مفادات ہیں‘ شاید وہ ان سے بآسانی دست بردار نہ ہوں۔ مکمل انخلا کیلئے دانا وبینا اور صاحبِ بصیرت وتدبر قیادت کی ضرورت ہے‘نیز اسرائیل فلسطین تنازع کی موجودگی میں اپنی حکمتِ عملی طے کرنا بھی قیادت کی بصیرت وتدبر کا امتحان ہے۔ شاہ ایران‘ بشار الاسد اور افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد اُن کی فوجوں کا شکست قبول کر لینا اس بات کی دلیل ہے کہ جب سربراہِ حکومت خود پسپائی اختیار کر لے تو پھر فوجوں سے ایسی توقع رکھنا کہ وہ خون کے آخری قطرے تک مزاحمت کریں گی عبَث ہے‘ تاریخ کا سبق یہی ہے۔
ابومحمد الجولانی کی تحریک کی انتہائی تیز رفتاری سے اچانک فتح حیران کن ہے‘ کیونکہ امریکہ تاحال اس خطے میں موجود ہے اور اس کا اس انقلاب کو پایۂ تکمیل تک پہنچنے دینا ایک سربستہ راز ہے۔ حقائق سے آہستہ آہستہ پردہ اٹھے گا۔ ٹی وی پر امریکی ترجمان کا ایک ٹِکر چل رہا تھا: ''شامی انقلاب میں ہمارا 'براہِ راست‘ کوئی دخل نہیں ہے‘ اس کا مفہومِ مخالف یہ بنتا ہے کہ اس انقلاب کو بالواسطہ امریکہ کی اشیرباد حاصل ہے۔ انقلابی حکومت کے آئندہ اقدامات سے مترشح ہوگا کہ آیا یہ شام کا خالص قومی انقلاب ہے یا اسے بعض خارجی قوتوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے‘ نیز ترکیہ‘ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے مؤقف کا بھی انتظار رہے گا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل اس حکومت کے استحکام کے لیے معتَدبہ مالی تعاون کی پیشکش کرتے ہیں یا نہیں۔ اُن کی پیشکش سے یہ اشارہ مل سکتا ہے کہ اسے امریکہ کی خاموش حمایت حاصل ہے‘ نیز آیا انقلابی حکومت روس اور امریکہ کے اڈوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہے یا نہیں۔ بعض اشارات سے معلوم ہوا ہے کہ داعش بھی اپنے بعض زیرِ اثر علاقوں میں سر اٹھا رہی ہے‘ آیا وہ ''ھیئۃ تحریر الشام‘‘ سے مزاحم ہو گی یا نہیں‘ الغرض کئی سوالات کے جوابات آنے ہیں‘ اس کے بعد ہی حقیقی صورتحال سامنے آئے گی۔