شام میں حال ہی میں صرف 10دنوں کے دوران جو حکومتی تبدیلی آئی ہے‘ اس کا ایک پہلو تقریباً باعث ِاطمینان ہے کہ اس میں انسانی جانوں کا ضیاع نہیں ہوا ۔دارالحکومت دمشق میں داخل ہونے کے بعد باغی ملیشیا کے اتحاد کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے سرکاری ٹی وی پر عوام سے خطاب میں عام معافی کا اعلان کیا اور یقین دلایا کہ ایک منتخب حکومت کے وجود میں آنے تک سابقہ حکومت کے وزیراعظم ملک کے انتظامات چلاتے رہیں گے لیکن ناقابلِ یقین سرعت کے ساتھ گزشتہ 53 سال سے برسراقتدار رہنے ولے اسد خاندان کے دور کے خاتمے نے اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑے ہیں جن پر تمام دنیا خصوصاً امریکہ‘ یورپ اور مشرق وسطیٰ میں بحث کی جا رہی ہے ۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ملک چھوڑ کر جانے والے سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششیں 2012ء سے جاری تھیں مگر ان کی حکومت قائم رہی۔ دنیا حیران ہے کہ اب کون سی ایسی اہم وجوہات پیدا ہو گئی تھیں کہ ''ہیت التحریر الشام‘‘ کی سرکردگی میں باغی ملک کے بڑے شہروں پر برق رفتاری سے قبضہ کر تے ہوئے صرف دس دن میں دمشق پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ دوسرا‘ شام میں جو پہلے ہی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے عدم استحکام کا شکار چلا آ رہا ہے تو ملکی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سلامتی کا کیا مستقبل ہوگا؟ تیسرا‘ شام میں اس تبدیلی کے مشرق وسطیٰ خصوصاً فلسطین پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
جہاں تک پہلے سوال کے جواب کا تعلق ہے تو کہا جا رہا ہے کہ شام میں سابق حکومت کے خلاف لاوا کافی عرصے سے پک رہا تھا اور ترکیہ سمیت متعدد ممالک کی طرف سے بشار الاسد پر زور دیا جا رہا تھا کہ وہ ملک کے باغیوں کے ساتھ مذاکرات کر کے خانہ جنگی ختم کر کے حالات کو نارمل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شام کے دیگر چار ہمسایہ ممالک عراق‘ اردن‘ لبنان اور اسرائیل کے مقابلے میں اس کی ترکیہ کے ساتھ سرحد طویل ہے (899 کلو میٹر)۔ گزشتہ 12 برس کی خانہ جنگی کے نتیجے میں تقریباً 35لاکھ شامی باشندے اس سرحد کو پار کر کے ترکیہ میں پناہ گزین کی حیثیت سے مقیم ہیں۔ شام کے ساتھ طویل سرحدی علاقوں میں شامی باشندوں کی اتنی بڑی تعداد کی موجودگی ترکیہ کیلئے نہ صرف ایک سکیورٹی اور معاشی مسئلے کا درجہ رکھتی ہے بلکہ اس سرحد کی دوسری طرف شامی علاقوں میں ترک مخالف کرد ملیشیا نے بھی ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ترکیہ نے متعدد بار انہیں فضائی اور زمینی حملوں کا نشانہ بنایا ہے‘ سرحد کے ساتھ شامی علاقوں پر بفر زون بھی قائم کیا گیا مگر اتنی بڑی تعداد میں شامی مہاجرین کی موجودگی اور سرحد پار سے کردش نیشنلسٹ پارٹی کی کارروائیوں کو ترکیہ زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکا۔ اس کا حل یہی تھا کہ شام میں خانہ جنگی ختم ہو‘ شامی مہاجرین واپس چلے جائیں اور کرد ملیشیا شام کی سرزمین کو ترکیہ کے خلاف حملوں کیلئے استعمال نہ کر سکے۔ ترکیہ کی طرف سے مطالبے کے باوجود بشار الاسد باغیوں کے ساتھ مذاکرات میں تامل سے کام لے رہے تھے۔ ترکیہ اور سعودی عرب کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ سابق صدر بشار الاسد کا علاقائی طاقتوں اور شام کے دھڑوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے سیاسی حل نکالنے سے انکار ان کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنا۔ جہاں تک شام کی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سلامتی کا تعلق ہے ترکیہ‘ ایران‘ سعودی عرب‘ روس اور اقوام متحدہ کی طرف سے شام کی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سلامتی کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے؛ البتہ اسرائیل کے حالیہ اقدامات جن میں دمشق اور مشرقی شام کے علاقوں پر بمباری اور گولان کی مقبوضہ سطح مرتفع کے ساتھ واقع بفر زون میں اسرائیلی قبضہ شامل ہے‘ یوں شام کی نہ صرف آزادی بلکہ علاقائی سلامتی اور اندرونی استحکام کیلئے شدید خطرات ہیں۔ اس کے ساتھ امریکی سینٹرل کمانڈ کی طرف سے دمشق میں مبینہ طور پر داعش کے ٹھکانوں پر 75 فضائی حملے بھی خطرے کی گھنٹی ہیں ۔ داعش کی آڑ میں شام کے خلاف اسرائیل اور امریکی فوجی اقدامات کا مقصد شام کے سیاسی حالات پر اثر ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ شام تین کروڑ سے بھی کم آبادی اور تیل کی دولت سے محروم عرب دنیا کا ایک چھوٹا اور محدود آمدنی والا ملک ہے مگر اس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد عرب اسرائیل تنازع میں ایک اہم کردار ادا کیا ۔
امریکہ کے سابق سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر نے ایک دفعہ کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں مصر کے بغیر جنگ نہیں ہو سکتی اور شام کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔کیونکہ پوری عرب دنیا میں مصر سب سے زیادہ آبادی اور عسکری طاقت والا ملک ہے‘ لیکن شام نے عالم عرب کو انٹلیکچوئل لیڈر شپ فراہم کی ہے‘ جس کی سب سے نمایاں مثال عرب بعث پارٹی (1947ء) کا قیام ہے۔ سابق صدر بشار الاسد اور عراق کے صدر صدام حسین کی حکومتوں کا تعلق اسی پارٹی سے تھا جس نے عالم عرب میں ایک عرصہ تک سیکولر سوشلسٹ‘عرب قوم پرستی کا جھنڈا بلند کر رکھا تھا۔ مشرق وسطیٰ کی جیو پالیٹکس میں شام کے کردار کی بنیاد بحیرہ روم کے مشرقی ساحل کی اس پٹی پر واقع ہونا ہے۔بحیرہ روم ترکیہ کے جنوبی حصے سے شروع ہو کر لبنان‘ شام‘ فلسطین‘ مصر‘ لیبیا اور تیونس سے گزرتا ہوا الجزائر اور مراکش تک یورپ کے دفاع کیلئے مشرقی ڈھال کا کام کرتا ہے اور بحر اوقیانوس امریکہ اور کینیڈا کی دفاعی حکمت عملی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے امریکہ کی عالمی دفاعی حکمت عملی میں مشرق وسطیٰ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر واقع ملک شام اسی حکمت عملی کی ایک کڑی ہے۔
شام کی ایک اور خاصیت (خوش قسمتی یا بدقسمتی) یہ ہے کہ اس کی سرحدیں پانچ اہم ممالک یعنی ترکیہ‘ عراق‘ لبنان‘ اردن اور اسرائیل سے ملتی ہیں۔ اس جغرافیائی محل وقوع کے نتیجے میں شام کے اندرونی اور بیرونی معاملات ان سب ملکوں کی دلچسپی کا باعث بن کر شام میں مداخلت کا جواز بن جاتے ہیں۔ اس وقت اسرائیل نے شام کے علاقے سطح مرتفع گولان پر قبضہ کر کے اسے اپنا حصہ بنا لیا ہے‘ اس کے مشرقی حصے میں امریکی افواج موجود ہیں جبکہ ترکیہ کے ساتھ اس کے سرحد ی علاقے کے ایک وسیع حصے پر ترک افواج موجود ہیں۔ اس طرح نہ صرف شام کی آزادی اور خود مختاری بلکہ علاقائی سالمیت کو بھی خطرہ ہے۔ نئی حکومت کو حالات معمول پر لانے میں نہ صرف محنت کرنا پڑے گی بلکہ گزشتہ بارہ برس کی خانہ جنگی کی تباہ کاریوں کی وجہ سے اس میں دیر بھی ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس طویل خانہ جنگی میں تین لاکھ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور 56 لاکھ شامی باشندوں کو ہمسایہ ملک میں پناہ لینا پڑی ہے۔ ملک کے انفراسٹرکچر‘ شہروں کی عمارتوں‘ سڑکوں‘ پلوں اور سرکاری عمارتوں کی تباہی سے جو نقصان پہنچا وہ اس کے علاوہ ہے۔ شام اپنے وسائل سے ان نقصانات کی تلافی نہیں کر سکتا‘ اسے بین الاقوامی امداد پر انحصار کرنا پڑے گا۔
سابق صدر بشار الاسد کے ملک چھوڑنے اور ہیت التحریر الشام کے دمشق پر قابض ہونے سے خانہ جنگی کا خاتمہ ہو گیا ہے مگر کیا یہ امن مستقل طور پر برقرار رہے گا؟ اس سلسلے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کیونکہ سابق حکومت کی اپوزیشن میں متعدد مسلح گروپ شامل ہیں‘ اس لیے شام میں امن کا بہت حد تک انحصار ہیت التحریر کے رہنما ابو محمد الجولانی پر ہوگا کہ وہ کس حد تک دیگر گروپوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ انتخابات ہوں گے مگر انتخابات کیلئے پُرامن اور محفوظ ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اقتدار پر قبضہ کرنے والے گروپوں کو نیا آئین بھی تشکیل دینا پڑے گا جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ شام میں کون سا طرزِ حکومت (پارلیمانی‘ صدارتی یا ملا جلا) رائج کیا جائے گا۔ اس کیلئے نہ صرف وقت بلکہ اتفاقِ رائے پیدا کرنے کیلئے مصالحتی جذبہ اور طرزِ عمل بھی درکار ہو گا۔ شام میں امن‘ استحکام اور تعمیر نو کا انحصار اس کے ہمسایہ ممالک کے علاوہ ایران‘ سعودی عرب‘ روس‘ امریکہ اور اسرائیل کے رویے پر بھی ہوگا۔