سویلین کے ایک معنی ہیں: ''جو برّی‘ بحری اور فضائی دفاعی افواج کا حصہ نہ ہو‘‘۔ عام طور پر فوجی یا سپاہی اُسے کہتے ہیں جو وردی پہنتے ہیں حتیٰ کہ مسلح افواج کے اداروں میں ایسے پروفیشنل‘ ٹیکنیشن اور دفتری عملہ جو یونیفارم نہیں پہنتا‘ انہیں بھی سویلین کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے انٹیلی جنس اداروں میں بھی فوجی عہدیدار اور سویلین‘ دونوں طرح کے افراد شامل ہوتے ہیں۔ اکیسویں صدی کے شروع میں جب پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کا دور آیا تو نظریاتی اعتبار سے وہ سیکولر لبرل تھے‘ چنانچہ انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اپنی پہلی تصویر جو میڈیا پر جاری کی اُس میں وہ اپنی بغلوں میں کتے کے دو پِلّے اٹھائے ہوئے تھے اور اس سے مغرب کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ میں آپ کی تہذیب کا دلدادہ ہوں۔
امریکی سینیٹ کے ایک رکن ولیم فل برائٹ تھے‘ انہوں نے یہ سوچا کہ ہم امریکی دنیا کے ممالک کو امداد دیتے ہیں اور ہمیں اس کے صلے میں نفرت ملتی ہے‘ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم حکومتوں سے رابطے میں ہوتے ہیں‘ جبکہ وہاں کے عوام اپنی حکومتوں سے نالاں رہتے ہیں‘ چنانچہ حکومت سے نفرت ہماری طرف منتقل ہو جاتی ہے لہٰذا ہمیں ان ممالک کی سول سوسائٹی سے روابط پیدا کرنے چاہئیں تاکہ یہ نفرت قربت میں تبدیل ہو اور وہاں کے عوام میں ہمارے لیے قبولیت پیدا ہو۔ امریکی سینیٹ میں یہ قرارداد منظور ہوئی اور انہی کے نام پر 1946ء میں فل برائٹ سکالرشپ پروگرام جاری ہوا۔ اس کے تحت سوسائٹی کے نمایاں افراد کو امریکہ بلا کر مختلف مکالماتی پروگراموں میں شرکت کا سلسلہ شروع کیا گیا‘ ان میں صحافی‘ علما اور معاشرے کے دیگر طبقات کے افراد بھی تھے۔ پھر 2009ء میں امریکی کانگریس نے کیری لوگر ایکٹ پاس کیا اور اس کے تحت 2010ء سے 2014ء تک سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی غیر فوجی امداد کی منظوری دی گئی‘ اس میں یہ قرار دیا گیا کہ اس رقم کا ایک معتَد بہ حصہ براہِ راست حکومتِ پاکستان کو دینے کے بجائے سول سوسائٹی کے ذریعے خرچ کیا جائے گا‘ چنانچہ اسکے نتیجے میں این جی اوز کی ایک دنیا آباد ہو گئی۔ نام تو سول سائٹی کا تھا مگر اس میں فیشن کی دلدادہ خواتین‘ پُرتعیش گاڑیوں میں نظر آئیں اور ہوٹلوں میں سیمینار ہونے لگے۔ پسماندہ علاقوں کے لوگ اس طبقے کو اپنے درمیان دیکھ کر اجنبی محسوس کرنے لگے‘ جب لوگوں نے فیشن پرست نوجوان خواتین کو پُرتعیش گاڑیوں میں دور دراز دیہی علاقوں میں گھومتے ہوئے دیکھا تو اس کا اثر بھی منفی مرتب ہوا اور لوگ سمجھنے لگے کہ یہ ہمارے نام پر عیاشی کر رہے ہیں۔
الغرض سول سوسائٹی کے نام پر ایک نیا فیشن پرست‘ تہذیبِ جدید کے رنگ میں رنگا ہوا طبقہ وجود میں آیا‘ سو آج ہم نے سوچا کہ ذرا معلوم کریں: مغرب والوں کے نزدیک سول سائٹی کیا ہے۔ ہم نے گوگل سے مختلف تعریفات نکالیں‘ ان کا خلاصہ یہ ہے: (1) ''یہ معاشرے کا ایک طبقہ ہے جو حکومت اور کاروبار سے الگ تھلگ ہے‘ یہ خاندانوں اور نجی لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے‘‘۔ (2) ''عالمی بینک کی تعریف کے مطابق: سول سوسائٹی مختلف تنظیمات‘ معاشرے کے مختلف گروہوں‘ غیر سرکاری تنظیموں‘ مزدور یونینوں‘ خودمختار گروہوں‘ خیراتی اداروں‘ عقیدے پر مبنی تنظیموں‘ مختلف پیشہ ورانہ تنظیموں اور فائونڈیشنوں کا نام ہے‘‘۔ (3) ''سول سوسائٹی شہریوں کی ایسی تنظیم کا نام ہے جو مشترکہ مفادات یا اجتماعی سرگرمیوں پر مشتمل ہو‘‘۔ لیکن ہمارے ہاں اگر این جی اوز کی بیگمات کراچی کے کلفٹن چوک‘ ڈی ایچ اے چوک‘ پریس کلب یا لاہور واسلام آباد کے ایسے مقامات پر پلے کارڈ یا بینر لے کر کھڑی ہو جائیں‘ خواہ اُن کی تعداد پچیس تیس ہو‘ تو یہ میڈیا کے نزدیک سول سوسائٹی ہے‘ انہیں سوشل ومین سٹریم میڈیا پر بار بار دکھایا جائے گا‘ پلے کارڈ پر اس طرح کے نعرے لکھے ہوتے ہیں ''میرا جسم‘ میری مرضی‘‘ وغیرہ۔
ایک تصور یہ ہے کہ حکومتیں جو آمرانہ اقدامات کرتی ہیں یا شہری آزادیوں کو سلب کرتی ہیں تو سول سوسائٹی اس کے خلاف احتجاج کرتی ہے‘ صنفی مساوات بھی ان کا نعرہ ہے۔ اب سوال یہ ہے: سول سوسائٹی کی تعریف میں مشترکہ عقائد یا مقاصد پر مبنی تنظیمیں بھی شامل ہیں‘ سو فیشن پرست بیگمات کا پچیس‘ پچاس افرادکا مظاہرہ تو بہت اہم ہے اور حقِّ اظہارِ رائے کا علمبردار ہمارا میڈیا اسے تو بار بار دکھاتا ہے‘ لیکن جب مذہبی لوگوں کا ہزارہا کا اجتماع ہو اور وہ اپنے کسی جائز مقصد کیلئے احتجا ج یا جلسہ کریں یا مظاہرہ کریں تو وہ ہمارے لبرل میڈیا کے نزدیک قابلِ توجہ نہیں‘ بلکہ قابلِ نفرت ہوتے ہیں۔ وہ اس پر منفی تبصرے تو کریں گے‘ لیکن ان کی آواز کو عوام تک پہنچنے نہیں دیں گے۔ بلکہ بعض لبرل صحافیوں اور یوٹیوبرز کو ہم نے بارہا یہ کہتے سنا کہ ''میں مذہبی کارڈ کا مخالف ہوں‘‘۔ پس سوال یہ ہے کہ آپ کی مذہبی کارڈ سے کیا مراد ہے‘کیا اہلِ مذہب اپنے گلے میں کوئی کارڈ آویزاں کرتے ہیں جو آپ کو اچھا نہیں لگتا یاکیا یہ اُن کا شہری حق نہیں ہے کہ ان کی آواز کو بھی دوسروں تک پہنچنے دیا جائے۔ اُس آواز یا پیغام کو قبول یا ردّ کرنا عوام کا کام ہے‘ میڈیا نے اپنی پسند وناپسند کو دوسروں پر مسلّط کرنے کا حق ازخود کیسے حاصل کر لیا۔ اسرائیل میں کئی مذہبی جماعتیں ہیں‘ جرمنی میں کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی موجود ہے‘ اسی طرح اور ممالک میں بھی ہیں‘ وہاں تو کوئی اسے مذہبی کارڈ سے تعبیر نہیں کرتا‘ بلکہ انہیں اپنے منشور کے ابلاغ کے یکساں مواقع حاصل ہوتے ہیں۔
مذہبی عصبیت کا تو بہت رونا رویا جاتا ہے‘ جبکہ سیاسی عصبیت تو اس سے بہت آگے نکل چکی ہے اور آج کل سیاسی عصبیت نے معاشرے میں جو انتشار‘ تفریق اور نفرتیں پیدا کی ہیں‘ اس نے خاندانوں اور برادریوں کو بھی تقسیم کر دیا ہے‘ گالی گلوچ اور دوسروں کی توہین وتذلیل کو شعار بنا لیا گیا ہے‘ لیکن ان طبقات پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک بلاشبہ مذہبی عصبیت ناپسندیدہ ہے اور رسول اللہﷺ نے اس کی شدید مذمت فرمائی ہے‘ آپﷺ نے فرمایا: ''جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی‘ وہ ہم میں سے نہیں ہے‘ جو عصبیت کی خاطر لڑا‘ وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جس کی موت عصبیت پر واقع ہوئی‘ وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘ (ابودائود: 5121)۔ ایک صحابی نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: یارسول اللہﷺ! عصبیت کیا ہے‘ آپﷺ نے فرمایا: عصبیت یہ ہے کہ تم ظلم پر اپنی قوم کے حامی اور مددگار بن جائو‘‘ (ابودائود: 5119)۔ اس کے برعکس ہم ''تصلُّب فی الدین‘‘ کے قائل ہیں اور یہ ایک قابلِ ستائش صفت ہے‘ اس کے معنی ہیں: اپنے عقیدے پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنا اور کسی مداہنت یا مصلحت پرستی سے کام نہ لینا۔ جب مشرکین مکہ نے رسول اللہﷺ کو پیشکش کی کہ ہمارے درمیان اتحاد کی کوئی صورت نہیں بن پا رہی تو ہم ایسا کیوں نہ کر لیں کہ ایک سال ہم آپ کے معبود (اللہ تعالیٰ) کی عبادت کریں اور ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں‘ اس طرح درمیانی راستہ نکل آئے گا‘ تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکافرون میں اس کا ردّ فرمایا: ''آپ کہہ دیجیے! اے کافرو! میں اُن کی عبادت نہیں کروں گا جن کی تم کرتے ہو اور نہ تم اُس (معبودِ برحق) کی عبادت کرنے والے ہو‘ جس کی مَیں عبادت کرتا ہوں‘‘ (الکافرون: 1 تا 3)۔ پھر اگلی دو آیات میں اسی مضمون کا اعادہ فرمایا گیا اور آخر میں فیصلہ کُن انداز میں فرمایا: ''تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین‘‘ (الکافرون: 6)۔ بلکہ ایک بار آپﷺ کے چچا ابوطالب نے قریشِ مکہ کے مطالبے پر آپﷺ کو اپنے مشن سے دستبردار ہونے کیلئے کہا تو آپﷺ نے فرمایا: ''چچا جان! اگر یہ لوگ مجھے دعوتِ حق سے دستبردار کرنے کیلئے سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر لا کر رکھ دیں تب بھی میں دعوتِ حق سے ہرگز باز نہیں آئوں گا (اور اپنے مشن کو ہر قیمت پر جاری رکھوں گا) حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو غالب کر دے یا دعوتِ حق کا فریضہ ا دا کرتے ہوئے میں شہید ہو جائوں‘‘ (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد‘ ج: 2‘ ص: 327)۔ علامہ اقبال نے کہا تھا: باطل دوئی پسند ہے‘ حق لاشریک ہے؍ شرکت میانۂ حق وباطل نہ کر قبول