بشار الاسد آنکھوں کا ڈاکٹر تھا مگر اندر سے نابینا تھا۔ یہ سقم اسے باپ سے وراثت میں ملا تھا۔
ایک سرکاری ادارے میں غبن کا کیس پکڑا گیا۔ بینک سے ساز باز کر کے یہ مجرم ہر ماہ ایک خطیر رقم ہڑپ کرتا رہا یہاں تک کہ کئی ماہ گزر گئے اور اس نے کروڑوں روپے جمع کر لیے۔ بالآخر پکڑا گیا۔ تفتیش کرنے والے افسر نے اس سے ایک دلچسپ سوال پوچھا کہ جب ایک معقول رقم جمع ہو گئی تھی تو پکڑے جانے سے پہلے بھاگ کیوں نہ گئے؟ اس نے کفِ افسوس ملتے ہوئے جواب دیا کہ ''سر! یہی تو غلطی ہو گئی۔ ہر ماہ سوچتا تھا کہ اب امریکہ بھاگ جاؤں مگر پھر اپنے آپ کو سمجھاتا کہ کچھ روپیہ مزید جمع کر لوں۔ یہی کشمکش جاری رہی اور آخرکار میں پکڑا گیا‘‘۔ ایک آمر کی یہی ذہنیت ہوتی ہے۔ بشا ر الاسد نے حسنی مبارک‘ قذافی اور زین العابدین وغیرہ کا انجام دیکھا مگر سبق نہ حاصل کر سکا۔ آنکھوں پر خود بینی‘ خود پسندی اور خود فریفتگی کی چربی چڑھ جاتی ہے۔ عقل پر پتھر پڑ جاتے ہیں۔ سامنے دیوار پر لکھا نہیں نظر آتا۔ کہتے ہیں یحییٰ خان نے لوگوں کے نعرے سنے تو حیران ہو کر کہا ''میں نے کیا کیا ہے؟‘‘۔ آپ آمروں کی عقل دیکھیے۔ تیونس کا ڈکٹیٹر زین العابدین جب جان بچا کر سعودی عرب جا رہا تھا تو مسلسل اس خیال میں تھا کہ جلد ہی واپس آکر حکومت دوبارہ سنبھال لے گا۔ بی بی سی نے بعد میں اُس وقت کی گفتگو کی ریکارڈنگ حاصل کر لی تھی۔ وہ وزیر دفاع کو فون کر کے کہتا ہے کہ وہ چند ہی گھنٹوں میں ملک واپس لوٹ آئے گا۔ پھر وہ اپنے قریبی ساتھی کمال الطائف سے بات کرتا ہے۔ الطائف صاف صاف کہتا ہے کہ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ اس کے باوجود زین العابدین اس سے پوچھتا ہے ''کیا تم مجھے مشورہ دیتے ہو کہ میں واپس آجاؤں؟‘‘۔ اس پر الطائف کہتا ہے کہ حالات خراب ہو رہے ہیں۔ پھر و ہ آرمی چیف راشد عمار سے وہی سوال کرتا ہے کہ کیا وہ تیونس واپس آ سکتا ہے؟ اس پر آرمی چیف محتاط ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ بہتر ہے ابھی انتظار کریں۔ اب زین العابدین پھر وزیر دفاع کو فون کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا وہ واپس آ جائے؟ وزیر دفاع بتاتا ہے کہ آپ آ گئے تو آپ کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ جب جہاز سعودی عرب اترتا ہے تو بادشاہ کے محل کی طرف جاتے ہوئے پائلٹ کو کہتا ہے کہ انتظار کرے‘ واپس تیونس جانا ہے۔ مگر پائلٹ حکم عدولی کرتے ہوئے فوراً واپس چلا جاتا ہے۔ صبح آنکھ کھلتے ہی پھر وزیر دفاع کو فون کر کے حالات کے بارے میں پوچھتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ سڑکوں پر انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں اور عوام میں ایسا غصہ ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اس کے جواب میں زین العابدین کہتا ہے ''میں نے کیا کیا ہے؟ میں نے عوام کی خدمت کی ہے‘‘۔ یہ ہے وہ نفسیاتی خود پسندی جس میں دنیا کا ہر ڈکٹیٹر مبتلا رہتا ہے‘ یہاں تک کہ وقت اسے یوں نکال پھینکتا ہے جیسے دودھ سے مکھی نکالی جاتی ہے۔ یہی ضیا الحق کے ساتھ ہوا۔ جہاز میں ہلاک ہونے سے چند دن پہلے وفاقی وزارتِ خزانہ میں اس نے کہا تھا کہ ابھی اس کا جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ آمروں کا آئی کیو صفر ہوتا ہے۔ عقل ہوتی تو قناعت کرتا‘ انتخابات کروا کر حکومت چھوڑ دیتا اور آرام سے گھر بیٹھتا مگر قدرت آمروں کو یہ سزا دنیا ہی میں دیتی ہے کہ وہ عزت سے ریٹائر ہو کر زندگی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ یوگنڈا کے آمر عِدی امین کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ لاکھوں مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارنے والا یہ آمر دماغی خلل میں بھی مبتلا تھا۔ جب برطانیہ نے سفارتی تعلقات منقطع کیے تو عِدی امین نے اپنے آپ کو برطانیہ کا فاتح قرار دیا‘ اس نے اپنا مکمل سرکاری نام مع القابات‘ یوں رکھا:
"His Excellency, President for Life, Field Marshal Al Haji Doctor Idi Amin Dada, DSO, (Distinguished Service Order) MC, (Military Cross) CBE, (Conqueror of British Empire) Lord of All the Beasts of the Earth and Fishes of the Seas and Conqueror of the British Empire in Africa in General and Uganda in Particular"
اس نے اپنے آپ کو سکاٹ لینڈ کا بھی بادشاہ قرار دیا۔ جلاوطن ہو کر سعودی عرب میں مرا۔
بشار الاسد کو دیکھیے۔ اس کا باپ حا فظ الاسد تیس برس سیا ہ وسفید کا مالک رہا۔ تمام حساس پوسٹوں پر اپنے فرقے کے افرادکو تعینات کیا۔ یہ ایک پولیس سٹیٹ تھی۔ ہر فرد دوسرے پر سرکاری جاسوس ہونے کا شک کرتا۔ جیلیں قیدیوں سے بھری جاتی رہیں۔ تیس سال حکومت کرنے کے بعد حافظ الاسد 2000ء میں بادلِ نخواستہ‘ دنیا چھوڑ گیا۔ بیٹا بشار الاسد اس سے بھی کئی ہاتھ آگے نکل گیا۔ تمام اہم پوسٹوں پر اپنے فرقے کے لوگ بٹھائے۔ جیلیں اختلاف کرنے والوں سے اور ذرا سی بھی چوں چرا کرنے والوں سے بھر گئیں۔ کبھی کھوپڑی میں یہ بات نہ آئی کہ بہت حکومت کر لی‘ بہت کما لیا‘ بہت کچھ اکٹھا ہو چکا۔ اب تخت سے اتر جاؤں ۔ اپنے ملک میں انتقام کا ڈر تھا تو انتخابات کرانے کے بعد کسی اور ملک میں چلا جاتا۔ مگر وہ ایک احمق شخص تھا۔ اس نے نکولائی چاؤ شیسکو‘ شاہ ایران‘ زین العابدین‘ حسنی مبارک اور عِدی امین جیسوں کے انجام سے کچھ نہ سیکھا اور آج ایک پناہ گزین بن کر پوتن کے دروازے پر پڑا ہے۔
پسِ تحریر: میرٹ کُشی میں ہر حکومت نے اپنا حصہ ڈالا ہے مگر (ن) لیگ کی حکومت اس سلسلے میں ہمیشہ اول نمبر پر رہی ہے۔ ذرا یہ خبر دیکھیے: ''وزیراعظم نے ٹاپ کی پانچ بیرونی تعیناتیوں کو امتحان سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ جنیوا میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے سفیر کی پوسٹ مشتہر نہیں ہو گی۔ برسلز میں اکنامک منسٹر کی پوسٹ بھی مشتہر نہیں ہو گی۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جنیوا میں دو اور بھی اہم پوسٹوں (ٹریڈ قونصلر اور سرمایہ کاری قونصلر) کے لیے بھی کوئی امتحان نہیں لیا جائے گا۔ ڈائریکٹر ای سی او تہران کی پوسٹ بھی مشتہر نہیں ہو گی۔ ان اسامیوں کے لیے کوئی تحریری امتحان بھی نہیں ہو گا۔ صرف انٹر ویو ہو گا۔ ان اسامیوں کے حوالے سے ایک سپیشل سیلیکشن بورڈ بنایا جائے گا۔
اندازہ لگائیے ملک کی حالت کیا ہے اور زوال کے اس پاتال میں بھی حکومت میرٹ کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب پوسٹ مشتہر نہیں ہو گی تو نام نہاد سلیکشن بورڈ کن امیدواروں کا انٹرویو لے گا؟ یہ امیدوار کہاں سے آئیں گے؟ اتنی اہم اسامیوں کو مشتہر نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اصولی طور پر ان اسامیوں کو نجی شعبے سے پُر کرنا چاہیے اور وہ بھی مقابلے کے بعد خالص میرٹ پر۔ نوکر شاہی نے جو تیر مارے ہیں‘ ان کا نتیجہ قوم بھگت رہی ہے۔ (ن) لیگ کی حکومت نے پہلے بھی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن پر اپنے ایک چہیتے افسر کو سفیر تعینات کیا جس کا بین الاقوامی تجارت سے دور کا تعلق بھی نہ تھا۔ ایسے ''اپنے بندوں‘‘ کو مسلسل نوازا جاتا رہا ہے۔ مثالیں بہت ہیں۔اب جو یہ بڑی بڑی تعیناتیاں اشتہار کے بغیر‘ امتحان کے بغیر‘ کی جائیں گی تو اس اقدام کے پیچھے جو نیت ہے اور جو ارادہ ہے وہ صاف ظاہر ہو رہا ہے!! ریڑھ کی ہڈی سے محروم پارلیمنٹ اور یس سر‘ یس سر کہنے والی کابینہ سب خاموش رہیں گے۔ اعلیٰ عدلیہ کی خدمت میں درخواست ہے کہ ازخود نوٹس لے کر یہ تو پوچھے کہ جب پوسٹیں مشتہر نہیں ہوں گی تو امیدوار کون ہوں گے اور انٹرویو کن کا لیا جائے گا؟ اس میں تعجب ہی کیا ہے کہ بین الاقوامی تجارت کے حوالے سے ہم ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں! یا دوست نوازی یا اقربا پروری! تیرا ہی آسرا!